عالمی یومِ تحفظ جنگلی حیات: بلوچستان میں جنگلی حیات کے تحفظ و فروغ کی اہمیت

تحریر: امیرہ یوسف

ہر سال 3 مارچ کو عالمی یوم تحفظ جنگلی حیات منایا جاتا ہے، جس کا مقصد جنگلی حیات کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور اس کے لیے عالمی سطح پر اقدامات کو فروغ دینا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جنگلی حیات نہ صرف ہمارے ماحولیاتی نظام کا اہم حصہ ہے، بلکہ یہ ہماری زمین کے حسن اور تنوع کو بھی برقرار رکھتی ہے۔ بلوچستان اپنے وسیع رقبے، متنوع جغرافیائی خطوں اور قدرتی وسائل کی وجہ سے جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے ایک اہم علاقہ ہے۔ بلوچستان نایاب جنگلی حیات کا مسکن ہے، جہاں سلیمان اور چلتن مارخور،اڑیال،چنکارہ، سیاہ ریچھ،مختلف قسم کےسانپ، چکور، تلور ، کونج اور پرندے، سبز کچھوے اورمگرمچھوں سمیت نادر سمندری حیات سمیت دیگر انواع کو شدید معدومیت کا سامنا ہے۔ بلوچستان میں آبادی کا دباؤ نسبتاً کم ہے اور رقبہ زیادہ ہونے کی وجہ سے یہاں جنگلی حیات کے مسکن، چراگاہیں اور قدرتی ماحول کافی حد تک محفوظ تصور کی جاتی رہی ہیں۔ لیکن حالیہ چند سالوں میں موسمی تبدیلیوں ، غیر قانونی شکار، بغیر منصوبہ بندی کے آبادیوں کا پھیلاؤ، حیاتیاتی تنوع ،جنگلات اور جنگلی حیات سے متعلق علم و آگاہی کی کمی، جنگلوں میں متواتر آگ لگنے کے واقعات اور بطور ایندھن انکی بے دریغ کٹائی ، بے ہنگم شہری اور صنعتی ترقی ،جنگلات کے زمینوں پر قبضے و تجاوزات سمیت دیگر اہم وجوہات کی بناء پر صوبہ کی حیاتیاتی تنوع کو کافی نقصان پہنچا ہے اور جنگلی حیات کی نسلیں معدومی کے خطرے سے دوچار بتائی جا رہی ہیں ، جبکہ کچھ کو بقا کے سنگین مسائل درپیش ہیں۔ ٹی جے رابرٹس، جو برصغیر کی جنگلی حیات اور قدرتی ماحول پر ایک معتبر سند مانے جاتے ہیں، اپنی کتابوں ’میملز آف پاکستان‘ اور ’بائیو ڈائیورسٹی ایکشن پلان پاکستان‘ میں بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ممالیہ جانوروں کی کل تعداد 188 ہے، جن میں سے 71 بلوچستان میں پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح پرندوں کی 666 اقسام میں سے 356 بلوچستان میں موجود ہیں۔ رینگنے والے جانوروں (ریپٹائلز) کی 174 اقسام میں سے 94 بلوچستان میں پائی جاتی ہیں، جبکہ جل تھلی جانوروں (ایمفیبیئن) کی 14 اقسام میں سے آٹھ یہاں موجود ہیں۔ یہ اعداد و شمار بلوچستان کو پاکستان کے حیاتیاتی تنوع کا ایک اہم مرکز بناتے ہیں۔ تاہم بین الاقوامی تنظیم یونین آف کنزرویشن (IUCN) کی ریڈ لسٹ کے مطابق پاکستان کی 12 جنگلی حیات کی نسلیں معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں جبکہ 11 معدوم ہونے کے قریب ہیں اور خبردار کیا ہے اگر حالات بہتر نہ ہوئے تو مزید 10 جانوروں اور دیگر جنگلی حیات کی نسلیں بھی خطرے میں آ سکتی ہیں۔ یہ صورتحال بلوچستان میں جنگلی حیات کے تحفظ کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتی ہے۔ بلوچستان میں جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے 3 نیشنل پارکس، 14 جنگلی حیات کی پناہ گاہیں،7 گیم in ریزروز، 8 کمیونٹی گیم ریزرو، 5 رامسر سائٹس، 1 میرین پروٹیکٹڈ ایریا، 1 شریک انتظامی علاقہ، 1 بایوسفیئر ریزرو موجود ہیں۔ جن میں چلتن، تکتوو، اور ہنگول نیشنل پارکس کو خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ حکومت بلوچستان اور محکمہ جنگلات و جنگلی حیات نے صوبے میں حیاتیاتی تنوع اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد نہ صرف جنگلی حیات کو معدومی کے خطرے سے بچانا ہے بلکہ ان کے قدرتی مسکن کو بھی محفوظ بنانا ہے ان میں سنہ 1974 کا بلوچستان فارسٹ اینڈ وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ، اس قانون کے تحت جنگلی حیات کے شکار، تجارت اور ان کے مسکن کی تباہی پر پابندی عائد کی گئی تھی ۔ اسی طرح 2014 میں جنگلی حیات کے قانون میں ترامیم کی گئی تاکہ عصری تقاضوں کے مطابق جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کیے جا سکیں۔ اس میں جرمانے اور سزاؤں میں اضافہ کیا گیا، تاکہ جنگلی حیات کے تحفظ کو زیادہ موثر بنایا جا سکے ۔ جنگلی حیات کے تحفظ اور قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیےنیشنل پارکس کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے اور یہ پارکس جنگلی حیات کے تحفظ اور قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ صوبے میں 14 وائلڈ لائف سینچریز قائم کی گئی ہیں، جو جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے مخصوص علاقے ہیں۔ ان سینچریز میں جنگلی حیات کو محفوظ ماحول فراہم کیا جاتا ہے، بلوچستان میں آٹھ گیم ریزرو ایریاز قائم کیے گئے ہیں، جہاں جنگلی حیات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ محدود پیمانے پر شکار کی اجازت دی جاتی ہے۔ صوبے میں پانچ رامسر سائیٹس (بین الاقوامی اہمیت کی حامل آبی زمینیں) ہیں، جو آبی پرندوں اور دیگر آبی حیات کے تحفظ کے لیے اہم ہیں۔ بلوچستان جو اپنے قدرتی وسائل اور جنگلی حیات کی وجہ سے منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ تاہم اس کی حفاظت اور بقا کے لیے مسلسل اور کاہن کوششوں کی ضرورت ہے۔ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے قانونی اقدامات، مقامی اور بین الاقوامی تعاون، اور عوامی آگاہی کی مہمات کو مزید پائیدار بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ بلوچستان کا یہ قدرتی ورثہ آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رہ سکے۔ حکومت بلوچستان اور محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کے اقدامات قابل تعریف ہیں، لیکن مزید بہتری اور وسعت کی ضرورت ہے، تاکہ حیاتیاتی تنوع کو مکمل طور پر محفوظ بنایا جا سکے۔ اہم اقدامات جو کہ جنگلی حیات کے تحفظ میں کارگر ثابت ہو سکتی ہیں ان میں غیر قانونی شکار کی اطلاع فوری طور پر متعلقہ حکام کو دیں، ماحول دوست طرز زندگی اپنائیں جس میں پلاسٹک کے پولیتھین بیگز کا استعمال پر قدغن لگانے اور قدرتی وسائل کا استعمال احتیاط سے کرنے ، جنگلی حیات کے مسکن کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت اور پودے لگائیں، جنگلات و جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے والنٹیرز کی پزیرائی کریں اور انکے ساتھ تعاون کریں، اپنے طور پر لوگوں کو آگاہی دیں ، عالمی یوم تحفظ جنگلی حیات ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جنگلی حیات کی حفاظت ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ بلوچستان جیسے متنوع علاقے میں یہ ذمہ داری اور بھی اہم ہو جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اقدامات سے جنگلی حیات کے تحفظ میں بھرپور کردار ادا کریں، تاکہ آنے والی نسلیں بھی اس قدرتی ورثے سے لطف اندوز ہو سکیں۔ جنگلی حیات کے بغیر ہمارا ماحولیاتی نظام ادھورا ہے اور اس کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ کوششوں سے ہی ممکن ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں