ایس ایس ایف سمیت 15 کونسلز کا مشترکہ پریس کانفرنس

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کووڈ 19 کے عالمی وباء نے پاکستان سمیت دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ اس وباء کے باعث جہاں انسانی جانوں کا ضیاع انتہائی پریشان کن ہے وہاں ملک بھر میں تعلیمی نظام کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔ تین ماہ کی لاک ڈاون اور تعلیمی اداروں کی بندش کو مد نظر رکھ کر ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے حال ہی میں مختلف یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسز کے آغاز کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔ تعلیمی سال ضائع ہونے کی صورت میں بظاہر یہ اعلان خوش آئندہ محسوس ہوتا ہے مگر یہ اعلان اکثر طلبہ کے لئے زہنی کوفت کا باعث بن رہی ہے۔ بلوچستان میں طالب علموں کی اکثریت ایسے علاقوں میں رہتی ہے جہاں بجلی و انٹرنیٹ کجا، پینے کا پانی تک بمشکل میسر ہوتا ہے۔

معزز صحافی حضرات

ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے بلوچستان ، ڈیرہ غازی خان، سندھ کے دیہی علاقوں، ٹرائیبل ائیریا اور سابقہ فاٹا کے زمینی حقائق کو جانے برعکس آن لائن کلاسز کا فیصلہ کیا ہے جو کہ ان علاقوں میں مقیم طلبہ کے ساتھ نا انصافی ہے۔ ہائیر ایجکوکیشن کمیشن نے آنلائن کلاسز کے حوالے سے ایک سروے کا بھی انعقاد کیا تھا مگر بدقسمتی سے وہ طلبہ جن کو انٹرنیٹ کی سہولیات میسر نہیں وہ سرے سے اس سروے میں حصہ بن ہی نہیں سکے جہاں وہ اپنی رائے دے سکتے۔

معزز صحافی حضرات

کئی طلبہ کو اپنے موبائل فون کے ساتھ میلوں دور کا فاصلہ طے کرکے انٹرنیٹ سروس کی تلاش میں بلندیوں پر جاکر تپتی دھوپ میں بیٹھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ تعلیم کو نعمت کے بجائے ایک زحمت بنا دیا گیا ہے۔ اس پریس کانفرنس کی توسط سے ہم یہ سوال حکام بالا کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں کہ ایسے طالب علموں کی زندگیوں کو لاحق خطرات کا زمہ دار کون ہے؟

معزز صحافی حضرات

جہاں آدھے سے زیادہ طلبہ آن لائن کلاسسز لینے سے محروم ہیں اور جو قلیل تعداد میں کلاسسز لے پار رہے ہیں ان سے یونیورسٹی پوری فیس مانگ رہی ہے؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک طالب علم یونیورسٹی کا لیباٹری، لائبریری، ہاسٹل، پانی، بجلی، کلاس روم، ٹرانسپورٹ و دیگر سہولیات استعمال کیے بغیر بھی ان کی مد میں بھاری فیسیں ادا کرے؟ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ انجینرنگ اور میڈیکل کی تعلیم کو بھی آن لائن دینے کی غیر منطقی کوشش کی جارہی ہے، کیا کسی نے ایک مرتبہ نہیں سوچا کہ ڈاکٹر اور انجینئر بنا لیباٹریوں تک رسائی کے کیسے عملی کام کر سکتے ہیں؟ آن لائن کلاسس کا معیاری ہونا ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔

معزز صحافی حضرات

سیو اسٹوڈنٹس فیوچر (ایس ایس ایف)، بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل پنجاب یونیورسٹی لاہور، بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان، بلوچ ایجوکیشنل کونسل گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، بلوچ ایجوکیشنل کونسل ایگری کلچر فیصل آباد، بلوچ سندھی کمیونٹی،
بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل گورنمنٹ کالج یونیوسٹی لاہور، بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل سندھ یونیورسٹی جامشورو، بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل ایگلرکلچرل یونیورسٹی ٹنڈو جام، بلوچ اسٹوڈنٹس نشتر میڈیکل کالج ملتان، بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل یونیورسٹی آف انجنئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور، بلوچ ایجوکیشنل کونسل یونیورسٹی آف کراچی، بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل یونیورسٹی آف گجرات، بلوچ ایجوکیشنل کونسل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل یونیورسٹی آف منیجمنٹ لاہور اور بلوچ کاؤنسل شہید زولفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لاء کراچی کے طلبہ واضع کرنا چاہتے ہیں کہ یہ فیصلہ ہمارے مسقبل کے ساتھ کھیل ہے جسے ہم ہرگز قبول نہیں کرینگے۔

معزز صحافی حضرات

اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم وزیر اعظم پاکستان،چیف جسٹس سپریم کورٹ, وزیر تعلیم شفقت محمود اور دیگر تمام ذمہ داران سے اپیل کرتے ہیں کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے فیصلے کو فل فور ملتوی کیا حائے اور اس فیصلے کا اطلاق تب تک نہیں کیا جائے جب تک ملک کے ہر طالب علم کو تیز انٹرنیٹ اور بجلی کی سہولیات فراہم نہیں کی جاتی۔
شکریہ

اپنا تبصرہ بھیجیں