ٹرمپ کی حمایت انتہائی اہم، امریکا کے ساتھ اب بھی معدنیات کا معاہدہ کرنے کیلئے تیار ہیں، یوکرینی صدر

ویب ڈیسک : وائٹ ہاؤس میں گرما گرم بحث کے بعد یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ وہ اب بھی امریکا کے ساتھ معدنیات کے اشتراک کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت ’انتہائی اہم‘ ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ زیلنسکی کو وائٹ ہاؤس سے جلدی اور بغیر معاہدے جانے کے بعد یورپی رہنماؤں نے یوکرین کی حمایت میں آواز بلند کی تھی، جسے امریکی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کے لیے انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے۔گزشتہ روز امریکی اور بین الاقوامی میڈیا کے سامنے ہونے والی جھڑپ کے دوران ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس نے زیلنسکی پر نعرے بازی کرتے ہوئے ان پر ’شکر گزار‘ نہ ہونے اور جنگ بندی کی مجوزہ شرائط کو قبول کرنے سے انکار کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’آپ کے پاس اب کوئی کارڈ نہیں، آپ یا تو کوئی معاہدہ کریں یا ہم اس معاملے سے باہر ہوجائیں گے، اور اگر ہم باہر ہوئے تو آپ روس سے لڑیں گے، اور مجھے نہیں لگتا کہ یہ اچھا ہوگا۔‘زیلنسکی کچھ ہی دیر بعد چلے گئے تھے اور ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تھا کہ ’وہ اس وقت واپس آسکتے ہیں جب وہ امن کے لیے تیار ہوں‘۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی گرما گرم بحث کے باوجود امریکا کے ساتھ معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے اب بھی ’تیار‘ ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہم معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہیں اور یہ سیکیورٹی ضمانتوں کی طرف پہلا قدم ہو گا۔ایک اور ایکس بیان میں ان کا کہنا تھا کہ یوکرین کو اب بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کی ضرورت ہے، امریکی صدر کی سپورٹ ہمارے لیے نہایت اہم ہے، وہ جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن ہم سے زیادہ کوئی بھی امن کی خواہش نہیں رکھتا۔واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین کے رہنما پر روس کے ساتھ امن قائم کرنے سے انکار کا الزام عائد کیے جانے کے بعد ولادیمیر زیلنسکی نے کہا تھا کہ امریکا کے ساتھ ان کے تعلقات اب بھی بحال کیے جا سکتے ہیں۔’فاکس نیوز‘ کو انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکا اور یوکرین کے تعلقات دو سے زیادہ صدور کے بارے میں ہیں، یوکرین کو روس کی کہیں زیادہ بڑی اور بہتر مسلح فوج کے خلاف لڑائی میں واشنگٹن کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ٹرمپ کے پسندیدہ نیوز چینل ’فاکس‘ پر زیلنسکی نے کہا تھا کہ ’آپ کی حمایت کے بغیر یہ مشکل ہوگا‘۔تاہم زیلنسکی نے معافی مانگنے سے انکار کرتے ہوئے ’فاکس نیوز‘ کو بتایا تھا کہ ’مجھے یقین نہیں ہے کہ ہم نے کچھ برا کیا ہے‘، تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’کاش ان جملوں کا تبادلہ صحافیوں کے سامنے نہ ہوتا۔‘بعد ازاں امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے ’سی این این‘ سے بات کرتے ہوئے زیلنسکی سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس بات پر معافی مانگیں کہ انہوں نے ایک اجلاس میں وقت ضائع کیا۔اس واقعے کے بعد یورپ کے رہنما زیلنسکی کی حمایت کرنے کے لیے دوڑ پڑے تھے۔پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے زیلنسکی کے لیے کہا تھا کہ ’آپ اکیلے نہیں ہیں‘۔برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کا کہنا تھا کہ جھڑپ کے بعد ٹرمپ اور زیلنسکی دونوں سے فون پر بات کی تھی اور کیف کے لیے ’غیر متزلزل حمایت‘ کا عہد کیا تھا۔انتہائی دائیں بازو کی اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے یوکرین کے معاملے پر امریکا، یورپ اور ان کے اتحادیوں کے درمیان بغیر کسی تاخیر کے سربراہ اجلاس کا مطالبہ کیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں