2 مارچ ،بلوچ کلچر ڈے

تحریر: حسن خان آزاد بلوچ

ظفر گورپوری نے کہا’ شناخت نام ہے، شاید اس ازیت کا، کہ پانیوں میں رہو مگر رنگ اپنا جدا رکھوــ‘ ۔ کلچر لاطینی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی ہیں، زراعت، شہد کی مکھیوں، ریشم کے کپڑوں، سیپول اور بیکٹریا کی پروش یا افزایش کرنا، جسمانی یا زہنی اصلاح و ترقی اور کھیتی باڑی کرنا، تہذیب عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا لغوی معنی ہیں، کسی درخت یا پودے، کاٹنا، چاٹنا اور تراشنا، تاکہ اس میں نئی شاخیں نکلتی اور نئی کونپلیں پھوٹیں، ثقافت عربی زبان کا یہ لفظ ثقف سے مشتق ہے، جسکا لغوی مطلب دانائی، مہارت، عقلمندی اور ہوشیاری کے ہ، اسطرح ثقاف اس آلے یا مشین کو کہا جاتا ہے، جس سے نیزے اور بھالے درست کیے جاتے ہیں، عربی زبان میں ثقف عقلمندی اور ہوشیار شخص کو کہا جاتا ہے، ہر وہ شے افراد کے جزبات اور احساسات سے وجود میں آئے ثقافت ہے، میل نوسکی کے بقول”زندہ رہنے کے مجموعی سلیقے کا نام ثقافت ہے، انسان جو کچھ سوچے، کرے اور بنائے یہ اُسکی ثقافت کہلاتی ہے، عمرانی علوم کے مشہور پاکستانی مایر ڈاکٹر برہان احمد فاروقی ثقافت کی تعریف میں ایک بڑی دلچسپ تمثیل پیش کرتے ہیں، کہ یہ جرمن زبان کے لفظ کلٹور kultur سے ماخوذ ہے، جس میں جو تنے، بونے، اگانے کا استعارہ پایا جاتا ہے، مگر جو کچھ جوتا جاتا ہے، وہ زمین نہیں بلکہ انفرادی اور اجتماعی زہن ہے، جو کچھ بویا جاتا ہے، وہ بیج نہیں، تصورات وخیالات ہیں، جو کچھ اگایا جاتا ہے، وہ اناج کی فصل نہیں بلکہ یکسانئے کردار کا نمونہ ہے، جسکی بدولت کسی گروہ میں وحدت کا شعور راسخ ہوتا ہے، مزکورہ بالا الفاظ کی مختصراً تعریف و توصیف کے تزکرہ سے مراد صرف یہ ہے، کہ ان سے متعلقہ موضوعات کو زیر بحث لانے کے لئے ضروری ہے، کہ ہمیں ان کے بنیادی ماخذ لفظی اور لغوی معنی و مطلب سے آگاہی کے حامل محیط موضوعات کو زیر بحث تحریر لایا جا سکے، اس لیے کہ نفس مضمون کو سمجھنے میں کچھ آسانی ہو، ورنہ صرف عمومی اور سطحی باتوں سے کسی علمی اہلیت وصلاحیت بالکل ادھورا رہتا ہوگا، ویسے تہذیب وثقافت اور کلچر سے اکثر لوگ ایک سا مطلب لیتے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے، جیسے کہ اوپر کے ملفوظات سے ان میں جو تھوڑی اختلاف ہے، انہی کے تناظر ہم کلچر ڈے کی مناسبت چند گزارشات پیش کرنے جا رہے ہیں، انسان روزاول سے تہذیب وتمدن و کلچر کی بھول بھلیوں اور پیچیدگیوں سے نبردآزما ہو کر رہن سہن ایجادات دریافتوں میں سرگرداں چلا آتا رہا ہے، شروع دن سے وہ اس سلسلے میں تہذیب وثقافت کے مختلف ادوار سے گزر بسر کرکے زندگی آسان بنانے کیلئے سرتوڑ کوششوں میں ہمیشہ مصروف کار رہا ہے، یوں قدرتی ارتقا کے تناظر مختلف نظام ہائے زندگی سے بھی گزرا ہے، جیسے شکار کا زمانہ، پتھر کا دور، عہد غلامی، ابتدائی سوشلزم اور بادشاہی کا دور وغیرہ سے ہوتا ہوا انسان آج ایک عالمگیر تہذیب و ثقافت کی جانب بڑھتا ہوا دیکھائی دے رہا ہے، ابتدائی انسان جنگلوں، بیابان، صحراؤں، پہاڑوں میں رہتے ہوئے غاروں میں رہتا ہے، بعد ازاں آگے بڑھتے ہوئے انہوں نے جھونپڑیوں، لکڑیوں کے گھروں میں رہتے ہوئے مرد حضرات شکار کے لئے جاتے تھے، تو عورت گھروں یا ان کے قریب جہاں چشموں، قدرتی ندی نالوں سے پینے پکانے کے لئے پانی اسٹور کرتے تھے، ایسے میں پانی ایک جگہ جمع ہونے اور بار بار پانی ایک جگہ گرنے سے قدرتی پودے اور جڑی بوٹیاں اُگ آتے تھے، آہستہ آہستہ تخم اگ آنے اور چھوٹے بڑے پھل دار و پھولدار پودے اور درخت دیکھنے کو ملے، چلتے چلتے زراعت اور کاشتکاری کا آغاز ہوا، لیکن اس میں سب سے بڑا ہاتھ اور شروعات عورت کے مرہون منت رہی ہے، اور اسی طرح تہذیب وثقافت اور کلچر کی ابتدائی ڈیولپمنٹ میں بھی عورت کا کردار نمایاں اور باعث فخر سمجھا جاتا ہے، پڑھنے میں نظر آیا ہے، کلچر وثقافت چیونٹی کی رفتار سے سفر کرتی ہوئی نظر آتی ہے، واقعی اربوں سال کی تگ ودو سے نبرد آزما رہتے ہوئے ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے، آج بھی دنیا کے کونے کونے میں ابتدائی ادوار کے کلچر وثقافت کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں، آج بھی اگر پسماندگی اور جہالت کہیں نظر آئے گا، تو آپ سماجی مادی ترقی اور ذہنی پستی کا خود بخود اندازہ لگا سکتے ہیں، فوراََ آپ کو کلچر کے حاص تصورات و خیالات اور سمجھ بوجھ گھیر لیتی ہے، کلچر ڈے منانے کا مطلب ہی یہ ہے، کہ جو تاریخی ادوار مراحل میں مختلف اقوام عالم کی کلچر وثقافت کا اظہار ونمائش مقصود ہے، کلچر و تہذیب کے بھی ماضی بعید، ماضی قریب اور حال کے حالات وواقعات، رسم و رواج، سماجی اقدار اور روایات اور جدت طرازی و اختراعات کسی بھی نسل وقوم کی نفسیات میں ماضی پرستی رچی بسی ہے، اس سے جان چھڑانا بھی اتنا آسان نہیں ہے، بےشک دنیا اس وقت یکساں وہم آہنگ تہذیب وتمدن ثقافت، کلچر کی تشکیل کی جانب بڑھ رہی ہے، کہیں ترقی یافتہ دنیا ہے، اور کہیں ترقی پذیر ممالک، اور کہیں اتنی پسماندگی، جہالت، غربت کے مناظر ایسے نظر آتے ہیں، کہ آپ کو انسان کے ابتدائی نیچرل لائف کی یاد میں تروتازہ ہو جاتی ہے، قصہ مختصر تاہم معزرت کے ساتھ آثار قدیمہ کے دریافت سے پتہ چلتا ہے، کہ ہزاروں، کروڑوں سال پہلے غارنما گھروں میں مختلف جانوروں کے نقش ونگار کے ثبوت ملے ہیں، بہت ساری تہذیبں اور ثقافتیں جو ماضی بعید اور انسانی تاریخ میں دنیا کے مختلف حصوں اور کونوں میں زمین بوس ہو چکی ہیں، ایسے خزانے اوزار اور مکانات، و محلات کے آثار دریافت ہو چکے ہیں، کہ زمانے میں اتنی پسماندگی، جہالت، غربت، کے باوجود انسان نے ایسی ایسی چیزیں ایجاد کی ہیں، کہ جو انسانی تصور وخیال اور گمان سے کوسوں دور ایک طرف حیرانگی، اور دوسری طرف باعث فخر وقدر سمجھی جاتی ہیں، ابتدائی دور کے انسان جو دیہاتوں، جنگلات، بیابان اور پہاڑوں میں رہتے تھے، ایسے میں ان کے پہلے پہل چھوٹے چھوٹے گروہ تشکیل پائے جن کی سربراہی یا قیادت کسی پہلوان، سورما، یا جسمانی طور پر طاقتور آدمی کے زمے آگئی تاکہ وہ ایک دوسرے گروہ کا مقابلہ کرکے اپنی جانی ومالی تحفظ کو یقینی بنائیں یوں تاریخی ادوار سے گزرتے ہوئے پہلے گروہ بعد ازاں آبادی بڑھتی گئی، بالاآخر قوم تشکیل پزیر ہوئے بعدازاں آبادی کی اضافے کے باعث ان کو باہمی کنٹرول کرنے کیلئے ریاست کا تصور تخلیق ہوا مطلب ایک ریاستی فوج کی ضرورت پیش آئی مطلب ایک اسلحہ بردار طبقے جسکی ذمہ داری یہ ہوئی کہ وہ ریاست کے دائرے میں رہتے بستے ہوئے عام عوام کی جانی مالی تحفظ کو یقینی بنا کر بیرونی حملہ آوروں سے بھی لوگوں کو تحفظ کی ضمانت دے، زمانے سے انسان انفرادی واجتماعی شناخت برتری کے حامل جزبات و احساسات، گروہی، قبائلی اور قومی تشخص کو برقرار رکھنے کے لئے باہمی لڑائیوں اور جنگوں کی نوبتوں سے گزرتے ہوئے ایک دوسرے سے سبقت لیجانے اور مقابلے میں فتح یابی کو اپنی سماجی اقدار اور روایات کی بہتری وبرتری کو اپنا گروہی قبائلی اور قومی افتخار وامتیاز سے تعبیر کرتا رہا ہے، یوں چلتے چلتے قومی نسلی اور لسانیت کے حامل ریاستیں وجود میں آئیں قوم پرستی، نسل پرستی اور زبان پرستی کے احساسات وجذبات جاگ اٹھی، ایسے قومی، نسلی، اور لسانی تشخص، شناخت، پہچان اور بقا کو قائم ودائم رکھنے کے احساسات وجذبات سے نت نئے ایجادات و اختراعات، جدت وتخلیقات کے حامل کلچر وثقافت سے احساس برتری و احساس کمتری کے رجحانات و ترغیبات معاشرتی سماجی امتیاز وقار میں اضافے کا باعث بنتے گئے، نیچرل ارتقا کے حامل سماجی و معاشرتی جدلیات تضادات اور اختلاف سے دنیا کی ہرچیز میں لمحہ بہ لمحہ جو تبدیلی کا عمل جاری و ساری ہے، کسی دانا نے خوب کہا ہے، کہ اگر آپ ایک دفعہ کسی ندی نالے میں نہانے جائے گے، تو دوسری بار یہ کھبی نہ سمجھیں کہ میں اسی ندی نالے میں اسی جگہ نہا رہا ہوں، یعنی قدرتی تبدیلی کا عمل اس طرح تیز ہے، کوئی بھی معاشرہ ہو وہ بھی بنائے تخلیقات کرے، وہ اس کی کلچر وثقافت کے حصے میں شامل ہوتے ہیں، آرٹ ہو، فنون لطیفہ ہو، شاعری وادب ہو جائے، کوئی مادی چیز ہو یا روحانی و شعوری دونوں طرح کی چیزیں اس کی ثقافت میں شامل ہیں، ہر قوم، قبیلے نسل و سماج کے اپنے اپنے اقدار اور روایات taboos, values, norme اور Folkwaysہوتے ہیں، ہف ایک کی یک بھی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ماضی کی نسبت، اپنی تخلیقات و کمالات میں بہتر سے بہترین پیدا کرکے ایک دوسرے سے منفرد و مختلف اور خوبصورت وخوب سیرت کے حامل شناخت و پہچان کا مالک ہو، مزکورہ تناظر سے کلچر و ثقافت اور تہذیب وتمدن کو سمجھنے میں آسانی مقصود تھا، بلوچ و بلوچستان میں بھی مختلف قبیلے آباد ہیں، جن کا مجموعہ بلوچ قوم بنتی ہے، بلوچ قوم کے بھی اپنی سماجی و سیاسی اقدار روایات ہیں، قومی شناخت و تشخص ہے سماجی تخلیقات ہیں، بلوچ کی ایک تاریخ بھی ہے اس کی کلچر وثقافت اور تہذیب و زبان ہے رسوم و رواج رہن سہن کے طور طریقے مہمان نوازی جیسے خصوصیات کے حامل بلوچ قوم کے اپنے سماجی معیارات وغیرہ ہیں باہمی احترام، پوچ و پوشاک سے بلوچ کی شخصیت کا الگ سے پہچان ہے، بلوچ ماضی اور روایتی جنگوں میں اپنے حریف یا دشمن کو للکارنا اور ٹائم دے کر وعدے وعید کے مطابق لشکر کشی کرکے آمنے سامنے لڑائیاں لڑنا، اس کی ایک الگ رسم و روایت رہی ہیں، خصوصاً جنگوں، لڑائیوں میں قصہ گوئیوں، شاعری اور ڈھول ڈھال والے لوگوں کو باقاعدہ جنگی نوعیت کو دیکھ کر دونوں حریفوں کے بارے شعر و شاعری اور میوزک وغیرہ کا بندوبست رسم و رواج کا حصہ رہا ہے، تیر و تلواروں سے روایتی جنگیں اور لڑائیاں ان کے اقدار و روایات رہی ہے، بلکہ تلوار اور بندوق کو بلوچ کا زیب تن زیور سمجھا جاتا ہے، خصوصاً عورت کا جنگ بندی میں بہت بڑا کردار اور عزت کے حامل وقار و اہمیت رہی ہے، بلوچ نہ پسماندہ ہے، نہ جاہل اور نہ ہی غربت، و محرومیت کا شکار رہے، بلکہ اگر آج بلوچستان کے طول وعرض میں جو محرومیاں دکھائی دیتے ہیں، وہ دانستہ اور مصنوعی پیدا کردہ ہیں، بلوچ اگر آج مظلوم و محکوم قوم ہے، ایسی بربریت کے ماحول میں کونسی اور کیسی کلچر و ثقافت ڈیویلپ ہوگی، حالانکہ بلوچ سر زمین قدرتی معدنی ساحل وسائل بے شمار ہیں، اس کے باوجود بلوچستان میں جس طرف نظر دوڑائیں لیکن ہر طرف نیچرل لائف اور آج اکیسویں صدی میں بھی ماضی بعید مطلب، چار، پانچ صدیوں پہلے کلچر و ثقافت اور تہذیب پسماندگی، غربت، بلکہ ابتدائی ادوار کے آثا نمایاں طور پر خصوصاً نظر آتے ہیں، حالانکہ موجودہ دور میں دنیا ڈیجیٹل ایج میں داخل ہوچکی ہے، ہر طرف Artificial intelligence اورڈریپ مسک کی ٹیکنالوجی نے دنیا کو حیران سرگرداں کرتے ہوئے ترقی یافتہ ہے، لیکن اہل بلوچستان موجودہ حالات میں سرکاری تعلیمی ادارے بےمعنی بے وقعت رہ گئی ہے، کوئی معیاری تعلیمی ادارے، ٹیکنکل اور ووکیشنل تعلیم وتربیت کا کوئی ادارہ سرے سے ہی موجود نہیں، بلوچ بچے صرف A, l اور ڈیپ مسک سائنسی و ٹیکنالوجی ترقی سمجھتے ضرور ہیں، بیزار اس سے Internet کی سہولت بلوچستان کے بیشتر شہروں اور علاقوں کو میسر نہیں کیا خاک ککچر و ثقافت کی بہتری اور برتری کے حامل جزبات اور دنیا سے ہماآ ہنگی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا، الغرض دو مارچ کو بلوچ کلچر ڈے میں ایک تو ماضی اور تاریخ دستیاب اشیاء کی نمائش صرف اس لئے کیا جاتا ہے، کہ یہی بلوچ کی ماضی رہی ہے اور تاریخی مراحل طے کرتے ہوئے مختلف مراحل میں اسکی کلچر کے تحت اس نے جو زندگی گزار چکی ہے، دوسری ماضی اور حال کے ثقافت اور تہذیب کا موازنہ مقصود ہے، تاکہ اگلی نسلوں کو اپنے قومی ورثہ ثقافت اور تہذیب سے آگاہی اور فہم و شعور حاصل ہو، خصوصاً اپنی قومی ثقافت، شناخت، پہچان اور قومی تشخص اور قومی بقاء کے سوال کو سمجھتے ہوئے، نیشنلزم کی اہمیت و افادیت کے حامل حالات و واقعات سے حاصل کرکے نیشنلزم کی بہتر سے بہتر اور برتری کی تعلیم وتربیت کو عملی جامہ پہنا کر قوم کی مستقبل کو تابناک بنا کر اپنی قومی اور فطری حقوق اور آزادی کے خواب کو کسی نہ کسی دن شرمندہ تعبیر طنانا ہوگا، اس میں کوئی شک نہیں کہ ساری دنیا سرمایہ داری کے حامل نظام ہائے زندگی کے زیر اثر ہے، بلکہ تمام تیسری دنیا کے ممالک بھی اسی نظام سے جڑے ہوئے ہیں، بلوچستان بھی ایک تیسری دنیا کے ملک کا حصہ بنا دیا گیا ہے، بلوچ قوم کی قومی تشخص اور قومی شناخت ہے، بلوچ اہلیت وصلاحیت کے لحاظ سے کسی سے بھی نکما اور پیچھے نہیں ہے، بلوچ عوام کو اکیسویں صدی اور گلوبل ولیج کے تصورات خیالات کے حامل تبلیغ سے ورغلایا گیا، حالانکہ سب کو پتہ ہے، بلوچ کو اکیسویں صدی کی وسائل زرائع اور مواقع دستیاب نہیں ہے، کہ وہ دیگر اقوام کا مقابلہ کرسکے، بلکہ دو مارچ بلوچ کلچر ڈے منایا جا رہا ہے، کلچر ڈے منانے کا مطلب اپنی ماضی کے کلچر کو دنیا کے سامنے پیش کرنا نمودونمائش کرکے افتخار و امتیاز کے حامل مظہر و مناظر ثابت کرنا ہوگا، گوکہ اکیسویں صدی قوموں اور عام عوام کی طرح کی آزادی جمہوریت سیاسی و سماجی اور صحافتی آزادی کے حامل جملہ حقوق مشروط ہیں، لیکن بلوچستان کے لوگ اکیسویں صدی کی ضرورت اور حقائق آشنائی تو دور کی بات ہے، تاریخ کے ابتدائی دور میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، حالانکہ آج سرمایہ داری کے حامل سامراجی ممالک اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی نیشنلزم کی وحیا کی باتیں اور فلسفے میڈیا میں سنائی دیتی ہیں،

اپنا تبصرہ بھیجیں