بلوچستان کی خونی شاہراہوں پر اپنوں سمیت غیر ملکی بھی لقمہ اجل بننے لگے
تحریر: محمد انور
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ بیرون ممالک سے آئے ہوئے سیاح بھی اسی جبر و استحصال کا شکار دھرتی پر دم توڑتے ہیں، نجانے اس سرزمین کو مزید کتنا خون چاہیے ہوگا، سرسبز و خوشحال ہونے کے لئے۔ بی بی سی و دیگر ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق سالانہ ہزاروں افراد ان خستہ حال شاہراہوں و Untrained ڈرائیووں کی غفلت کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
اے کاش پرتگالی سیاح نونو کاسٹینرا بلوچستان کے قدرتی شاہکاروں کو دیکھ سکتے۔
بلوچستان خوبصورت مناظر، دلکش اور دلفریب سیاحتی مقامات اور ثقافتی ورثے سے جگمگاتی سرزمین ہے۔ خوبصورت لینڈ اسکیپ سے سجی سرزمین بلوچستان کا ہر رنگ حسین اور ہر روپ سہانا ہے۔ اس سرزمین پر کہیں مٹیالے، کہیں سرخی مائل تو کہیں سرسبز پہاڑ ہیں اور کہیں خوبصورت فطری مناظر کا ح±سن بکھیرتی وادیاں ہیں۔ ان وادیوں میں قدرتی درے، غار اور صاف، چمکتے چشمے دیکھنے والوں کو دعوتِ دیدار دیتے نظر آتے ہیں۔
ان سیاحتی مقامات میں مکران سے ملحقہ 7 سو کلومیٹر سے زائد طویل سمندری پٹی ہے جہاں کنڈ ملیر جیسا دلکش ساحل ہے۔ پسنی کے سمندر کی کوکھ میں جزیرہ استولہ اور پھر ہنگول کا وسیع وعریض نیشنل پارک بھی ہے اس کے ساتھ قدرت کا ایک اور شاہکار ‘امید کی شہزادی’ (Princes of Hope) کا مجسمہ ہے جو دیکھنے والوں کو مبہوت کردیتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وادی کوئٹہ کے نواح میں خوبصورت وادی ہنہ، اوڑک اور ولی تنگی، بولان میں پیرغائب، کھجوری یا خضدار میں مولا چوٹک کا علاقہ یا پھر زیارت میں صنوبر کے جنگلات ہوں یا وہاں واقع یہ تمام سحرانگیز مقامات سیاحوں کے لیے جنت سے ہرگز کم نہیں۔
بلوچستان کو مہرگڑھ کی صورت میں 9 ہزار سال قدیم تہذیب کا مسکن ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ڈیرہ بگٹی سے ملی سیکڑوں سال قدیم ڈائناسارز جسے بلوچی تھرم (Balochitherium) کہا جاتا ہے، ان کی باقیات ہوں یا پنجگور میں پائی جانے والی قدیم قبریں، قلات کا قلعہ میری، مستونگ میں شاشان، نصیر آباد کے میدانی علاقے، رخشان کے ریگستان، تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کو ان مقامات کی کشش یہاں کھینچ لاتی ہے۔
کیچ میں سسی پنوں، لسبیلہ میں شیریں فرہاد کا مزار ہو یا اندرون سنگلاخ پہاڑوں میں ہنگلاج کا مندر، یہ سب امن اور محبت کے متوالوں کو مسحور کر دیتے ہیں۔
بولان اور چمن کے پہاڑوں کا سینہ چیر کر تعمیر کی گئی انگریز دور کی سرنگیں اور وہاں بچھی ریلوے لائنیں بھی سیاحوں کو حیران کردیتی ہے۔ اسی طرح بولان اور ہرنائی کے پہاڑوں میں پائے جانے والے غار قدرت کا شاہکار ہیں۔
کوہ چلتن کی خوبصورتی اپنی مثال آپ ہے یہ چاروں موسموں میں بے مثال ہے۔ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں کوہ چلتن نامی پہاڑ کو خاص توجہ یوں بھی حاصل ہے کہ یہاں کے دلکش مناظر انتہائی خوبصورت ہیں وادی شال (کوئٹہ) کی خوبصورتی مناظر کو دیکھنے والوں کی نظریں جب پہاڑ کی چوٹی پر پڑتی ہیں تو لوگ دنیا کی دیگر سیاحتی مقامات کو بھول جاتے ہیں اسی پہاڑی سلسلے میں جانے کے لئے میاں غنڈی پارک کی جانب سے ایک راستہ جہان داخل ہوتے ہی انسان ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے سردیوں کے موسم میں کوہ چلتن برف کی شال اوڑھ لیتا ہے بادل انتہائی خوبصورت انداز میں خوش آمدید کرتے ہیں کوہ چلتن میں چلنے والی ہوائیں یہاں کی ثقافتی اور مزاحمتی پہچان کی خبر دیتی ہیں۔ چلتن پہاڑ میں داخل ہوتے ہی انسان اس تصور میں گم ہو جاتا ہے اگر دنیا میں کوئی جنت ہوگی تو کوہ چلتن ہی ہے جہاں سکون سا حاصل ہوتا ہے ہر طرف قدرتی خوبصورت منآظر، چرند پرند بارش کے بعد ( جل) ندیوں میں بہنے کی آوازیں کئی گیتوں سے سر چھین لیتے ہیں۔
کوہ چلتن پہاڑی بکروں کی ایک نایاب نسل کا مسکن بھی ہے۔ اس پہاڑی سلسلے میں مارخور کی ایک نایاب نسل بھی موجود ہیں۔ مقامی لوگ اسے چلتن مار خور کے نام سے جانتے ہیں۔
یہاں موجود جنگلی انجیر، دیگر پھلوں کے درخت اور مختلف اقسام کی جڑی بوٹیاں خاص کر (گواڑخ) اس مقام کے حسن کو مزید دوبالا اور ماحول کو معطر کیے رکھتے ہیں۔
ویسے تو بلوچستان میں کئی خوبصورت سیاحتی مقامات ہیں لیکن کوہ چلتن کا شمار بلوچستان کے بلند پہاڑوں میں ہوتا ہے جو کوہ پیماو¿ں کی توجہ کا مرکز بھی ہے۔
بلوچستان کے لوک گیتوں میں بہادری اورخوبصورتی کے لیے چلتن کے نام کو بطورِ استعارہ استعمال کرتے ہیں بلوچ مزاحمتی شاعری میں چلتن کو مدرسے اور اسکول سے تشبیہ دیتے ہیں، اس پہاڑ سے مختلف کہانیاں بھی منسوب ہیں۔ چلتن قدرت کا اس سرزمین کو عطا کردہ حسین تحفہ ہے۔