آواران ضلع کی سڑکوں کی حالت۔۔
تحریر:بیوروچیف آواران لطیف بلوچ
ویسے تو پورے بلوچستان میں اچھی سڑکیں نہ ہونے کے برابر ہیں، اکا دکا سڑکوں کے علاوہ کوئی ایسی سڑک نہیں جو معیاری اور قابل سفر ہو، مگر ضلع آواران میں سڑکوں کا نام ونشان تک نہیں۔ پرویز مشرف کے ابتدائی دور میں آواران تا بیلہ اور آوران تا منگلی مشکے سڑک کو بلیک ٹاپ کرکے ان سڑکوں کو قابل سفر بنایا گیا۔ اس سے پہلے آواران تا بیلہ سفر میں دس سے بارہ گھنٹے لگتے تھے سڑک بننے کے بعد یہ سفر تین گھنٹے میں طے ہو جاتا تھا۔ مگر اب یہ سڑک مکمل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ناقابل سفر بن چکی ہے اور اب آواران تا بیلہ سفر میں چھ سے سات گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ جبکہ مشکے کو خضدار اور کوئٹہ سے ملانے والی واحد سڑک کی حالت قابل رحم ہے اس سڑک پر سفر کرتے ہوئے رباط کے ایراء میں اور مشکے آواران سفر کے دوران قدم قدم پر موت کو انتہائی قریب سے دیکھا جاسکتا ہے۔جبکہ آواران ہوشاب سڑک کی حالت اس قدر خراب ہے کہ ٹرانسپورٹر اس روٹ پر اپنی گاڑیاں لانے سے گرریز کر رہے ہیں اس سڑک کی گزشتہ کئی سالوں سے گریڈنگ نہیں ہوئی ہے جس کے باعث سڑک کی حالت انتہائی خراب ہو چکی ہے۔حالانکہ آواران ضلع کے سڑکوں کے نام پر کرڑوں روپے منظور ہوئے ہیں مگر وہ محض کاغذوں میں آواران کے زمین پر پکی اور اچھی سڑک نظر نہیں آجاتا۔آواران سے منتخب عوامی نمائندے ضلع کے لوگوں کے مسائل اور مشکلات سے یکسر بے خبر ہو کر "سب ٹھیک ہے” کا گْن گا کر پرنٹ اور سوشل میڈیا میں اپنے چند لوگوں کے ذریعے اپنی جھوٹی تعریفوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں،مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ضلع آواران کے لوگ آج بھی اس ترقی یافتہ دور میں زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، جبکہ آواران میں ٹوٹی پھوٹی اور خستہ حال سڑکوں کی وجہ سے لوگوں کو سخت تکلیف اور پریشانی کا سامنا ہے۔ کئی سالوں سے کچی سڑکوں کی گریڈنگ نہ ہونے کے باعث اب ان سڑکوں پر سفر کرنا عذاب بن گیا ہے آواران سے منتخب نمائندوں نے کبھی بھی آواران کی تعمیر وترقی میں کوئی عملی اقدام اْٹھانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ ہر وقت اپنے خاندان اور ایک مخصوص ٹولے کو نواز کر ضلع آواران کو ہمیشہ پسماندہ رکھا ہے اور لوگوں کے مسائل اورمشکلات کی طرف توجہ نہیں د ی۔جس کی وجہ سے لوگوں کے مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ضلع آواران کے لوگ زندگی کی ہر بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ اس بد نصیب ضلع میں تعمیر وترقی صرف کاغذوں کی حد تک ضرور موجود ہوگی لیکن عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی اور ترقی کبھی نہیں آئی، ہاں منتخب نمائندوں کی ذاتی بینک بیلنس میں ترقی کا گراف ہمیشہ اوپر ہی جاتا رہا۔۔ اس بدنصیب ضلع کے کس کس مسئلہ کو احاطہ تحریر میں لایا جائے؟ ضلع آواران کی اکثر سڑکیں خاص طور پر مشکے آواران تا بیلہ اور مشکے خضدار سڑکوں کی حالت انتہائی ابتر ہوچکی ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے ان سڑکوں کی گریڈنگ نہیں ہوئی اور نہ ہی ان سڑکوں کی حالت کودرست کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ان سڑکوں کی حالت اب اس قدر خراب ہے کہ مشکے سے آواران تک کا فاصلہ صرف 90 کلو میٹر ہے مگر اس سفر میں چھ گھنٹے لگتے ہیں وہ بھی انتہائی مشکل اور تکلیف دہ ہوتا ہے جبکہ آواران بیلہ سڑک کی حالت بھی ان سڑکوں سے مختلف نہیں۔ مشرف دور میں بننے والے پکی سڑکیں اب مکمل طور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر سفر کے قابل نہیں آواران تا بیلہ سفر میں اب چھ سے سات گھنٹے لگتے ہیں وہ بھی انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے جبکہ مشکے تا آواران بڑ ی گا ڑیوں میں سفر کرنے سے آواران تک پہنچتے کئی جگہوں پر موت کو قریب سے دیکھااور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ٹرانسپورٹ مالکان کا موقف ہے کہ سڑکوں کی خراب حالت کی وجہ سے ان کی قیمتی گاڑیوں کا نقصان ہورہا ہے جس کے باعث انہوں نے مجبورامشکے کراچی کرایہ 1500مشکے خضدار کا کرایہ 800جبکہ مشکے آواران کا کرایہ 600روپے کردیا ہے۔لوگ زیادہ کرایہ دینے کے علاوہ ان سڑکوں پر سفرکرکے اپنے زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر مجبوری کی حالت میں ان سڑکوں پر سفر کرتے ہیں۔ مشکے تا کراچی 1500 مشکے تا خضدار کرایہ 800 مشکے تا آواران 600 روپے ہے جو کہ انتہائی زیادہ ہے۔ضلع آواران کے عوام نے وزیر اعلیٰ بلوچستان اور دیگر حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ ضلع آواران کے سڑکوں کی بہتری کے لئے اقدام اْٹھاکر جلد سے جلد سڑکوں کی گریڈنگ کی جائے اور ضلعی آفیسران کی غفلت،لاپرواہی کا نوٹس لیا جائے۔