بلوچ اپنے آپ کو پہچانیں
تحریر: مولانا محمد آدم آسیا بادی
بلوچ ایک بہت بڑی، بہادر اور غیرت مند قوم ہے، جس کا شمار دنیا کے قدیم، متمدن قوموں میں ہوتا ہے، جن کی اپنی ایک خوبصورت تہذیب وتمدن ہے جو اپنی تہذیب وتمدن میں عربوں سے کم نہیں۔
ایک بہت بڑی جغرافیہ ارضی کے مالک ہیں، جو بندر عباس کرمان کے مشرق سے شروع ہوکر ڈیرہ بگٹی، کوہلو، کراچی تک پھیلی ہوئی ہے۔ بلوچستان کی اس عظیم مملکت کو نہ صرف ایرانٍٍ، افغانستان اور پاکستان میں تقسیم کیا ہوا ہے بلکہ ان کے بعض علاقوں کو بلوچستان سے الگ کرکے دوسرے صوبوں کے ساتھ ضم کیا ہوا ہے، ہمارے بعض بلوچ انجانے میں اس غیر فطری لکیر کو اپنے دلوں پر بھی کھینچ چکے ہیِں کہ وہ ایران ہے اور یہ پاکستان ہے حالانکہ اس طرف رہنے والوں کی زرعی زمینیں اس طرف ہیں اور ان کی اس طرف ہیں، آپس میں رشتہ داریاں ہیں، ایک بھائی ادھر ہے تو ایک بھائی ادھر کیونکہ جب پاکستان اور ایران نہیں تھے تو یہ بلوچ رہتے تھے، یہ صدیوں سے اس خطے کے مکین تھے اور اب تک ہیں۔ ایک مسافر آکر ہمیں پوچھتا ہے کہ کہاں سے ہو، کیا کرتے ہو؟۔
ہمارے اکثر بلوچ اپنے ساتھ ان ہونے والی سازشوں سے بے خبر ہیں، ان کے حقوق غضب ہورہے ہیں، ان کے ساحل و وسائل پر قبضہ ہے، سوئی سے 60،70 سال سے گیس نکل رہی ہے، جس کو پورے ملک میں پائپ لائن کرکے پہنچایا گیا لیکن بلوچستان تاحال محروم ہے۔ بلوچ خواتین جنگلوں میں لکڑیاں چننے پر مجبور ہیں لیکن افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ کچھ بلوچ چمچہ گیری اور چاپلوس بنے ہوئے ہیں جن کو اپنی ان ماﺅں، بہنوں کی پرواہ نہیں۔
اس لیے ضرورت ہے کہ بلوچوں کو ان کے حقوق، ان کے تاریخ اور تمدن سے باخبر کیا جانا چاہیے۔ ہمارے دینی مدارس کے پڑھے ہوئے بلوچ اپنی تاریخ سے زیادہ بے خبر ہیں اور بلوچستان کا نام لینے کو بھی عصبیت سے تعبیر کرکے گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں، حقوق مانگنا تو دور کی بات ہے۔
تمام بلوچ بھائیوں سے بالعموم اور علماءسے بالخصوص اپیل کرتا ہوں کہ اپنی تاریخ، اپنی جغرافیہ اور اپنے حقوق سے باخبر رہیے، ان سے نہ قرآن آپ کو منع کرتا ہے اور نہ ہی سنت بلکہ اپنے وطن سے محبت، اپنی قوم کی خدمت یہ اسلامی تعلیمات میں سے ہے۔ مرعوبیت اور احساس کمتری سے نکلیئے۔