راہشون سردار عطاءاللہ خان مینگل کے حالات زندگی پر مبنی مختصر جائزہ
تحریر: ایڈووکیٹ فریدہ بلوچ
راہشون سردار عطاءاللہ خان مینگل 13 جنوری 1930ءمیں بلوچستان کے علاقے وڈھ میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم لسبیلہ اسکول سے حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے سندھ مدرسہ کراچی میں داخلہ لیا۔
راہشون سردار عطاءاللہ خان مینگل 1948ءسے منگھو پیر کراچی میں رہائش پذیر ہوئے۔
راہشون سردار عطاءاللہ خان مینگل سردار رسول بخش کے بڑے فرزند تھے راہشون کے والد سردار رسول بخش مینگل کے خان آف قلات سے اختلافات کی وجہ سے انہیں علاقہ بدر کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔ جسکی وجہ سے سردار رسول بخش مینگل ریاست لسبیلہ کے مقام بیلہ میں منتقل ہوگئے تھے۔
راہشون سردار عطاءاللہ خان مینگل بیشتر اوقات اپنے والد سے گفتگو کرتے تھے، ایک دن راہشون سردار عطاءاللہ خان مینگل نے اپنے والد سے باتوں باتوں میں وڈھ نا جانے کی وجہ دریافت کی راہشون کے اس سوال کے جواب میں سردار رسول بخش نے وڈھ نہ جانے پر وجوہات بیان کیا اس پر راہشون نے نہایت ادب واحترام سے اپنے والد سے عرض کیا بابا جان ریاست نے آپ پر پابندی عائد کی ہے مجھ پر نہیں لہٰذا آپ مجھے وڈھ جانے کی اجازت دیں۔
سردار رسول بخش مینگل نے راہشون سردار عطاءاللہ خان مینگل کو وڈھ جانے کی اجازت دے دی راہشون سردار عطاءاللہ خان مینگل براستہ شاہ نورانی، سارونہ آڑنجی سے ہوتے ہوئے وڈھ میں داخل ہوئے۔
راہشون سردار عطاءاللہ خان مینگل نے وڈھّ میں تمام قبیلے کے معتبرین معززین و قبائلی زعماءکا مشترکہ جرگہ بلایا۔
جب راہشون کی ان سرگرمیوں کا قبیلے میں اثر و رسوخ کی وجہ سے خان آف قلات اور خان کرم خان مینگل خوفزدہ ہوکر راہشون کیخلاف سرگرم ہوئے اور جب راہشون سردار عطاءاللہ خان مینگل کو علم ہوا تو وہ اپنے ماموں چیف آف محمد حسنی کے پاس جبری مشکے چلے گئے اور تمام صورتحال سے سردار بلوچ خان کو آگاہ کیا تو سردار بلوچ خان اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بلوچ روایات کے تحت خان آف قلات کو راضی کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اور اسطرح وزیراعظم قلات اور خان کرم خان کے عزائم پر پانی پھر گیا۔
راہشون کا سیاست میں آنے کا فیصلہ بھی ایک دلچسپ واقع ہے۔
راہشون اس وقت سردار کی حیثیت سے علاقائی فرائض نبھارہے تھے، اس وقت وڈھ سے خضدار تک آمدو رفت کے لیے سڑک نہیں ہوتی تھی تو اس وقت راہشون نے اپنی مدد آپ کے تحت اور وڈھ عوام کے توسط سے سڑک کی تعمیر کروائی جب وزیراعظم قلات اور ان کے رفقاءسے افتتاح کرانے کا فیصلہ ہوا تو وزیراعظم سمیت قلات ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر افتتاح کرنے آرہے تھے تو راہشون نے یہ سوچا ایسا نہ ہو مہمانان اور وزیراعظم راستہ بھٹک جائیں تو راہشون ان کے قافلے سے آگے آگے جاتے رہے جب وہ وڈھ پہنچے تو کھانے کا وقت ہوا، تمام مہمان کھانا کھا رہے تھے، اسی دوران ڈپٹی کمشنر راہشون سے مخاطب ہوکر کہا کہ اسسٹنٹ کمشنر ناراضی کا اظہار کررہے تھے کہ راہشون سردار عطاءاللہ خان مینگل نے ہمیں کراس کیا ہے ان کے گاڑی کی دھول ہم پر پڑی ہے، اس واقعہ نے راہشون پر گہرا اثرت مرتب کیا اور ریاستی رویے نے راہشون کو غریب اور مفلوک الحال عوام کی آواز بننے پر مجبور کردیا۔
راہشون نے 1956ءمیں اپنے سیاسی سفر کا باقاعدہ طور پر آغاز کیا۔ راہشون کے رفقاءکے پر زور اسرار پر 1962ءکے انتخابات میں حصہ لے کر قلات ڈویژن سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
راہشون سردار عطاءاللہ خان مینگل کی جانب سے سابق صدر ایوب خان کیخلاف تحریک چلانے کی پاداش میں راہشون کو گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا گیا۔
راہشون کی رہائی کے بعد انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی کو بلوچستان میں منظم کرکے ون یونٹ کے خاتمے کے خلاف مہم چلائی۔ نیشنل عوامی پارٹی نے جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ مل کر 1971ءمیں حکومت بنائی اور راہشون یکم مئی 1972ءمیں بلوچستان کے پہلے وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ راہشون نے اپنے وزارت اعلیٰ کے منصب کے وقت بلوچستان کے نوجوانوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کیلئے تعلیمی ادارے قائم کیے۔
راہشون نے بلوچستان میں تعلیمی بورڈ بولان میڈیکل کالج اور انجینئرنگ کالج قائم کیا۔
بلوچستان اسمبلی سے سرداری نظام کے خاتمے کے لیے قرار داد پاس کی۔
اس دوارن پٹ فیڈر کینال کے پانی کو دوگنا کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا اور پٹ فیڈر میں جتنے غیر بلوچستانی لوگوں کو زمین دی گئی تھی ان کا تدارک کیا۔
بلوچستان میں نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنے کے لیے حب کو انڈسٹریل ایریا قرار دیا، اوتھل میں یاماہا موٹر سیکل کی این او سی بھی جاری کی، خضدار میں بولان بیرایٹ مل کا قیام عمل میں لایا گیا، بلوچستان کی ساحلی پٹی کی ملکیت کو بلوچستان حکومت کے حوالے کرنے کا پہلا حکم نامہ بھی راہشون نے جاری کیا۔
اسی دوران جب راہشون سردار عطاءاللہ خان مینگل، میر غوث بخش بزنجو اور نواب خیربخش مری نے نیشنل عوامی پارٹی میں مقبولیت حاصل کی تو وفاق کے حکمران بھٹو ریجیم کی طرف سے لسبیلہ میں بے امنی کی صورتحال پیدا کرکے حکومت کو عدم استحکام کا شکار بنایا۔ راہشون نے بحیثیت چیف منسٹر سیکورٹی پر مامور اداروں کو اپنے فرائض انجام دینے کے احکامات صادر کیے تو انہوں نے سرد مہری کا مظاہرہ کیا تو راہشون نے دیہی محافظ فورس کو لسبیلہ بھیجا تو وفاقی فورس نے پروپیگنڈا کیا کہ راہشون سردار عطاءاللہ خان مینگل نے قبائلی لشکر کو بیلہ بھیجا ہے اور اسی دوران عراقی سفارت خانے سے جعلی اسلحہ برآمدگی کا ڈرامہ رچایا گیا اور بلوچستان میں گورنر راج نافذ کرکے 13 فروری 1973ءکو راہشون کو وزیراعلیٰ کے منصب سے معزول کیا گیا اور ان کو حیدرآباد سازش کیس میں نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت سمیت پابند سلاسل کر کے بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کردیا گیا۔
اسی دوران راہشون سردار عطاءاللہ خان مینگل کے بڑے فرزند اسد اللہ مینگل اور ان کے دوست احمد شاہ کرد کو 1974ءمیں کراچی سے میر بلخ شیر مزاری کے گھر سے نکلتے وقت گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا جس کے بعد سے وہ تاحال لاپتا ہیں۔
اسی دوران راہشون کے بیٹے سردار منیر مینگل اور بھائی میر مہر اللہ خان، علی محمد مینگل، جنگی خان مینگل، محمد علی ساسولی، میر مراد جان بزنجو، میر حمل بزنجو، بی ایس او کے چیئرمین خیر جان بلوچ، سفر خان زرک زئی، عبد الحکیم لہڑی، سردار عارف جان محمد حسنی، میر اسلم جان گچکی سمیت ہزاروں مری، مینگل اور دیگر قبائل نے بلوچستان کے منتخب حکومت کے خاتمے کے خلاف مزاحمتی تحریک چلائی 5 جولائی 1977ءکو بھٹو گرفتار ہوا اور بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کردیا گیا۔ راہشون سمیت تمام اکابرین کو رہا کیا گیا۔ رہائی کے بعد راہشون عارضہ قلب کی وجہ سے ملک سے باہر علاج کروانے چلے گئے اور وہاں کافی عرصے تک جلاوطنی کی زندگی گزاری۔
راہشون لندن میں سکونت کے وقت بلوچستان کے معروضی حالات کا بخوبی جائزہ لیتے رہے، راہشون نے ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن تشکیل دے کر سندھی، بلوچ، پشتون فرنٹ قائم کرکے محکوم قوموں کو مشترکہ فرنٹ کے پلیٹ فارم پر یکجا کیا۔
بلوچستان کے نوجوانوں نے 1987ءمیں بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کے نام سے تنظیم تشکیل دی گئی اور راہشون نے غیر مشروط طور پر اس کی حمایت کرتے ہوئے سردار اختر جان مینگل اور سردار عارف جان محمد حسنی کو بی این وائی ایم میں شامل ہونے کی تاکید کی سردار اختر جان مینگل بی این وائی ایم کے نائب صدر منتخب ہوئے۔
بلوچستان میں 17 اگست 1988ءکو ضیاءالحق کی وفات کے بعد الیکشن کے شیڈول کا اعلان ہوا اور بی این وائی ایم اور نواب اکبر خان بگٹی کے ساتھ مل کر بلوچستان نیشنل الائنس کی تشکیل ہوئی، سردار اختر جان مینگل وڈھ نال سے ایم پی اے منتخب ہوئے اور سردار عارف جان حسنی خضدار اور آوران سے ایم این اے منتخب ہوئے۔
راہشون 11 اگست 1989ءمیں میر غوث بخش بزنجو کی رحلت پر وطن واپس آئے، بلوچستان کے عوام نے راہشون کا پرجوش استقبال کیا، راہشون نے خضدار ایئر پورٹ سے سیدھا میر غوث بخش بزنجو کے آبائی علاقے نال جا کر فاتحہ خوانی کی۔
راہشون بلوچستان میں نوجوانوں اور دیگر اکابرین کے ساتھ مختلف معاملات پر گفت و شنید کرتے رہے، راہشون مختصر عرصے کے بعد دوبار لندن چلے گئے۔ لندن میں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد دوبار وطن واپس لوٹے۔
1996ءمیں بلوچستان نیشنل پارٹی کا قیام عمل میں لایا، راہشون بلوچستان نیشنل پارٹی کے پہلے سربراہ منتخب ہوئے 1997ءکے انتخابات میں راہشون کے صاحبزادے سردار اختر جان مینگل کے وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد راہشون سردار عطاءاللہ خان مینگل نے سیاست اور جماعت میں اپنی جگہ سردار اختر جان مینگل کو قیادت منتقل کی، کافی عرصے تک راہشون عملاً فعال نہیں رہے، پس پردہ رہ کر پارٹی کی رہنمائی کرتے رہے، انہی دنوں میں راہشون علیل رہے اور طویل علالت کے بعد 92 برس کے عمر میں 2 ستمر 2021ءمیں کراچی کے مقامی اسپتال میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
یوں بلوچستان کا ایک اور ہیرو بلوچستان کے عوام کو یتیم کرگیا۔