لٹل پیرس کیسے گندگی کی ڈھیر میں تبدیل“ الیکشن کے دوران انتخابی وعدے کہاں گئے؟؟
تحریر :یحییٰ ریکی
”جب سے میں نے ہوش سنبھالاہے ہمارے گھرکے سامنے کچرہ کنڈی ہے، کچرے کے ڈھیر سے بدبوپھیلتی ہے جس سے سانس لینا بھی محال ہوگیاہے۔“یہ کہناہے کوئٹہ کے بینک کالونی کے رہائشی 30سالہ محمداحسن کا۔ احسن شکوہ کرتے ہیں کہ کچرہ اٹھانے کیلئے بارہامیٹروپولیٹن کارپوریشن والوںسے شکایت کی گئی لیکن تسلیاں دے کر بات کوٹال دیتے ہیں۔ میٹروپولیٹن کارپوریشن کے عملے کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ نالیوں سے کچرہ تو نکال دیتے ہیں مگر اس کو بروقت ٹھکانے لگانے کی بجائے سڑک کے کنارے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں جو ہوا چلنے اور شہریوں کی آمدورفت کے دوران دوبارہ نالیوں میں گرجاتا ہے جس سے شہر میں سیوریج کا نظام متاثر ہو رہا ہے۔
کیا انتخابی وعدے وفا ہوں گے؟
8فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات سے قبل عوامی نمائندوں نے انتخابی مہم کے دوران جہاں بہت سارے وعدے کئے وہیں ایک اہم وعدہ اپنے اپنے علاقوں کی صفائی اور سیوریج کے نظام کو بہتر بنانے کابھی تھا۔دیکھاگیا ہے کہ گزشتہ چندسالوں میںکوئٹہ شہرمیں صفائی کی صورتحال ہرگزرتے دن کے ساتھ ابترہوتی جارہی ہے۔الیکشن کے بعدحکومت کی تشکیل توہوگئی لیکن تاحال صفائی کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے جاسکے، وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کوئٹہ شہر میں بڑے پیمانے پر صفائی مہم کاآغاز توکیا لیکن اس کے باوجود شہر کی حالت بہتر نہ ہوسکی۔
سماجی کارکن حمیدہ نورسمجھتی ہیں کہ الیکشن کے دوران نمائندوں کو عوام کی تکلیف اپنی تکلیف محسوس ہوتی ہے مگر اسمبلیوں میں پہنچتے ہی نہ صرف ان کا عوامی رابطہ ختم ہوکر رہ جاتا ہے بلکہ وہ ان مسائل سے بے خبر ہوکر اپنے مفادات کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں جس کی وجہ عوام میں مایوسی بڑھ جاتی ہے۔
وہ مزید بتاتی ہیں کہ کوئٹہ سریاب کے علاقے میں 3 حکومتوں نے مل کر روڈ بنانے کی کوشش کی اور طویل عرصے کے بعد سڑک کو پختہ کرکے دورویہ بنایا مگر اتنے بڑے منصوبے میں منظم منصوبہ بندی کا فقدان نظر آرہا ہے ، معمولی سی بارشوں کے بعد سریاب روڈپرگٹرا ابل پڑتے ہیں، جس سے سیوریج کا پانی گلی کوچوں میں داخل ہو جاتا ہے ایسی صورتحال میں پیدل آمدورفت درکنار لوگوں کو گاڑیوں سے سریاب روڈ سے گزرتے ہوئے بھی ڈرلگتا ہے۔
حمیدہ نور کے مطابق نمائندے عوامی مسائل سے بخوبی واقف ہیں لیکن الیکشن سے پہلے اور بعد میں ان کی ترجیحات میں واضح تضاد دیکھا جاسکتا ہے۔ حمیدہ نورسمجھتی ہیں کہ جب تک بہتر انداز میں عوامی نمائندگی نہیں ہوگی یونہی عوام کے ساتھ ترقی کے نام پر دھوکہ ہوتا رہے گا۔
کوئٹہ ماضی کا لٹل پیرس:
ماضی میں کوئٹہ کی خوبصورتی کو دیکھ کر اسے لٹل پیرس کا خطاب دیا گیا تھا، اور کوئٹہ کے خوبصورتی کے چرچے ہر جگہ ہوتے تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور حکام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ماضی کی لٹل پیرس اب کچرے کے ڈھیر میں ایسے تبدیل ہوا ہے کہ راہ چلتے ہوئے راہ گیر بھی اس گندگی سے پریشان نظر آتے ہیں۔کوئٹہ کے پوش علاقوں میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں کوئٹہ کے نواحی علاقوں کی صورتحال اس سے بھی ابتر ہے۔
کوئٹہ شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے کوڑا کرکٹ کو تلف کرنے میں دشواری :
2024 کے مردم شماری کے مطابق کوئٹہ اربن کی آبادی 1221495 ہے اور اس شہر میں صوبے بھر مختلف کاموں اور روزگار کے تلاش میں روزانہ ہزاروں لوگ آتے ہیں جس سے شہر پر اضافی بوجھ بڑھ رہا ہے۔ جبکہ 1998میں شہر کی اربن آبادی پانچ لاکھ 66 ہزار تھی۔کوئٹہ میٹروپولیٹن کے مطابق روزانہ 16 سے 17 سوٹن کچرہ پیدا ہوتا ہے جبکہ کارپوریشن کے پاس روزانہ پانچ سو ٹن کچرا شہر سے باہر نکالنے کی صلاحیت نہیں ہیں، جس کی وجہ سے روزانہ 11 سو ٹن کوڑا کرکٹ شہر میں رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کے لئے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
اعدادوشمار کیا بتاتے ہیں :
اعدادوشمار کے مطابق 1988میں کوئٹہ شہر کی صفائی کیلئے 978 اہلکار مامور تھے اور اس وقت یہ تعداد کم ہوکر 700 افراد پر مشتمل ہے۔ شہر کی آبادی میں ہوشربا اضافہ کے باوجود صفائی پر مامور عملے اور دیگر وسائل کی کمی آنے والے دنوں میں کوئٹہ کے شہریوں کے لئے مذید مشکلات کا باعث بنے گی اور یہ شہر رہنے کا قابل نہیں رہے گا۔
میٹروپولیٹن کارپوریشن کے اعدادوشمار کے مطابق کارپوریشن کے پاس مجموعی طورپر19لوڈرزسمیت 227چھوٹی بڑی گاڑیوں موجود ہیں۔کارپوریشن کے پاس وہیل ایکس کیویٹر، کرین اورہیوی بلڈوزر موجودنہیں ہے۔کچرہ اٹھانے کیلئے شہر میں 290کچرہ کنڈی ہیں، کارپوریشن کے صفائی کا عملہ روازنہ 174، دو روزہ پانچ اور ہفتہ وار 111 مقامات پر کچرا اٹھاتے ہیں ۔
چیف میٹروپولیٹن آفیسر عطاءاللہ بازئی نے بتایا کہ ان کے پاس ملازمین کی تعداد انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے انہیں صفائی مہم میں مشکلات کا سامنا ہے، میٹروپولیٹن کارپوریشن کے فنڈز نہ ہونے کے برابر ہیں اور حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے پیسے ملازمین کی تنخواہوں میں چلے جاتے ہیں۔
لیکن ایڈمنسٹریٹر کوئٹہ حمزہ شفقات نے فرائض سر انجام نہ دینے والے میٹروپولیٹن کے 1400ڈیلی ویجزملازمین کو برطرف کردیا اور موقف اختیار کیاہے کہ مذکورہ ملازمین فرائض میں غفلت برت رہے تھے جس کی وجہ سے انہیں ملازمتوں سے برطرف کرکے کوئٹہ میں صفائی کا نظام نجی کمپنی کودے دیاگیاہے۔
ترجمان حکومت بلوچستان شاہد رند نے پریس کانفرنس کے دوران تصدیق کی کہ جب سے نجی کمپنی کو ٹھیکہ دیاگیاہے تب سے کارپوریشن کے کچھ ملازمین نے صفائی مہم میں روڑے اٹکائے تاہم کمپنی نے مخصوص علاقوں میں کام کاآغاز کیاہے، حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے اوربہت جلد اس کو حل کیاجائے گا۔
جرمن واچ ڈاگ کے مطابق پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں متاثرہ ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پرہے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ہرسال ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ماہرین کے مطابق کچرہ جلانے سے فضائی آلودگی پھیلتی ہے۔
ماہر ماحولیات یونیورسٹی آف بلوچستان کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ثناءاللہ کے مطابق جلتی ہوئی پلاسٹک کی تھیلیوں اور ربڑ سے ڈائیؤکسین اور ٹوکسین اور بیماری پیدا کرنے والے جراثیم ہوا، پانی اور مٹی میں معلق ہو جاتے ہیں جو کہ انسانی صحت اور ماحول کیلئے خطرناک ہے۔انہوں نے بتایا کہ پلاسٹک اور کچرہ جلانے پر مکمل پابندی عائد کرکے ضلعی انتظامیہ محکمہ ماحولیات ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائے۔
بلوچستان میں اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہے اور وزارت اعلیٰ پیپلز پارٹی کے پاس ہے۔ عبیداللہ گورگیج جوکوئٹہ کے حلقے سریاب روڈ سے پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوگئے تھے،انہوں نے دعویٰ کیا کہ سریاب روڈ اور اس سے ملحقہ مختلف علاقے بشیر چوک، کشمیر آباد، غفور ٹاون، لوڑ کاریز، ازبک بازار سے کچرہ اٹھا لیا گیا ہے۔ سریاب روڈ کی ترقی اور صفائی کیلئے حکومت بلوچستان نے 80کروڑروپے کی رقم بھی جاری کی ہے ، تاہم سریاب کے رہائشی احسن ان دعووں کی تردید کرتے ہوئے بتاتا ہے، کہ ان کے علاقے سے اب تک کچرہ نہیں اٹھایا گیا ہے جس کی وجہ شہری مجبور ہوکر کچرے کی ڈھیر کو تلف کرنے کی بجائے جلا دیتے ہیں۔
ان تمام دعووں اور الزامات کے برعکس احسن کی مشکلات جوں کے توں ہیں وہ بتاتے ہیں کہ اب تو مہینوں مہینوں میٹروپولیٹن کی گاڑیاں کچرہ اٹھانے کیلئے نہیں آتے ہیں۔