سمی کتاباں دست مہ جَن (سمی کتابوں کو ہاتھ نہیں لگانا)
تحریر: آسیہ بلوچ
کیونکہ سمی کی ہاتھوں میں تھامے ہوئے کتابوں سے طاقت ور ریاست اور مذہبی ٹھیکیدار ڈر جاتے ہیں، سمّی کے ہاتھوں کی کتابوں نے خوفناک لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ اگر سمّی کے ہاتھ میں کتاب ہو اور علم، ادب، سائنس اور سیاست کے موضاعات پر لکھی گئی ان کتابوں کو سمّی جب کتاب میلے میں رکھتی ہے تو ان خوفناک کتابوں کے اسٹال سے ریاست کیلئے سیکورٹی خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
سمّی جب صبح اٹھ جاتی ہے تو پہلے ان کتابوں کی طرف جاتی ہے جو الماری میں سجی ہوئی ہیں، ان کتابوں کو پڑھ کر ان میں تجسس پیدا ہوتا ہے، پھر تھوڑی دیر تک مطالعے کو جاری رکھتی ہے، سوالات کے انبار اٹھ جاتے ہیں، سمّی خود سے سوال کرنا شروع کرتی ہے۔ جب جستجو کا ماحول پیدا ہوتا ہے، تو شعور بڑھ جاتا ہے، شعور ہی آج سیکورٹی خطرات کے سب سے بڑے اسباب میں سے ایک ہے، جن سے آج کے ظالم اور جابر ڈر جاتے ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہی کتابیں لاہور اور کراچی سے چھپتی ہیں، تمام کتب مارکیٹوں میں باآسانی دستیاب ہوتی ہیں لیکن یہ کتابیں جب کسی بلوچ فرزند کے ہاتھ میں آتی ہیں یا کہ سرزمین بلوچستان کے مختلف پسماندہ علاقوں میں لگائے گئے کتب میلے میں سجائی جاتی ہیں یا کسی لائبریری میں رکھی جاتی ہیں تو یہاں وہ ایٹم بم سے زیادہ خطرناک تصور کی جاتی ہیں کیوں۔۔۔۔۔۔؟
بس اس ڈر کا واحد سبب یہ ہے کہ ریاست اور ان کے پالے ہوئے کچھ مذہبی ٹھیکیداروں اور ملّاﺅں کو سمّی کیے شعور سے ڈر ہے، جب سمّی کو شعور آئے گا تو باقی بچیاں بھی زیادہ سوال پوچھنے لگیں گی۔ بلوچستان میں جب سمّی اور ان کی سہیلیاں جستجو کرنے لگیں گی جنہیں دہائیوں سے پسماندہ رکھنے اور ذہنی غلام بنانے کیلئے کتابوں سے دور رکھی گئی ہیں، یہی جستجو، یہ شعور اور یہی بیداری ان حکمرانوں کیلئے ایک خوف اور ڈر ہے۔
لیکن بلوچستان کی گودی، سمّی اور علم اور شعور کی پیاسی بلوچ لڑکیوں نے تعلیم اور شعور کے فلسفے پر کاربند ہوکر اب زیادہ سے سوال کرنے لگی ہیں، سمّی اور انکی سہیلیوں میں شعور آچکا ہے۔
یہ شعور سمّی نے محض کتابوں سے نہیں بلکہ اپنی سرزمین کے حالات اور آپکے ڈر و خوف اور بوکھلاہٹ کو دیکھ کر بہت کچھ سیکھا ہے۔
سمّی آج بھی ان حالات اور واقعات کے بارے میں سوچ کر اداس ہوتی ہے، جب انہیں یہ یاد آتی ہے کہ تربت اور پنجگور میں تعلیمی انقلاب برپا کرنے والے استاد زاہد آسکانی کو شعور سے ڈرنے والے ان جابروں اور ظالموں نے بے دردی سے قتل کردیا کہ ہم شعور کو بزور طاقت دفن کردیں گے، سر زاہد آسکانی کا قصور بس یہی تھا کہ وہ بلوچ مردوں کے ساتھ ساتھ بلوچ بچیوں کو تعلیمی ماحول مہیا کرتا تھا، بلیدہ سمیت بلوچستان کے کئی گاﺅں میں جہاں بلوچستان کی سمّی پڑھتی تھیں، آپ نے شعور کے خوف سے ان میں سے کئی اسکولوں کو جلا کر راکھ کردیا۔
آپ نے بلوچ سرزمین پر کتابوں کو آگ لگا دی، لائبریوں کو بند کردیا، بلوچ طالب علموں اور اساتذہ کو اٹھانا شروع کردیا۔
بلوچستان کے وہ تعلیمی ادارے جن کے اندر لائبریریز، ریسرچ سینٹرز اور مختلف شعبہ جات سے منسلک اساتذہ ہونا چاہیے تھے لیکن جدید تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کے بجائے آپ نے انہیں فوجی چھاﺅنیوں میں تبدیل کردیا۔
لیکن!
ان تمام تر رکاوٹوں کے باوجود سمّی نے کبھی بھی ہار نہیں مانی، وہ آج بھی مزاحمت کررہی ہے۔
ایک مہذب اور تاریخی قوم سے وابستہ ہونے کی حیثیت سے سمّی اس بات کو بخوبی جانتی ہے کہ آج یہ پابندی لگانے کی کوشش کررہے ہیں، آج یہ لوگ علم وشعور پر قدغن لگا رہے ہیں، یہ نام نہاد مذہبی اصول میرے کلچر اور بلوچی روایات میں نہیں ہیں۔ یہ ایک استمعاری قوت کی دی ہوئی پالیسیز ہیں جنکو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مختلف شکل میں آزمایا جارہا ہے۔
غلام دین مری بلوچ نے بلوچستان کے شیرزالوں کیلئے کیا خوب شاعری لکھ دی ہے۔
سمّی کتاب بَڈءَ بکاں
سمّی ب±رو تو وانگَءَ
سمّی آ وھد بوتَ بدل
پہ میر و مزنَ ءَ ہچ مجل
سمّی جنِکاں وانَگی
علم و ہنر نوں زانَگی
سمّی قرآنَ ءَ لکھ اِتگ
فرضے علم مرد و زنی
سمّی چہ لوگ ءَ در بیا
حداوند تہ پ±شت و پناہ
سمّی کریمہ جوڑ بہ بو
سمّی گپ حقِ بجاں
سمّی توار ب±رزا بِکاں
سمّی بِگ±ش پادا بلوچ
نیم سریں واہبَ بسوچ
سمّی کتاب بڈا بکاں
سمّی قلم دست َ بِکاں
سمّی تہار مائیں شپاں
سمّی روانکاں کارواں
ہچ بر مہ من زوراکیاں
سمّی چوں ماہ رنگ ِ گ±ہار
پ±روشیت ظلمانی حصار
سمّی مئے جوریں دڑمناں
پہ مارا نباں آں شادماں
سمّی جہد برجاہ بِدار
دیمہ ب±رو گامہ مدار
سمّی وطنے میتگاں
سمّی نوکیں پ±سگاں
سمّی جنیک و بچکاں
دیم پہ روانکاں وانگاں
کور دیدگاں ر±ڑنہ بکاں
سمّی تئی راجے بزَّاگ ایں
پادا شپاد و گ±ڑنگ ایں
سمّی اے راج ِ حاطرہ
ب±نگیڑ راہ پہ منزلا
سمّی نبئے ہچ بر ملام
سمیّ اے پِر بندی غلام
سمّی تئی جہد برجاہ ببات
سمّی شان ب±ززا ببات
سمّی وطن مئے سبز بات
سمّی ڈگارءک±نگراں
دروت و س±ہریں سلام۔