شادی اور ہمارا معاشرہ

تحریر: فرہاد بلوچ
اسلام ایک مکمل ضابطہ ہے اور یہ انسان کو کامیاب زندگی گزارنے کے تمام گر سکھاتا ہے، نکاح یا شادی کے معاملات کو تفصیلاً بیان کرتے ہوئے اسلام اسے کامیاب زندگی کی ضمانت قرار دیتا ہے، شادی کا لفظی مطلب تو خوشی ہے مگر میرے نزدیک شادی خوشی سے بہت بڑھ کر ہے، شادی ایک خوشنودی کا باعث ہوتی ہے، جو دو عاشقان کو ایک دوسرے سے زندگی بھر پیار اور محبت کے ساتھ رہنے کا موقع دیتی ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں شادی کی روایات اور عورتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی بنا پر بہت سی عورتیں زندگی بھر تشدد، رنج و الم اور ذلت کا سامنا کرتی ہیں۔
عورتوں کو شادی کے بعد بہت سی سماجی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنے خود کے تعلقات اور خوابوں کے بجائے دوسرے لوگوں کے مطابق رہنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ یہ عورتوں کی آزادی کی خلاف ورزی کا نمونہ ہے اور اس سے وہ اپنے حقوق اور خوشیوں سے محروم رہتی ہیں۔
عورتوں کو شادی کے بعد انا کے نام پر تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنے خاندان کے نام پر زیادتی، بدعنوانی اور جسم فروشی کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ ایک ناانصافی ہے کہ ایک مرد کو معاشرتی نظام میں اجازت ہوتی ہے کہ وہ اپنی عزت اور حریت کا استعمال کرے، لیکن عورت کو یہی حق نہیں دیا جاتا۔
ہمارے معاشرے میں عورت کا جسم جتنا غیر رضا مندی اور "family” کے انا شادی میں استعمال ہوتا ہے اتنا جسم فروشی میں بھی نہیں ہوتا، اپنی بیٹیوں کو اپنی انا، نسلی خاندان یا امیر خاندان میں تعلق بنانے کے لئے انہیں عید کی بکریوں کی طرح بیج دیتے ہیں، انہیں کوئی حق نہیں دیا جاتا، اپنی زندگی خود اپنے طریقے سے گزارنے کے لئے، .ان کی خوشی اور محبت کو نسلی خاندان اور اپنے روایات سے منحصر کرتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ دولت مند خاندان اور نسلی خاندان وغیرہ پیار و محبت اور خوشی نہیں دے سکتے، اسی طرح ہمارے معاشرے میں ہزاروں لوگ دلوں میں کسی اور کا پیار رکھ کر برسوں تک ساتھ رہتے ہیں لیکن کبھی ایک دوسرے سے محبت نہیں کرتے بلکہ نہیں کرپاتے اور ان کا کوئی جذباتی تعلق نہیں ہوتا، زندگی نفرت میں بسر کرتے ہیں جیساکہ ایک مجرم چھوٹی بچی کے ساتھ زنا، اس کے قتل میں عمر بھر سزا جیل میں گزارتا ہو، یہ بہت ہی بڑا تشدد اور وحشیانہ عمل ہے، اس کی وجہ سے دونوں "partner” کے درمیان کبھی پیار جیسا سلوک نہیں ہوتا، ساری زندگی نفرت میں گزارتے ہیں۔ لڑائی، خاندان میں ناخوشی اور طلاق آپے سے باہر ہیں، اس کی وجہ سے بہت سی عورت ذہنی مریضہ اور بہت سی بیماریوں کا شکار ہیں اور بہت سے بچے لاوارث ہیں۔ "healthcare” کی وجہ سے پاگل اور بہت سی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ افسوس!! ہمارے اس معاشرے میں جسم بیجنے والی عورت کو طوائف جبکہ اس کے خریدار کو حاجی صاحب کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اسلام اور روایات کے نام سے اور اپنے بنائے ہوئے "stereotypes” کی مناسبت سے عورتوں کی زندگی کے خوابوں کو چھین لیتے ہیں، وہ مردہ رہ کر زندگی گزارتی ہیں۔ اسلام تو یکساں حق دیتا ہے قرآن میں صاف صاف واضح ہے کہ مرد جو کرسکتا ہے عورت کو مرد کیخلاف اس کا حق ہے، وہ اپنی زندگی کی decision خود لے کہ اس کے لیے کیا اچھا کیا برا ہے۔ اسلام میں تو بچوں کے خود کے انا اور خوشی کے خاطر شادی کروانا حرام ہے، اسلام میں ایسا نکاح باطل ہے۔
چیخوف لکھتا ہے کہ ”محبت کے بغیر شادی اتنا بےکار کام ہے، جس طرح آپ مومن نہ ہوتے ہوئے نماز پڑھتے ہیں“ خدارا اپنی بیٹیوں کو اپنی انا کے لیے استعمال نہ کرے، انہیں آزاد کرے تاکہ وہ خوش رہے اور معاشرہ پرسکون رہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں