انسانی المیہ

انور ساجدی
کوئٹہ میں طالبات کے ساتھ جو بدسلوکی ہوئی یہ تو ہونا تھا آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا اس افسوسناک واقعہ سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ کے منصب پر تو جام صاحب فائز ہیں لیکن حکم کسی اور کا چل رہا ہے ایسے وقت میں جبکہ بلوچستان میں تبدیلی کی باتیں ہورہی ہیں اس طرح کے افسوسناک واقعات جام حکومت کی مزید بدنامی اور کمزوری کا باعث بنیں گے جہاں تک طالبات پرتشدد کا تعلق ہے تو اس سے حکم چلانے والوں نے اپنا اصل چہرہ دکھادیا ہے اور پیغام دیا ہے کہ بلوچستان میں پرامن جدوجہد کی اجازت بھی نہیں دی جائیگی اگرپولیس اور انتظامیہ تشدد اور جبر کاراستہ اختیار نہ کرتے تو طلبا کا پرامن احتجاج جلدی ختم ہوجاتا لیکن اس واقعہ سے صوبائی حکومت کی بدنامی میں اضافہ کیا گیا جبر وتشدد تو اہل بلوچستان کی قسمت میں لکھا ہے لیکن پولیس اہلکاروں نے جو نفرت انگیز اور نامناسب زبان استعمال کی وہ قابل قبول نہیں ہے جام صاحب نے ایس پی اور لیڈی کانسٹیبل کومعطل کرکے معاملہ کو سدھارنے کی کوشش کی ہے لیکن بنیادی مسائل اپنی جگہ موجود ہیں طلبہ کا کہنا ہے کہ جب بلوچستان کے بیشترعلاقوں میں انٹرنیٹ نہیں ہے تو آن لائن کلاسز کیسے ہوسکتی ہیں لیکن حکومت بضد ہے کہ یہ کلاسز ہوکر رہیں گی بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں انٹرنیٹ اس لئے نہیں ہے کہ یہ حکومت نے جان بوجھ کر بند کیا ہے تاکہ پیغام رسانی اور رابطوں کا سلسلہ فقود ہوجائے حکومت کا یہ عمل انتظامی اور سیاسی ہے اس کا بنیادی مقصد اندرون بلوچستان جو کچھ ہورہا ہے دنیا اس سے بے خبر رہے لیکن جدید دور میں واقعات وسانحات اور اطلاعات کو چھپانا ممکن نہیں ہے جہاں تک طالبات کی عزت وتکریم پر ہاتھ ڈالنا قابل مذمت عمل ہے لیکن بلوچستان کا ہرفرد ایسے واقعات کیلئے پیشگی تیار ہے کیونکہ جوجدوجہد جاری ہے اس میں تمام باشعور لوگ اپنے مطابق حصہ لے رہے ہیں ان میں مرد اور خواتین کی تخصیص باقی نہیں رہی حکومت خواتین کو بھی مجبور کررہی ہے کہ وہ تعلیم اورپرامن زندگی کے راستے ترک کردیں۔
چند روز قبل سابق صدرآصف علی زرداری نے حکومت کوتنبیہ کی تھی کہ بلوچستان کے بارے میں محتاط ہونے کی ضرورت ہے اگر نواب اکبر بگٹی کی شہادت جیسا اور واقعہ ہوگیا تو بلوچستان کے حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے۔
لگتا ہے کہ حکمرانوں نے اس مشورہ کا الٹااثر لیا ہے اور انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ طاقت کے استعمال کوبڑھایا جائے انکے خیال میں اس سے بلوچستان کے حالات کنٹرول میں آجائیں گے سانحہ ڈنک کے بعد جو دیگر واقعات ہوئے ان کامقصد خوف وہراس پھیلانا تھا لیکن اس سے تحریک کو مہمیز ملی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس طاقت ہے لیکن کوئی سیاسی تدبیر نہیں ہے اسکے مشیر ایسے ہیں جن کی زندگی کا پیسہ بٹوانے اور پیٹ پالنے کے سوا اور کوئی مقصد نہیں ہے چند روز قبل ایک مسنگ پرسن کی بہن نے خود کشی کرلی لیکن ضروری نہیں کہ باقی خواتین خودکشی کا راستہ اختیار کریں ڈنک میں بی بی ملک ناز نے بندوق برداروں کامقابلہ کرتے ہوئے جان دیدی اسی طرح دازن میں کلثوم بی بی نے اتنی مزاحمت کی کہ مسلح افراد کوانکی جان لینی پڑی کل حسیبہ اور ماہ رنگ کیا کریں گی؟وہ پر امن جدوجہد کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں اگرآپ ایک نام نہاد جمہوری دور میں بھی پرامن احتجاج کاراستہ روکیں گے تو سمی جیسی معصوم بچیاں پھر کیاکریں گی حکمرانوں میں تو اتنا ادراک نہیں کہ وہ اپنے خیراتی نااہل مشیروں کا جائزہ لیں کہ وہ کتنے پانی میں ہیں اور انکی حیثیت کیا ہے یہ لوگ آگ اور خون کا کھیل کھیل رہے ہیں یہ میرجعفر اور میرصادق کا رول ادا کررہے ہیں لیکن انکوکوئی بڑی کامیابی نہیں ملے گی بلکہ یہ غلط مشورے کے بدلے مال ومتاع لیکر اپنا الوسیدھا کریں گے اور ریاست کوایک بڑی مشکل میں ڈال دیں گے خواتین پر تشدد انکی حرمت پر ہاتھ ڈالنے کا کیا مقصد ہے کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ مردوں کے بعد خواتین بھی کوئی پیش مرگہ بنالیں اور وہ سڑکوں کی بجائے پہاڑوں کارخ کریں یادرکھیں اگرایسا ہوا تو دنیابدل جائے گی اور ناسمجھ حاکموں کو لینے کے دینے پڑیں گے۔
بلوچستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ایک بڑے پلان کاحصہ ہے اس پلان کے تحت ہر طرح کی آوازوں کودبانا ہے اورہرطرح کی تحریکوں کوکچلنا ہے چاہے وہ جمہوری اورسیاسی کیوں نہ ہوں حال ہی میں جی ڈے اے کاایک انٹرنیشنل بڈلندن کے گارڈین اخبار میں شائع ہوا ہے جس میں گوادر کے اولڈسٹی کو محفوظ کرنے کیلئے تجاویز طلب کی گئی ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ گوادر کے موجودہ شہر کو تاریخی ورثہ قراردے کر اسے صرف سیاحوں کیلئے محفوظ رکھاجائے جیسے کہ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں جوقدیم شہر ہے جسے شہرمتروکہ کانام دیاگیا ہے اسے دیکھنے کیلئے ہر سال لاکھوں سیاح آتے ہیں مستقبل میں گوادر کے موجودہ شہرکویہ حیثیت دینے کا پروگرام ہے کیونکہ جب اس علاقہ کے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچیں گے تو دوبئی اورسنگاپور جیسا ماڈل ڈیزائن کیاجائیگا جس میں بلاوجہ مقامی لوگوں کا داخلہ ممنوع ہوگا یہی حال پوری ساحلی پٹی کاہوگا جس پر حکمرانوں نے پوری طرح قبضہ کرلیا ہے اس قبضہ کے بعد انہیں اطمینان ہونا چاہئے تھا لیکن اسکے باوجود وہ ظلم وجبر کاراستہ اختیار کئے ہوئے ہیں تاکہ لوگ خاموش ہوجائیں یا از خود نقل مکانی پرمجبورہوجائیں۔
ایک بات طے ہے کہ ریاست کے وسائل اسکے پہاڑ جیسی ضروریات کے مقابلہ میں کم ہیں اس لئے راستے تلاش کئے جارہے ہیں کہ ریکوڈک کوکیسے بیچا جائے دیگرمعدنی دولت کو کیسے اپنے تصرف میں لایاجائے اور کس کس چیز کی بولی لگادی جائے حکمرانوں کو حساب کتاب معلوم ہے کہ وہ موجودہ وسائل میں کچھ نہیں کرسکتے انہوں نے سعودی عرب اور امارات کو دعوت دی تھی کہ وہ گوادر میں سرمایہ کاری کریں لیکن اسی دوران انکی اپنی معاشی حالت خراب ہوگئی اور وہ فی الحال خاموش ہیں جبکہ انہوں نے سرمایہ کاری کیلئے انڈیا کاانتخاب پہلے سے کررکھاتھا۔
سعودی عرب سرمایہ کاری کی وجہ سے مکیش امبانی دنیا کے ٹاپ ٹین دولت مند ترین سرمایہ دور بن گئے ہیں گزشتہ حکومت کے دور میں ساحلی حدود میں دوگنا اضافہ کیا گیا تھا اس سے سمندری وسائل میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے لیکن سمندری حدود میں اضافہ کو بلوچستان کے رقبہ میں شامل نہیں کیا گیا تاکہ مقامی لوگ کھلے سمندر کا رخ نہ کرسکیں اس وقت بھی اربوں روپے لیکر جاپان تائیوان اور جنوبی کوریا کو ماہی گیری کے لائسنس جاری کردیئے گئے ہیں مستقبل قریب میں یہ حقوق چین اور دیگرممالک کو بھی دیئے جائیں گے۔
حکمرانوں سے یہ غلطی ہوگئی کہ بہت بڑے معاشی بحران کے دوران انہوں نے عمران خان کا انتخاب کیا جس کے دور میں ملک کا بیڑہ غرق ہوگیا ہے خسارہ مزید بڑھ گیا ہے دنیا نے بے رخی اختیار کرلی ہے اور وعدے کے مطابق وزیراعظم بیرون دنیا سے سرمایہ حاصل نہ کرسکے اگر یہی حال رہا تو آئندہ سال حکومت کے پاس اپنے ملازمین کی تنخواہوں کے پیسے بن نہیں ہونگے اس لئے سلیکٹرز نے موجودہ حکومت کو چھ ماہ کی مہلت دی ہے اگراس دوران وہ حالات ٹھیک نہ کرسکی تو اسکی چھٹی کردی جائے گی جس کے بعد ایک تجربہ کیاجائیگا لیکن چہرے بدلنے سے سنگین معاشی اور سیاسی مسائل حل نہیں ہونگے اگرموجودہ حالات میں متبادل کے طور پرشہبازشریف کوآزمایا جائے تو وہ بھی کامیاب نہیں ہونگے البتہ انکے دور میں اتنی بدنظمی اور افراتفری نہیں ہوگی کیونکہ عمران خان کے مقابلہ میں شہبازشریف ایک سیاسی شخصیت ہیں اور ان میں مخالفین کو ساتھ لیکر چلنے کی صلاحیت ہے جبکہ عمران خان نالائق ہونے کے باوجود اس زعم میں مبتلا ہیں کہ ان سے بڑا لیڈر کوئی نہیں ہے حالانکہ اپنے وزیران کاپول کھول رہے ہیں خود انکی پارٹی انکے ڈسپلن میں نہیں ہے۔
شہبازشریف آئین یا نوازشریف بلوچستان کے حالات جوں کے توں رہیں گے بلکہ شہبازشریف معاملات میں مزید تیزی لائیں گے اور بلوچستان کے حوالے سے آنکھیں بندرکھیں گے کیونکہ حکمرانوں کا فیصلہ چاہے کہ بلوچستان ایک پلاٹ کی مانند انہیں کسی رکاوٹ کے بغیر خالی چاہئے اسکے لئے وہ ہر حد تک جانا چاہتے ہیں لہٰذا بلوچستان میں اس وقت جس انسانی المیئے نے جنم لیا ہے اس میں مزید اضافہ ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں