اگر مولانا عبدالحق بلوچ جماعت اسلامی میں نہ ہوتے؟

امان اللہ شادیزئی

یہ سوال میرے ذہن میں مولانا عبدالحق بلوچ کی زندگی میں کئی بار آیا ا ور بعض دوستوں سے اس کا ذکر بھی کیا ور آج پہلی برسی کے موقع پر اس سوال کے جواب پر کالم لکھنے کا فیصلہ کیا بلوچستان میں کئی مولانا ہوں گے جو اس دنیا میں آئے اور چلے گئے ان میں کئی مذہبی جماعتوں سے تعلق بھی رکھتے ہوں گے اور کسی کا تعلق نہیں بھی ہوگا مگر آج وہ گمنام ہوگئے ہیں اور کئی گمنامی میں جانے کے لئے تیار بیٹے ہیں اس حوالہ سے کچھ تذکرہ اپنے مرشد سید ابو الا اعلیٰ مودودی کا کرنا چاہتا ہوں۔میری زندگی کو نظریاتی جہت دیتے ہیں ان کی کتابوں نے اہم کردار ادا کیا ہے جن لوگوں کو پاکستان سے باہر جانے کا موقع ملا ہے وہ بہتر جانتے ہیں کہ سید مودودی کا دنیا میں کیا مقام ہے اور عالم اسلام کی شاید یہی کوئی اسلامی تحریک ایسی ہو جو موجد مولانا مودودی کے افکار سے متاثر نہ ہوگی اور ان کی کتاب الجہاد فی السلام نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے ایران اور برطانیہ جانے کا کوئی بار موقع ملا ہے برطانیہ میں بین الاقوامی کانفرنس میں گیا تو وہاں دنیا بھر سے صاحبان علم و دانش آئے تھے اور ان میں سے ہر ایک سید ابوالا مودودی کے افکار سے متاثر تھا اور وہ لوگ گمنام تھے جو مولانا مودودی کے مخالف تھے اور کند کے فتوے لگاتے تھے اور پاکستان میں ان کے مخالفین قبروں میں گوشہ گمانی میں دفن ہوگئے ہیں لیکن سید ابو الا علیٰ کا نام اور ان کے کارنامے زندہ جاوید ہیں عالم اسلام میں جب بھی کوئی اسلامی تحریک اٹھے گی اور بر پا ہوگی اس میں مولانا مودودی کی روح جلوہ گر ہوگی اور ان کی سوچ سے متاثر ہوگی مشرق وسطیٰ یا افریقہ میں عوامی ابھار ہوان سب میں مولانا مودودی کے افکار سے متاثر ہوگ موجود ہوں گے یہ اسلامی انقلاب کی لہر میں ابو الاعلیٰ کی فکر جلوہ گر ہوگی ۔قارئین محترم۔جب بھی ہم مولانا عبدالحق بلوچ کا ذکر کریں گے تو ان کے مرشد ابو الاعلیٰ کا ذکر ضروقر ہوگا مولانا عبدلاحق بلوچ تو بلوچ معاشرے کے ایک عام فرد تھے وہ جماعت اسلامی میں داخل ہونے سے قبل ایک عام بلوچ مولوی تھے جس طرح پشتون معاشرہ میں ایک عالم پشتون مولوی ہوتا ہے اور اس کی زندگی کی تمام جدوجہد ایک مسجد یا مدرسہ کو تلاش معاش کے تلاش کرنا ہوتا ہے اس کی زندگی مسجد کے حجرہ سے شروع ہوتی ہے اور مدرسہ کے حجرہ تک محدود ہوتی ہے اور اس کی ساری زندگی اس محدود دائرے سے شروع ہو کر اسی دائرے میں اختتام پذیر ہوتی ہے نہ جانے کتنے گمنام ہوں گے ! اور مولوی عبدالحق بلوچ بھی اس کی زد میں آتے ! اگر۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔بس اسی نکتہ سے تو بات شروع ہوتا ہے اور سفر کرتا ہے مولوی عبدالحق بلوچ کو گوشہ گمنانی سے آخر وہ کونسی موت ہے جس نے اسے دھڑکتے دلوں میں بسا لیا ہے اور نگاہوں کا مرکز ان کی شخصیت بن گئی ضلع کیچ کے پہاڑی علاقہ ساکران کے ایک گمنام گاﺅں وردپ میں پدیا ہوئے مولانا عبدالحق اپنی زندگی میں شہرت کی بلندی پر پہنچ گیا کسے معلوم تھا کہ مولانا محمد حیات کا بیٹا تحریک اسلامی کا ایک سپاہی بنے گااور اس کا ایک نام ہوگا اور لوگ اس سے اپنی نسبت کو اعزاز سمجھیں گے اور فخر سے بیان کریں گے مولوی عبدالحق سے مولانا عبدالحق بلوچ کا سفر سیاست بھی بڑا دلچسپ ہے انہیں بھی سکول ماسٹر صوفی کریم بخش نے متاثر کیا ماہنامہ رسالہ ترجمہ القرآن صوفی صاحب مولانا عبدالحق کو دیا کرتے تھے اور مولانا مودودی کی کتب بھی مطالعہ کے لئے دیا کرتے تھے یوں ان کی زندگی میں تبدیلی کا موڑ صوفی کریم بخش ثابت ہوئے اور ان کی گمنامی کا سفر وہاں سے ختم ہوگیا جب انہوں نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کر لی وہ1980ءمیں جماعت اسلامی کے کارکن بن گئے 1984ءمیں تربت کے امیر بن گئے 1985ءمیں قوم اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے انہوں نے صوبائی نشست بھی جیت لی تھی بعد میں اسے چھوڑ دیا اور قومی اسمبلی میں چلے گئے یہ نشستNA207تربت/بلیدہ کی تھی صوبائی نشست پر حاجی جلال خان کو جماعت نے نامزد کیا لیکن وہ ہار گئے حاجی جلال خان زبیدہ جلال کے والد تھے مولانا عبدالحق بلوچ نے 1988 ءمیں امیر صوبہ کا حلف اٹھایا اور 2003ءاکتوبر کو سبکدوش ہوگئے 15سال امیر صوبہ رہے اور16مارچ2016ءکو اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے ۔قارئین محترم۔ہم نے اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں کہ اگر مولانا عبدلحق بلوچ جماعت اسلامی میں نہ ہوتے ؟تو اس کا جواب بہت ہی مختصر لفظوں میں یوں ہوتا کہ وہ تربت کے ایک گمنام مولوی ہوتے جو اپنے مدرسہ یا حجرہ میں چند قصے اور لطیفے سنا کر رخصت ہوجاتے اور لوگ اس کے عزیز و اقارب سے تعزیت کرتے اور پھر اسے بھلا دیتے اس سے زیادہ تربت کے مولوی عبدالحق کی حیثیت نہ ہوتی اور نہ وہ کوئی بلوچ قوم پرستوں کے حلقوں میں متعارف ہوتا اور نہ وہ اس سے متاثر ہوتے نہ وہ بلوچستان کے محرومیوں اور کچلے ہوئے انسانوں کا ترجمان ہوتا نہ اسے کوئی نواب یا سردار جانتا نہ کوئی نواب اسے قریب بھٹکنے دیتا نہ وہ بلوچ سرمچاروں کی آنکھوں کا تارا ہوتا اور نہ وہ جماعت کے سروں کا تاج ہوات! مولانا عبدالحق بلوچ کا لباس کے حوالے سے حقیقی بلوچ نظر آنا اور وہ بلوچی تہذیب و تمدن کا خوبصورت اور دلکش نمونہ تھا وہ سر تا پا ایک بلوچ تھا معمولی سادہ لباس اور پھر بیش کی ہاتھ سے بنی ہوئی چپل پہنتا تھا وہ لباس میں قوم پرستوں سے بڑھ کر قوم پرست تھا اور ان کے لئے چیلنج تھا بعض قوم پرس لیڈر مغربی لباس میں بلوچیت کا دعویٰ کرتے ہیں اور عبدالحق بلوچ لباس میں اسلامی تہذیب و تمدن کا پرچارک تھا اور اسلام کا علمبردار تھا اور اسلام ہی کو تمام مسائل کا حل سمجھتا تھا۔مولانا لباس اور حلیہ کے حوالے سے یونان کے کوئی فیلسوف نظر آتے تھے۔مولانا مودودی کے علم نے مولوی عبدالحق سے مولانا عبدالحق بلوچ بننے پر انتہائی اہم کردار ادا کیا اور ان کے علم کو جلا بخشی اور تنگ دائرے کے اسیر نہیں ہوئے اس حوالہ سے جب کبھی سائیں کمال(مرحوم) کے بارے میں سوچتا ہوں تو کچھ ملال سا ہوتا ہے انہوں نے اپنی ساری زندگی قوم پرستی کے مخصوص دائرے میں گزار دی اور وہ کوئی علمی مقام نہ پاسکے یہ تو اچھا ہوا کہ عمر کے آخری حصہ میں انہوں نے حج کیا اور رجوع کرلیا اگر وہ جماعت اسلامی میں ہوتے وہ پشتون علاقے میں ان کی وہی حیثیت ہوتی جو ااج مولانا عبدالحق بلوچ (مرحوم) کی ہے ان سے کوئی 10یا12سال قبل ملاقات ہوئی تو ا ن پر ایک لالم لکھا تھا اور جملہ کچھ یوں تھاکہ ان کا مقام جماعت ہے جہاں وہ ہیں وہ نہیں۔مولانا عبدالحق بلوچ کی سوچ میں عالمگیریت مولانا مودودی کے علمی ذخیرہ کتب کی وجہ سے پیدا ہوئی ان کے نظریاتی سٹریچر نے لاکھوں انسانوں کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔مولانا عبدالحق بلوچ وطن دوست انسان تھے بلوچ تو اس کے بلوچوں سے محبت فطری تھی اور محبت میں اسلام کوئی رکاوٹ نہیں ہے مولانا عبدالحق بلوچ قوم پرستوں اور جماعت اسلامی میں ایک پل کی حیثیت رکھتے تھے وہ ایک حق پرست اور مخلص مومن تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں