بلوچستان کا واحد سہارا بارڈر ہے
تحریر:نفیسہ بلوچ
کسی بھی مضبوط قوم یا قبیلہ کو اس وقت تک فتح نہیں کیاجاسکتا کہ جب تک ان کی معیشت کو کمزور نہ کیاجائے۔ سونے اور چاندی کے مالک غریب بلوچوں کا واحد سہارا بارڈر ہے۔ جہاں سے وہ زریعہ معاش تلاش کرکے زندگی کی پہیہ چلا رہے ہیں مگر اب ان سے آخری نوالہ بھی چھینے کا فیصلہ کرلیاگیاہے۔
بلوچستان میں روزگار کا دیگر کوئی مواقع نہیں، واحد ذریعہ ایرانی ڈیزل ہے۔ جوکہ بلوچ اپنی جانوں سے کھیل کر روز مرہ زندگی گزار رہے ہیں۔
ایک زمباد صرف ڈرائیور اور کنڈیکٹر کےلیے حصول روزگار نہیں بلکہ ایک زمباد اور ایک منی پیٹرول پمپ کے پیچھے پانچ سو، پانچ سو، خاندان پل رہے ہیں۔
ایرانی تیل برادر گاڈی چلتاہے تو ہوٹل، گیرج، سروس، آئل کی دکان، ویلڈنگ، ڈینٹر، مکینک، آٹوز سے لیکر پنگچر کی دکان تک سب ان سے چلتے ہیں، ان کے بند ہونے سے سب کے کاروبار پر اثر پڑتاہے۔ ایرانی تیل کی بندش سے یہ تمام کاروبار بند اور لوگ بےروزگار ہوجائیں گے۔ تو پھر یہ لوگ یا تو چوری ڈکیتی کریں گے یا پھر پہاڑوں کا رخ۔
تیل بردار گاڈیوں کے خلاف کاروائی کا جو فیصلہ کیا گیا ہے ۔ یہ بلوچستان کے باسیوں پر ایٹم بم گرانے کے مترادف ہے۔ لاکھوں لوگوں کا آخری نوالہ چھین کر وہ سکون سے بٹھیں گے ہرگز نہیں۔ یہ ایک لاوا بن کر پھوٹے گا۔بلوچستان کے قوم پرست رہنما چاہئے وہ بلوچ ہو یا پٹھان ان کی مجرمانہ خاموشی سے اس ظلم کی حمایت ہورہی ہے۔
صرف الیکشن کے وقت لوگوں کے خیرخواہ بننے والے ان نام نہاد لیڈروں پر دیکھنے کے بجائے بلوچستان کے لوگوں کو خود میدان میں نکلناہوگا۔
باخبر ذرائع کے مطابق اپیکس کمیٹی میں لوگوں سے نوالہ چھیننے اور احتجاج سے بچنے کیلئے ایک حکمت عملی طے کی گئی ہے ۔ پہلے مرحلے کےلیے جو فیصلہ کیاگیا تھاکہ بارڈرز میں چھٹیوں کا رواج قائم کرکے آہستہ آہستہ ان چھٹیوں کو بڑھاتے بڑھاتے بارڈر بندش تک لے جایاجائے، جوکہ کامیاب آزمائش کرلیاگیا۔
دوسرا مرحلہ، یہ طے کیاگیا ہے کہ ہر بارڈر سے ملحق ضلع میں یہ مشہور کیاجائے کہ جی بارڈر سے آنے والا تیل اور یہاں کا کاروبار صرف اسی ضلع کا حق ہے دوسرے ضلع والے یہاں کام نہیں کریں گے۔ اس حکمت عملی پر ہر بارڈری علاقہ کے لوگ خوش ہونگے اور بڑھ چڑھ کر ساتھ دیں گے جبکہ دوسرے اضلاع والے لوگ احتجاج نہیں کریں گے۔ یوں ہر ضلع والے یہ سمجھیں گے کہ جی ہم آزاد ہے بس دوسرے لوگوں کو نہیں چھوڑا جارہاہے ۔ اس حکمت عملی سے یہ ہوگا کہ بلوچستان کے لوگ متحد ہوکر احتجاج نہیں کرسکیں گے۔ اس دوسرے مرحلے کی حکمت عملی پر بھی کامیابی سے کام کیاگیا ۔ مولاناہدایت اللہ کو بھی اس سازشی مرحلہ میں خوب استعمال کیا۔
تیسرا مرحلہ یہ طے کیاگیاتھاکہ تیل بردار گاڈیوں کے پکڑ دھکڑ شروع کرنے کے ساتھ باڈری اضلاع سے بندش کی جائے گی ۔ اور پہلے فیز میں کنٹانی ھور کو بند کیاجائے گا۔ اس کے بعد سیکورٹی کو جواز بناکر گوادر میں مکمل پابندی ہوگی۔ جس پر، پروم، چیدگی، عبدوئی، گزرا،جودر بارڈز سے ملحق اضلاع احتجاج نہیں کریں گے اور اس خوش فہمی ہونگے کہ یہ عمل صرف گوادر والوں کےلیے ہے۔اس کے بعد پھر چیدگی اور عبدودئی بارڈر پر سختی کی جائے گی یوں مرحلہ وار سب کو بند کیاجائے گا۔
اپیکس کمیٹی کے فیصلے پر انتہائی چالاکی اور تیزی سے عمل ہورہاہے۔ لیکن اس سارے حکمت عملی سے نابلد بلوچستان کے لوگ اب تک روڈوں پر نکلنے کا نہیں سوچ رہے۔ جب پانی سر سے چلاجائے گا تو پھر احتجاج بےسود رہے گا۔
اب بھی وقت ہےکہ متحد ہوکر ایک ساتھ پورا بلوچستان نکلے۔
اسطرح ہوکہ گوادر تربت اور پنچگور والے سی پیک روڈ کو اپنے اپنے علاقوں سے بند کریں جبکہ مستونگ سے لیکر قلات، سوراب، خضدار اور بیلہ والے کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ پر دھرنا شروع کریں۔ کوئٹہ کےلوگ چمن روڈ جبکہ نصیرآباد والے بولان کو بند کریں گے ۔
اور یہ غیر معینہ مدت کیلئےہو۔ یوں پورا بلوچستان جام ہوجائے گا جس کے بعددوسرا کوئی راستہ نہیں رہے گا کہ یہ فیصلہ واپس لیا جائے۔
اس احتجاج میں گوادر سے میر حمل کلمتی جبکہ پنچگور سے اسد بلوچ اگر قائدانہ کردار ادا کریں تو ان کے لیے سیاسی طور پر بہت ہی سود مند رہے گا۔ ویسے بھی مولانا ہدایت اللہ کا بلوچ دشمن کردار کھل کر سامنے آگیا ہے ۔ میرحمل کلمتی آگے بڑھے یہ ان کے لیے ایک بہترین اور گولڈن چانس ہے۔ بلوچستان کے غریب لوگوں کی دلجوئی کرکے نہ صرف گوادر بلکہ پورے بلوچستان میں مقبول بن جائے گا اور یہ عمل مولانا ہدایت بلوچ کی دوغلاپنی اور سازشی سیاست کو سمندر برد کرکے ہمیشہ کےلیے ختم کردے گا۔