تبدیلی کی افواہیں

تحریر: انور ساجدی
آئینی ترامیم کے نام پر اسلام آباد میں جو ہائی ڈرامہ ہوا وہ وقتی طور پر فیل ہوگیا لیکن جو لوگ آئین میں من پسند ترامیم چاہتے ہیں وہ باز نہیں آئیںگے اور کچھ عرصہ بعد دوبارہ کوشش کریں گے اس بار تو مولانا رکاوٹ بنے معلوم نہیں کہ اگلی بار کوئی اور رکاوٹ بنے گا کہ نہیں۔آئینی ترامیم کیا ہیں ایک پورا پیکیج ہے قانون دان حامد خان کا دعویٰ ہے کہ ان ترامیم سے 1973 کے آئین کا پورا حلیہ بگڑ جائے گا ان کے ساتھی وکلاءکا بھی یہی کہنا ہے جبکہ حکومتی موقف ہے کہ جج صاحبان کی تقرری سپریم کورٹ کے ساتھ ایک فیڈرل آئینی عدالت کا قیام تقرری کے طریقہ کار سمیت دیگر اہم معاملات کو طے کرنا مقصود ہے لیکن اصل مسودہ چھپایا گیا۔ اس سے لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔مجوزہ ترامیم میں حساس تنصیبات پر حملہ کی سخت سزاؤں کی شق بھی شامل ہے اور دہشت گردی کے تدارک کے لئے مقتدرہ کو وسیع اختیارات تفویض کرنا مقصود ہے۔ جہاں تک فیڈرل کورٹ کا تعلق ہے تو ماہرین کے مطابق یہ سپریم عدالت ہوگی اور اس کا دائرہ کار تمام عدالتوں پر ہوگا۔یہ تجویز بنیادی طورپر پیپلز پارٹی کی ہے جو دیگر ترامیم ہیں وہ مقتدرہ حلقوں نے تیار کی ہیں حتیٰ کہ اہم ن لیگی رہنما بھی اس سے بے خبر ہیں۔بہرحال وقتی طور پر بہ بلا ٹل گئی ہے اور سارا دوش ن لیگ اور وزیراعظم شہبازشریف کودیا جا رہا ہے۔ایک چہیتے فیصل واوڈا نے اسے حکومت کی ناکامی قرار دیا ہے اور اس حکومت کو نکمی قرار دیا ہے۔بعض دیگر مبصرین اس ناکامی کو دور رس نتائج کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں جبکہ سوشل میڈیا کے مخصوص حلقوں نے پروپیگنڈا شروع کر دیا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوجانے کے بعد شہبازشریف حکومت کی چھٹی کر دی جائے گی اور اس کی جگہ چار ماہ کے لئے ایک نگراں حکومت قائم کی جائے گی ۔ان وی لاگرز نے ن لیگ کے منحرف رہنما مشاہد حسین سید کے بطور عبوری وزیراعظم تقرری کی پیش گوئی بھی کردی ہے۔مشاہد حسین سید اب تک مختلف حکومتوں کا حصہ رہے ہیں اور ان کا مستقل عہدہ پاک چائنا فرینڈشپ ایسوسی ایشن کی صدارت ہے۔وہ سی پیک کے بڑے وکیل ہیں وہ پارٹیاں تو بدلتے رہتے ہیں لیکن ان کی وفاداری ایک جگہ قائم رہتی ہے۔حکومت کی تبدیلی کے پروپیگنڈے کا مقصد ن لیگ اور شہباز شریف کو خوفزدہ کرنا ہے۔لوگ لاکھ اسے شہبازشریف کی ناکامی قرار دیں لیکن وہ اتنے بھولے نہیں جس طرح انہوں نے16 ماہ کی حکومت کے دوران9مئی کے حوالے سے تحریک انصاف کے خلاف عدالتوں میں ثبوت پیش نہیں کئے اسی طرح 1973 کے آئین کا حلیہ بگاڑنے سے خوفزدہ ہیں اور وہ غیر معمولی اقدام اٹھا کر اس جھنجھٹ سے بچنا چاہتے ہیں ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ شہبازشریف سے مایوس ہو کر حاکمان نے ترامیم منظور کروانے کی ذمہ داری ناتجربہ کار بلاول بھٹو کو دی ہے۔ وزیراعظم کے واپس آنے کے بعد وہ اپنی کوششیں شروع کریں گے۔ابتدائی طور پر انہوں نے مولانا سے ملاقاتیں کی ہیں جبکہ مولانا نے دوسری بار شہبازشریف سے ملاقات سے انکار کر دیا تھا جبکہ انہوں نے نوازشریف کو پیغام پہنچایا کہ وہ ان کے غریب خانے پر آمد کی زحمت نہ کریں۔خیر مولانا کا شاندار فارم ہاؤس غریب خانہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک مکمل پرتعیش رہائش گاہ ہے۔مولانا بلاول سے اس لئے رابطہ رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ کوئی بڑی بارگین کرسکیں۔امکانی طور پر وہ ترامیم کی حمایت کے بدلے بلوچستان حکومت مانگ سکتے ہیں وہ اس سے قبل ن لیگ سے درون خانہ یہ مطالبہ کر چکے ہیں لیکن ن لیگ نے یہ بہانہ بنایا کہ بلوچستان کی حکومت پیپلز پارٹی کی قیادت میں قائم ہے۔لہٰذا وہ اسے مولانا کو دینے کا وعدہ نہیں کرسکتے۔البتہ اگر پیپلزپارٹی راضی ہو تو اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔گمان یہی ہے کہ آئندہ ملاقاتوں کے دوران مولانا تنہائی میں بلاول سے یہ مطالبہ کرسکتے ہیں۔ اگرچہ اس مطالبہ کو تسلیم کرنا مشکل لگتا ہے لیکن حاکمان بالا کی مرضی ہو تو اس ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔بلوچستان کی حکومت کیا چیز ہے وہاں پر کسی بھی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہے۔ بڑی پارٹیوں میں ن لیگ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی شامل ہے جبکہ باپ پارٹی کی اہمیت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔2024 کے عام انتخابات سے قبل آصف علی زرداری صادق سنجرانی سے خفا ہوئے تھے اس لئے وہ کسی بڑے منصب پر نہیں آسکے۔تاہم بعد میں انہوں نے کئی مواقع پر زرداری سے رابطے کئے اور انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلایا۔اس سلسلے میں سابق وزیراعلیٰ قدوس بزنجو خاص کردار ادا کر رہے ہیں یعنی ایک اہم امیدوار صادق سنجرانی بھی ہیں۔انہوں نے زرداری کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ بلوچستان میں ان کی خواہش کے مطابق ترقیاتی منصوبے بنا سکتے ہیں اور ان پر عملدرآمد کرسکتے ہیں جس کی وجہ سے عالمی سرمایہ کار بڑی تعداد میں بلوچستان کا رخ کر سکتے ہیں۔اب جبکہ تبدیلی کی افواہیں چل نکلی ہیں تو انہیں محض افواہ نہ سمجھا جائے بلکہ اعلیٰ ذہنوں کا مخصوص مقاصد کے لئے پروپیگنڈا سمجھنا چاہیے تاکہ لوگ کسی بھی تبدیلی کے لئے ذہنی طور پر تیاررہیں۔
اس سال نومبر تک کئی چیزیں واضح رخ اختیار کریں گی اور یقینی صورتحال کا اس وقت ہی پتہ چلے گا کیونکہ نومبر میں اہم تبدیلیاں اور تقرریاں ہونی ہیں جن کا سیاست اور حکومت پر براہ راست اثر ہوگا۔سردار اختر جان مینگل نے پارلیمنٹ کی ناکامی پر استعفیٰ دے کر کافی واہ واہ سمیٹی ہے لیکن استعفیٰ کے بعد ان کی جماعت نہ صرف پارلیمنٹ میں موجود ہے بلکہ آئینی ترامیم کی حالیہ کوششوں میں ان اراکین نے مذاکرات میں بھی حصہ لیا ہے۔پارٹی کے وفد نے صادق سنجرانی کے ہمراہ حکومتی اراکین سے ملاقات کی ہے اگرچہ اختر مینگل نے ترامیم کی حمایت کے بدلے میں دو ہزار مسنگ پرسنز کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے جو گھاٹے کا سودا نہیں ہے لیکن حکومت کسی صورت میں بھی یہ مطالبہ پورا نہیں کرےگی۔حکومت 2 ہزار تو کیا2سو افراد بھی بازیاب کرانے کی روادار نہیں ہے۔سنا ہے کہ شہبازشریف نے واضح کر دیا ہے کہ مسنگ پرسنز کا معاملہ ان کے ہاتھوں میں نہیں ہے۔بہرحال اختر جان کے استعفیٰ کے بعدان کی پارٹی کا حکومت سے مذاکرات سمجھ سے بالاتر نہیں اور یہ عمل کئی لوگوں کو اچھا نہیں لگا۔
میں نے گزشتہ کالموں میں یہ لکھا تھا کہ حکمرانوں کو معلوم نہیں کہ اختر مینگل بلوچستان ہے اور ماہ رنگ گلزمین ہے۔اس پر کئی لوگوں نے تنقید کی ہے۔میرا مقصد یہ تھا کہ اختر ہو ماہ رنگ ہو یا کوئی اور یہ شخصیات ہیں اصل چیز گلزمین ہے۔شخصیات بدل سکتی ہیں راستے تبدیل کرسکتی ہیں لیکن اصل چیز گلزمین کے لئے جدوجہد ہے۔جو لوگ اس مقصد سے ہٹ جائیں گے ان کی حیثیت ختم ہو جائے گی اور جو لوگ ثابت قدم رہیں گے تاریخ میں ان کا نام زندہ رہے گا۔
میں نے حال ہی میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ بے شک بلوچستان ملک کے باقی لوگوں کے لئے ایک صوبہ ہے لیکن اہل بلوچستان کے نزدیک وہ مقدس گلزمین ہے اور وہ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اگر ماہ رنگ گلزمین کی حفاظت کی قسم نہ اٹھاتی تو گوادر،تربت اورپنجگور میں لاکھوں لوگ اکٹھا نہ ہوتے۔ماہ رنگ کو پذیرائی ایک شخصیت کے حساب سے نہیں ملی بلکہ گلزمین کے ایک سپاہی کی حیثیت سے ملی ہے۔اسی طرح اختر مینگل کی واہ واہ اس لئے ہوئی تھی کہ انہوں نے پاکستان کی بے توقیر پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیا تھا جس سے لوگوں نے یہ مراد لی تھی کہ غالباً انہوں نے پارلیمانی سیاست ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ احسان شاہ اور قاسم رونجھو ایک چیمبر سے دوسرے چیمبر جا کر حکمرانوں سے ملاقات کی بھاگ دوڑ میں مصروف نظر آتے ہیں۔اس کا کیا مقصد ہے؟ اگر بی این پی نے بحیثیت پارلیمانی پارٹی زندہ رہنا ہے تو ہو سکتا ہے کہ آئندہ انتخابات تک اسے زندہ نہ رہنے دیا جائے ۔
بات صاف ہونی چاہیے سردار اختر مینگل کو واشگاف الفاظ میں بتانا چاہیے کہ ان کا استعفیٰ ذاتی نوعیت کا ہے ان کی جماعت کام کرتی رے گی۔انتخابات میں حصہ لیتی رہے گی۔اس نظام کا حصہ بن کر اسے تقویت پہنچاتی رہے گی۔موجودہ حالات میں ڈبل پالیسی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔دوسری جماعت نیشنل پارٹی ہے وہ نہ صرف پارلیمانی نظام کا حصہ ہے بلکہ دل و جان سے ریاست اور اس کے نظام پر صدقے واری ہے اس کی پالیسی صاف ہے اور وہ اس نظام کا حصہ بننے پر نازاں اور شاداں ہے۔حالانکہ گرنے کا بھی کوئی مقام ہوتا ہے وہ امید فروا پر زندہ ہے کہ شاید ان کے انتخاب کی باری آئے چلو ہر ایک کی اپنی سیاست ہے سب کی مرضی کہ وہ جس راستے پر چلیں یا اپنے مفادات کو مقدم رکھیں۔یہ قوم پرستی کا کھیل مزید نہیں چلے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں