سیاسی ناکامی ااور اتراؤ کا عشائیہ

راحت ملک
یہ خیال قلعی غلط ہے کہ موجودہ حکومت مالی سال2020-21 کا بجٹ منظور نہیں کراپائے گی ہاں اسے اس عمل میں مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑرہا ہے چنانچہ وزیراعظیم کو اپنے مزاج اور ریوں کے برعکس کل28 جون کی شب اپنی جماعت کے اراکین پارلیمان کو عشائیہ پرمدعو کرکے ان سے ملنے ملاقات کرنے اور ان کے مسائل و تحفظات سننے پر مجبور ہونا پڑا۔
ملک میں کرونا کی وباء 20 فروری کے بعد داخل ہوئی بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ بلاہتمام داخل کرائی گئی تھی تو عشائیہ کے موقع پر جناب عمر ان خان کا پارلیمانی پارٹی اور اتحادی اراکین اسمبلی کو ملاقات کیلئے وقت نہ دینے کے متعلق یہ جواز درست نہیں ایسا وہ کرونا وباء کی وجہ سے بہ ام مجبوری کررہے تھے اس عشائیہ کو پارٹی اراکین تک محدود رکھنے کی بجائے اتحاد ی جماعتوں کو عشائیہ کا نام دیا گیا حالانکہ ایک اہم اتحادی جماعت بی این پی انہی ایام میں حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کرچکی ہے بی این پی اب سرکاری بینچوں کا حصہ رہے گی یا حزب اختلاف کی نشستوں پر جائے گی؟ یہ سوال ابھی طے ہونا باقی ہے البتہ بلوچستان کی سیاسی فضا ملحوظ رکھیں تو شاید بی این پی کیلئے پی ٹی آئی سے سیاسی اتحاد کی تجدید کے امکانات بہت کم ہیں۔عشائیہ کی تاریخ اور وقت کا تعین بھی بہت اہم
ہے یہ سمجھنا بعید از قیاس ہوگا کہ حکومت کواسی شب اسلاآباد میں قاف لیگ کی جانب سے اپنے ہم خیال اراکین اسمبلی کو عشائیہ پر مدعو کئے جانے کی اطلاع نہیں ہوگی۔ تو عین اسی دن پی ٹی آئی اور ”اتحادیوں“ کو عشائیہ پر مدعو کرنے کا مطلب اس تقسیم کو نمایاں کرکے پیش کرنا ہوسکتا ہے جس کا اس وقت حکومتی اتحاد کو سامنا ہے تاکہ بجٹ میں خلل ڈالنے والوں کو راہ راست پر لانے کے لیے اہتمام کرنے کا اشارہ دیاجایے عشائیہ کا بنیادی مقصد ان سرپرست قوتوں کو آگاہ کرنا بھی ہوسکتاہے بجٹ میں جن کیلئے خطیر رقم مختص ہے اور بجٹ کی منظوری میں ان کی نمایاں دلچسپی ڈھکی چھپی نہیں۔ اگر میرا قیاس غلط نہیں تو عشائیہ کا اہتمام اتحادی جماعت کی مشاورت سے ہوسکتا تھا۔وقت و تاریخ میں تصادم سے بچتے ہوئے حکومتی اتحاد میں دراڑ اور تقسیم کے تاثر کو ختم کرنا ممکن تھا۔جبکہ وزیراعظم کی تقریر کا لب و لہجہ بھی خاصا مبہم تھا بظاہرانہوں نے پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے فرمایا کہ ”یہ عوام کے مفاد میں نہیں اپنی کرپشن کے دفاع کیلئے اکٹھے ہوئے ہیں“ مگر یہ اشارہ بلیغ 28 جون کو اسلام آباد میں جمع ہونے والے ان افراد کی جانب تھا جو ق لیگ کے عشائیہ میں شریک تھے وزیراعظم کی گفتگو میں اضطراب نمایاں تھا وہ صاف کہہ رہے تھے کہ اگر مافیا کا پیچھا چھوڑ دوں تو سب اچھا ہوجائے یہ جملہ دو مخالف سمتوں کی جانب معنوی اشارہ تھا اگروہ حزب اختلاف اور سابقہ حکمران جماعتوں کو مافیا کالقب دے رہے تھے تو پھر بات صاف ہوگئی کہ اسی مافیانے ان سے کرونا کیخلاف جو لاک ڈاؤن کرایا وہ درست سمجھاجائے گا اور اگر مافیا کے ان طاقتور گروہوں کو نخاطب کررہے تھے جنہیں چینی مافیا آٹا مافیا اوراب پیٹرول مافیا کہاجارہاہے توبجاطورپروہ اپنے آس پاس موجود اتحادیوں معاونین اور ساتھیوں کی نشاندہی کررہے تھے ان کا یہ کہنا درست تھا کہ اگر مافیا کاپیچھا (مطلب ساتھ) چھوڑدوں تو سب اچھا ہوجائیگا۔ وسیع عوامی حلقوں میں حکومت بارے یہی تاثر عام ہے کہ وہ مختلف مافیاز کی گرفت میں پھنسی ہوئی ایسے فیصلے کررہی ہے جو اس کی سیاسی ساکھ اور ” انقلابی "دعوؤں کیلئے زہرقاتل ثابت ہورہے ہیں!!!
کیاقاف لیگ کے معززین اس شوگرکارئل کے ارکان نہیں جنہوں ن نے اسی حکومت سے چینی برآمد کرنے کی اجازت لی پھرچینی کی قلت پیدا کی اوریوں زرتلافی کے ساتھ ساتھ چینی کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ کرکے اربوں روپے کا اضافی ناجائز منافع کمایا۔کیا جہانگیرترین اور خسرو بختیار اس چینی مافیاکے معززارکان نہیں؟
چینی بحران کے متعلق میرا نکتہ نظر شروع دن سے یہی رہاہے کہ یہ بحران جو دراصل انکوائری کمیشن کی تشکیل سے شروع ہوا اور پھر اچانک اس کی رپورٹ لیک کئے جانے سے نقطہ عروج پر پہنچا جناب عمران خان کی سیاسی ضرورت اور چال ہے جس کا مقصد حکومتی کارکردگی میں مسلسل ناکامیوں معیشت کی تباہی کرونا سے موثر طورپر نمٹنے میں ناکامیکی پردہ پوشی اور اس کے بے تحاشہ پھیلا? سے پیدا ہوئے وہ حالات جن کو سدھارنے کی استعداد صلاحیت اور ذہنی وعملی قابلیت جسے طرف عام میں سیاسی ہوم ورک بھی کہاجاتا ہے. سے حکومت کی تہی دامنی کا احساس یے جسے صلاحیت کی عدم موجودگی کا شدید ادراک واحساس دوچند کرتا ہے اس کے بطن سے جنم لینے والی یہ خود آگہی کہ پی ٹی آئی حکومت مسلسل ناکامیوں کے نتیجے میں اپنی مصنوعی سیاسی ساکھ بھی کھوچکی ہے اب درخشندہ سیاسی ناضی کی واپسی سیاسی شہادت کے بغیر ممکن نہیں۔ اس سوچ نے چینی سکینڈل کو نجات کے وسیلہ کے طور دیکھا گیا بعد کے واقعات آپ کے حافظے میں موجود ہونگے اہم نکتہ یہ تھا کہ عشائیہ کی تقریر میں اس پیسی میں متعین کیے اھداف کی جانب پیش قدمی یاپشتہ بندی واضح نظر آئی ہے جب خان صاحب نے زور دے کر کہاکہ پارٹی تب ناکام ہوتی ہے جب وہ اپنے اصولوں سے اانحراف کرے۔ انہوں نے غلط طورپرسہی لیکن اس کی مثال کیلئے پیپلز پارٹی کانام لیا اور پھر اپنے عزم کا اعادہ کیا کہ تحریک انصاف کسی صورت اپنے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹے گی میں حیران ہوں کہ نجانے وہ کونسے سیاسی اصول تھے جن پر پی ٹی آئی حکومت دوسالہ دوراقتدار میں عمل پیرا رہی ہے؟ تاہم اس سوال سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی اس بات کا اعادہ کرتاہوں کہ جناب عمران خان اپنے سیاسی ہدف کے حصول کی جانب کامیابی سے بڑھ رہے ہیں وہ چینی مافیا کے خلاف انکوائری بیانات اورامکانی اقدامات کے ذریعے اپنے ہی مافیاز سیاسی اتحادیوں کو خفا کررہے ہیں تاکہ وہ ایک ایک کرکے انکا ساتھ چھوڑ دیں تو حکومت ایوان میں عددی اکثریت سے محروم ہوجائے۔ اس طرح وہ اپنے کا رکنوں اور سادہ لوح عوام کو یقین دلانے میں کامیاب رہیں کہ تحریک انصاف نے احتساب کے متعلق اپنے اصولوں کی خاطر اتحادیوں کو جانتے بوجھتے ناراض کرکے حکومت قربان کردی ہے جو اقتدار پر اصولوں کی فوقیت کی عملی شکل ہے اسی چورن کے سہارے عمران خان صاحب اگلے چند سال سیاست میں موجود رہسکیں گے یوں پی ٹی آئی کے غبارے سے مینار پاکستان کے پاشائی جلسہ کے ذریعے جوہوابھری گئی تھی وہ نکل جائے گی سیاست اور جمہوریت پارلیمان بے توقیر ہونگی عوام کے ایک وسیع تعلیم یافتہ بالائی متوسط طبقہ میں سیاسی بیانگی جنم لے گی اور غبارے میں ہوا بھرنے کے مقاصد پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں گے۔
بجٹ کی منظوری اقتدار محل کے لئے بہت سہل ہے۔ناراض ارکان اور اتحادی بجٹ کی منظوری میں ساتھ دینگے جیسا کہ ایک ہی ملاقات کے بعد "باپ ” نے یقین دلادیا ہے اسی طرح قاف لیگ اور جہانگیری حلقہ بھی بجٹ میں تعاون کرینگے اس مرحلے پر البتہ اپوزیشن کو سخت مزاحمت کے تاثر کو بر قرار رکھنا ہوگا تاکہ ناراض ارکان اور اتحادی دباو جے لئے سنہری موقع تصور کرسکیں۔ سینیٹ میں اپوزیشن بجٹ کی منظوری کے دن احتجاجاً بائیکاٹ کر کے بجٹ کی منظوری میں تعاون کرسکتی ہے کہ اس بجٹ کی منظوری کے نتیجے میں عوام کے وسیع حلقوں میں بے چینی واضطراب کی ایسی لہر اٹھ سکتی ہے جو حکومت کو بہالے جاسکتی ہے حالانکہ بجٹ اجلاس کے بعد چینی مافیا کے خلاف کارروائی بذات خود حکومت کے خاتمے کا سرکاری بندوبست بنے گا قاف لیگ کا عشائیہ اس کی سیاسی نوک پلک سنوارنے کا آغاز ہے۔
جناب عمران خان اس خبطِ عظمت میں یہ بھی فرما گئے ہیں کہ ان کا متبادل کوئی نہیں۔۔۔ تو یہ بات بذات خود اس امر کا اعتراف ہے کہ ملک میں حکومت سازی بقول عمران خان آئین پارلیمان انتخابات اور سیاسی جماعتوں سے ماورا آہوئی ہے اور شاید اب اس حلقے کو جو سیاسی انجینئرنگ کرتا ہے اپنیحالیہ سیاسی تجربے کے بعد عمران خان کامتبادل میسر نہیں آرہا جس سے خان صاحب آگاہ ہیں جبھی تو وہ شخصی انائیت کے سحر میں مبتلا ہوکر خود کو ناگزیرقرار دے رہے ہیں۔مگروہ بھول گئے ہیں کہ شخصیت پرستی کا یہ انداز بذات خود غیر سیاسی اور نظریات مخالف رجحان ہے کیونکہ دنیا میں کوئی بھی شخص ناگزیر نہیں رہا پائیداری سیاسی یا علمی تصورات کا نصیب ہے اور بد قسمتی سے عمران خان صاحب اس ضمن میں بھی تہی دست ہیں۔