بلوچ دشمن جماعت

عزیز سنگھور
کراچی کے قدیم خطہ "ملیر” کو ان کی تاریخی "شناخت” سے محروم رکھا جارہا ہے۔ ملیر نہ صرف ایک قدیم بلکہ ایک تاریخی اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔ جس کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ کسی زمانے میں یہ "ریاست کھیرتر” کی طرح خود ایک الگ "ریاست” تھی۔
ملیر ایک تاریخی اور قدیم علاقہ ہے، جس کی جڑیں صدیوں پرانی ہیں۔ یہ علاقہ نہ صرف بلوچوں کا گڑھ رہا ہے بلکہ سندھ اور بلوچستان کی مشترکہ تہذیب کا ایک اہم مرکز بھی ہے۔
ماضی کی طرح اس سرزمین پر آج بھی بلوچ آباد ہیں۔ آج اس تاریخی سرزمین "ملیر” سے اس کی "شناخت” چھینی جارہی ہے۔ اس عمل کے پیچھے کوئی اور نہیں ہے بلکہ سندھ میں قائم پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ جس نے "ملیر ایکسپریس وے” کا نام تبدیل کرکے "ذوالفقار علی بھٹو” کے نام سے منسوب کردیا۔ یہ عمل یہاں کی تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی شناخت پر ایک سنگین حملہ ہے۔
ملیر کو اس کی تاریخی شناخت سے محروم کرنے کے اقدامات آج سے نہیں بلکہ کافی عرصے سے جاری ہیں۔ چاہے وہ "بے تحاشا زمینوں پر قبضے” ہوں، ڈیولپمنٹ کے نام پر مقامی آبادی کو "بے دخل کرنے کی کوششیں” ہوں، یا پھر "ناموں کی تبدیلی کے ذریعے” اس کی تاریخی حیثیت کو ختم کرنے کی سازش ہو، سب ایک بڑے منصوبے کا حصہ نظر آتے ہیں۔
ملیر ایکسپریس وے کا نام تبدیل کرکے "ذوالفقار علی بھٹو ایکسپریس وے” رکھنا بھی اسی پالیسی کا حصہ ہے، جہاں مقامی بلوچ اور سندھی کی شناخت کو نظرانداز کرکے "سیاسی شخصیات” کو زبردستی تھوپا جارہا ہے۔ یہ عمل نہ صرف تاریخی بلکہ سماجی اور ثقافتی لحاظ سے بھی "ناقابل قبول” ہے، کیونکہ مقامی لوگ اپنی تاریخ اور پہچان کو "کھونا” نہیں چاہتے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی، جسے ملیر کے عوام بار بار ووٹ دے کر اقتدار میں لاتے ہیں، وہی حکومت ان کے تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی "وجود پر وار” کر رہی ہے۔ یہ پالیسی کسی بھی صورت میں عوامی مفاد میں نہیں بلکہ ایک "نوآبادیاتی سوچ” کی عکاسی کرتی ہے، جہاں "انڈیجینس کمیونیٹی” کی شناخت کو ختم کرکے ان پر ایک "نئی شناخت مسلط” کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ عمل "بلوچ دشمنی” کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ اس سے تاریخی حقائق کو مسخ کیا جارہا ہے، مقامی باشندوں کو بے دخل کیا جارہا ہے، اور ان کی سرزمین پر ان کے "وجود کو کمزور کرنے کی سازش” ہورہی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی واقعی عوامی پارٹی ہوتی تو وہ ملیر کے عوام کے جذبات، ان کی تاریخ اور ان کے حقوق کا احترام کرتی، نہ کہ ان کی "پہچان مٹانے کے منصوبے” پر عمل کرتی۔
یہ حقیقت انتہائی افسوسناک اور تلخ ہے کہ جس پیپلز پارٹی کے لیے ملیر کے سپوتوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا، آج وہی جماعت ان کے "ورثے اور شناخت” کو مٹانے پر تُلی ہوئی ہے۔ عبداللہ مراد بلوچ، ناصر بلوچ، اور حنیف ھمل جیسے شہداء کی قربانیاں صرف ایک جماعت کے لیے نہیں تھیں بلکہ جمہوریت، عوامی حقوق اور اپنی قوم کے تشخص کی بقا کے لیے تھیں۔
آج پیپلز پارٹی کا طرزِ عمل ان قربانیوں کے برعکس نظر آتا ہے۔ یہ وہی جماعت ہے جو کبھی "عوامی حقوق کی محافظ” کہلاتی تھی، مگر اب وہ اسی عوام کی تاریخ، تہذیب اور تمدن پر حملہ آور ہے۔ یہ اس نوآبادیاتی پالیسی کا حصہ ہے جو مقامی آبادیوں کو ان کی جڑوں سے کاٹ کر انہیں "بے شناخت” کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
یہ انتہائی افسوسناک حقیقت ہے کہ ملیر کے عوامی نمائندے، جو خود کو "عوام کا محافظ” کہتے ہیں، اس سنگین حملے پر "مکمل خاموش” ہیں۔ یہ خاموشی نہ صرف "سیاسی بزدلی” بلکہ "عوامی اعتماد سے غداری” کے مترادف ہے۔ ایسے وقت میں، جب ملیر کی تاریخی، ثقافتی اور قومی شناخت مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے، ان نمائندوں کی خاموشی انہیں "قومی مجرم” بنا رہی ہے۔
شہید میر چاکر نوتک کلمتی اور دیگر بلوچ مزاحمتی رہنماؤں کی جدوجہد ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ اپنی سرزمین، شناخت اور عوامی حقوق کے دفاع میں کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ مگر آج کے یہ نام نہاد عوامی نمائندے اقتدار اور مراعات کی سیاست میں اتنے غرق ہوچکے ہیں کہ وہ اپنے آبا و اجداد کے ورثے کو بچانے کے بجائے "سازشی قوتوں کے آلۂ کار” بن گئے ہیں۔
یہ وقت ملیر کے عوام کے لیے ایک امتحان ہے۔ اگر ان کے نمائندے ان کے حقوق کا دفاع نہیں کرتے، تو عوام کو چاہیے کہ وہ خود آگے بڑھ کر اپنی تاریخی شناخت کی حفاظت کریں۔ عوام کو انہیں یاد دلانا ہوگا کہ اگر وہ اپنی قوم، اپنی زمین اور اپنی تاریخ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوسکتے، تو "تاریخ بھی انہیں فراموش” کردے گی۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں بلوچستان میں فوجی آپریشنز کی راہ ہموار کی گئی۔ 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے بلوچستان میں "گورنر راج نافذ” کرکے فوجی آپریشن کا آغاز کیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں بلوچ شہید، زخمی اور بے گھر ہوئے۔ وہی پیپلز پارٹی، جو اپنے آپ کو جمہوریت اور عوامی حقوق کی علمبردار کہتی ہے، بلوچستان میں ریاستی جبر کا حصہ رہی ہے۔
اور آج بھی پیپلز پارٹی کی حکومت بلوچستان میں قائم ہے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ ہو، وسائل کی لوٹ مار ہو، یا بلوچ ساحل و وسائل پر قبضے کی پالیسی- پیپلز پارٹی کی حکومت اس کے خلاف کوئی واضح مؤقف اختیار کرنے کے بجائے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کھڑی ہوئی ہے، جو اسے "بلوچ دشمن جماعت” ثابت کرتی ہے۔
ملیر میں بھی یہی بلوچ دشمنی جاری ہے۔ مقامی بلوچوں کی زمینوں پر قبضے، تاریخی شناخت کو مٹانے کی کوشش، اور عوامی مینڈیٹ کو روندنے کی پالیسی سب اسی کا حصہ ہیں۔ ایسے میں یہ سوال بالکل جائز ہے کہ کیا پیپلز پارٹی بلوچوں کے لیے کسی بھی سطح پر قابلِ قبول ہوسکتی ہے؟ یا پھر اسے صرف "اشرافیائی” ایجنڈے پر عمل درآمد کرنے والی ایک جماعت سمجھا جائے؟
ملیر کے عوام کو اس ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی۔ اگر آج اس مسئلے کو نظرانداز کیا گیا، تو کل مزید علاقے اپنی تاریخی اور ثقافتی شناخت سے محروم ہوجائیں گے۔ یہ صرف ملیر کا نہیں، بلکہ ایک "اجتماعی قومی مسئلہ” ہے، جس کے خلاف متحد ہوکر مزاحمت کرنا ہوگی۔ یہ صرف ملیر کا نہیں، بلکہ "پوری بلوچ اور سندھی قوم” کی تاریخی شناخت کا مسئلہ ہے، اور اس پر خاموش رہنا مزید نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں