پاک ایران تعلقات اور امریکہ
جیئندساجدی
بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ بین الاقوامی تعلقات عامہ میں دوست نہیں بلکہ مفاد مستقل ہوتے ہیں۔ اگر پاکستان اور ایران کے تاریخی اور حال کے تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہاوت درست ثابت ہوتی ہے۔ جب پاکستان وجود میں آیا تھا تو ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے اسے تسلیم کیا اور ایران ہی وہ پہلا ملک تھا ،جس نے اسے بیرونی امداد دی۔ اس فراغ دلی کے کئی وجوہات تھیں۔ ایک ایران کے شورش زدہ علاقے مغربی بلوچستان کی سرحد پاکستان کے بلوچ علاقوں سے ملتی تھی۔ پاکستان کے قیام کے بیس قبل ہی ایران سرکار نے مغربی بلوچستان میں ایک بڑی شورش کا خاتمہ کیا تھا اور پہلی بار اپنےملک میںفضائیہ بھی استعمال کیاتھا ۔ لہذا پاکستان کو تسلیم کرنا اور امداد دینےمیں ایرانی مفادات تھےکہ اسے مغربی بلوچستان کے سرحد پر ایک اتحادی ملک کی ضرورت تھی۔ اسکے علاوہ دونوں ممالک نیوکالونیل ریاستیں تھیں اور امریکہ کی اتحادی تھیں ۔دونوں ممالک نے امریکہ کی سربراہی میں سینٹو جیسے دفاعی معاہدے پر بھی دستخط کیے ۔ پاکستان عدم استحکام کا شکار نہ ہو اسی وجہ سے ایران نے 1965 اور 1971 کے جنگوں میں پاکستان کی مدد کی اور جب 1971 میں پاکستان دولخت ہوا تو شاہ ایران کو خدشہ ہواکہ یہ پوری طرح ٹوٹ سکتا ہے تو اس صورت میں شاہ ایران نے اعلانیہ کہا تھا کہ وہ پورے پاکستانی بلوچستان پر قبضہ کرلیں گے۔
فاطمہ بھٹو اپنی کتاب The Songs of Tales and Bloodمیں لکھتی ہیں کہ 1973 میں بلوچستان میں نیپ کی حکومت انکے دادا ذوالفقار علی بھٹو نے اس لیے برطرف کی تھی کیونکہ ان پر شاہ ایران کا دباؤ تھا۔ وہ مزید لکھتی ہیں کہ ایرانی شاہ نے ذوالفقار بھٹو کو قائل کیا تھاکہ بلوچ قوم پرستوں کی حکومت ایران اور پاکستان دونوں کیلئے خطرہ ہے۔ نیپ کی حکومت برطرف کرنے کے بعد بلوچستان میں جب شورش نے جنم لیا تو اسکو کچلنے کیلئے ایران نے پاکستان کی دفاعی اور مالی مدد کی تھی اور اپنی فضائیہ بھی بھٹو حکومت کو فراہم کی تھی۔ جب 1979 میں ایران میں انقلاب آیا تو پاک ایران تعلقات خوشگوار نہیں رہے۔ اسکی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کے نئے ایرانی حکمران آیت اللہ خمینی نے امریکہ کی نیوکالونیل ریاست بنے سے انکار کیا اور ایران کا ساتھ دینے سے پاک امریکہ تعلقات متاثر ہوتے جسکا نقصان پاکستان برداشت نہیں کر پاتا۔
اسکے علاوہ سعودی عرب و دیگر عرب ممالک بھی پاکستان سے خفا ہو جاتے۔ اس حوالے سے ایک سابق پاکستانی وزیر خارجہ نے یہ کہا تھا ک بیک وقت امریکہ ، عرب ممالک اور ایران کے ساتھ اچھے تعلقات قائم نہیں ہو سکتے۔ 1989 میں جب افغان خانہ جنگی شروع ہوئی تو پاکستان نے اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر طالبان کا ساتھ دیا جبکہ ایران کے مفادات اسکے برعکس تھے وہ اپنے مشرقی سرحد پر طالبان کی صورت میں ایک سنی انتہا پسندریاست برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ لہذا ایران نے شمالی اتحاد کو سپورٹ کیا۔ اس کی وجہ سے پاک ایران تعلقات متاثر ہوئے ۔ 2001 میں امریکی دباؤ کی وجہ سے پاکستان کو مجبوراً طالبان کی مخالفت کرنی پڑی ، امریکی انخلاء کے بعد پاکستان نے پھر سے طالبان کی حمایت کی ،جبکہ ایران نے سابقہ افغان حکومت جس میں ایک بڑی تعداد شمالی اتحاد والوں کی تھی ، انکی حمایت کی۔ اسکے علاوہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں (اسرائیل اور عرب ممالک) کی مشرق وسطی کی پالیسی کی وجہ سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاک ایران تعلقات مستقبل میں مزید متاثر ہونگے۔ اگر اسرائیل اور ایران تنازعہ مزید بڑھا اور دونوں ممالک باقاعدہ جنگ کی طرف چلےگئے تو امریکہ اس میں براہ راست شامل ہو جائیگا ، اس سلسلے میں امریکہ کی نظر میں ان ممالک کی جغرافیائی اہمیت بڑھ جائیگی جو ایران کے قریب ہیں ۔ اس حوالے سے امریکہ کو پھر سے پاکستان کی ضرورت پڑیگی ۔ اس جنگ میں امریکہ کو مدد فراہم کرنےکے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوگا۔ حالانکہ اس جنگ کے دیرپا اثرات پاکستان کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ایران کی شکست کی صورت میں امریکہ مغربی بلوچستان کو نیم خودمختار حیثیت یا یوگوسلاویہن ماڈل پر عمل درآمد کرکے مکمل آزادی دے سکتا ہے۔
ایران نے متعدد دفعہ مغربی بلوچستان کے مسلح تنظیموں کو امریکہ کا پراکسی قرار دیا ہے۔ اگر مغربی بلوچستان کی سیاسی حثیت تبدیل ہوئی تو اسکے اثرات پاکستان کے شورش زدہ بلوچستان پر بھی لازمی پڑینگے۔ اسکے علاوہ ایران کے بعد پاکستان میں دنیا کی سب سے زیادہ شیعہ آباد ہیں ، جن کی آباد ی 6 کروڑ بتائی جاتی ہے۔ اس وجہ سے ایران پاکستان میں سافٹ پاور رکھتا اور انتہا پسند شیعہ تنظیموں کو پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ مجبوری کے علاؤہ پاکستانی اشرافیہ خوشی خوشی اس جنگ کا حصہ بن جائینگے کیونکہ اس میں انکے عارضی مفادات وابستہ ہیں ۔ پاکستان کی معیشت جنگی معیشت ہے ۔ پاکستان کی معیشت اسی وقت بہتر ہوتی ہے جب کوئی علاقائی جنگ چل رہی ہو ۔ سوویت افغان جنگ کے وقت امریکی اتحادی بنے کی وجہ سے لاکھوں ڈالرز پاکستان آئےاور پاکستان کی معیشت اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ۔ جنگ کے ختم ہونے کے بعد امریکہ کی نظر میں پاکستان کی اہمیت ختم ہوگئی اور اس نے پاکستان کو پوری طرح نظر انداز کیا اور جنگ کے بعد پاکستان معاشی طور پر کمزور پڑ گیا ۔ 2001 تک معیشت کا یہی حال رہا،لیکن 9/11 کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان پھر سے امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن گیا اور دوبارہ ڈالرز یہاں آئےجس سے معیشت پھر سے مضبوط ہوئی لیکن اسکے دیرپا نتائج بیانک ثابت ہوئےاور ٹی ٹی پی جیسی خطرناک تنظیم نے جنم لیا ۔ امریکہ کا افغانستان سے انخلا کے بعد پھر سے پاکستان کی اہمیت اور امریکہ کےدیے گئے ڈالرز میں کمی آئی اور پاکستانی معیشت اپنی تاریخ کے نچلے ترین درجے تک پہنچ گئی اور یہ بھی خدشہ ہوا یک یہ دیوالیہ ہو جائیگا ۔ امریکی ادارے آئی ایم ایف کی وجہ سے یہ دیوالیہ ہونے سے تو بچ گیا لیکن معیشت اب بھی خستہ حال ہے ۔ اگر امریکہ ایران جنگ ہوئی تو اس کی جغرافیائی اہمیت میں پھر سے اضافہ ہو گا اور اس کے عوظ اس کو کافی ڈالرز ملیں گے اور محدود مدت کیلئےاس کی معیشت پھر سے سھمبل جائے گی ۔لیکن اس کے دیر پا نتائج افغان جنگ سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہونگے۔