سچ بولنا منع ہے

تحریر نصیر عبداللہ
پاکستانی یوٹیوبر 500 ڈالر سے پانچ ہزار ڈالر ہر مہینہ کماتے ہیں۔ اور کچھ ٹاپ یوٹیوبرز ہر مہینہ 10000 دس ہزار ڈالر یوٹیوب سے کمالیتے ہیں۔2021 اور 2022 میں پاکستان نے فری لانسنگ سے 400 ملین ڈالز ریوینیو باہر سے ملک میں لایا ہے جو کہ ملکی معیشت میں ایک بہت بڑا اضافہ ہے۔ یہ ایک یوٹیوب کی بات ہورہی ہے اسی طرح فیس بک، انسٹاگرام اور دیگر آن لائن سائٹس سے پاکستانی فری لانسرز لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے کمارہے ہیں۔ چونکہ یوٹیوب اور فیس بک نے آزادی اظہار رائے کو ممکن بنایا ہے تو اسے بین کردیا جائے اس کے فوائد سے قطع نظر، ایسا ہے میرا دیس۔ ریاست کہ وہ عناصر جو سوشل میڈیا پر بین لگوانے کے خواں ہیں وہ شاہد لفظِ فری لانسنگ سے ہی ناآشنا ہوں لیکن ان کو بتاتاچلوں کہ فری لانسنگ سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابسطہ ہے۔ آپ ٹیکنیکل تعلیم کا کیا کریں گے؟ سوشل میڈیا پر بین لگا کر کروڑوں لوگوں بے روزگار نوجوانوں کو نوکریاں دیں گے؟ جو بے روز گریجویٹس اور پی ایچ ڈیز ویلے بیٹھے ہیں وہ تو سنبھلتی نہیں چلے ہیں سوشل میڈیا بین کرنے۔ بھئی خدا کا خوف کرو یہ 21 وی صدی ہے دنیا چاند کو پہنچ گیا ہے اور ہم ابھی تک یہ سوچ رہے ہیں کہ لوگوں کو سچ بات کرنے پر کیسے روکا جائے۔ اور پھر اداروں کی بدنامی کا نام دیکر اس کو جسٹیفائی کررہے ہیں۔ اگر واقعی اداروں پر جھوٹی الزام تراشی ہورہی ہے تو اسے ریگولیٹ کریں۔ سوشل میڈیا میں ایکسپرٹ کو بھٹائیں ان سے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرائیں۔ باہر سے ماہرین کو بلائیں اپنی ممکنا کوشش کریں۔ اس ملک کے جو حالات تھے اور جیسی سوچ روا رکھا جارہا ہے یہاں سے تو کسی ماہرین کی توقع نہ رکھیں۔

ملک کو آئی ایم ایف کے سامنے بھکارن بناکر چھوڑا ہے اب بھی انہیں ہوش نہیں آیا۔ اب کیا بچا ہے اس ملک کے لیے جو تم اب بھی ایسی اوٹ پٹاک اکسپریمنٹ کرنا چاہتے ہو۔ کیا یہ ملک مزید ایسی غیردانشمندانہ اکسپریمنٹ کا متحمل ہوسکتا ہے؟ بالکل نہیں، خدارا خود پر رحم کریں اگر آپ واقعی ملک کے محافظ ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملک آزاد رہے تو لوگوں سے آزادیاں نہ چھین لیں انہیں آزادنہ سوچنے اور کام کرنے سے نہ روکیں۔ ہر 14 اگست کو جشن مناکر آزادی کا اظہار کرتے ہیں کیا یہی آزادی ہے۔ یہ کیسی آزادی ہے جہاں نہ آزادنہ سوچنے کی اجازت ہے اور نہ آزادنہ طور پر کام کرنے کی اجازت ہے۔ پھر یہ ڈھونگ کیوں؟ کیا آزادی کے لیے صرف ایک روز یعنی 14 اگست ہی مخصوص کیا گیا ہے۔ اسد علی طور پر ایف آئی اے نے ججز کے خلاف بیانات دینے کے جرم میں غیرقانونی طور پر گرفتار کرلیا اور آج اس سے پوچھا جارہا ہے کہ اپنے سورسز بتاو۔ اور ہمارے معزز جج بھی یہ کہہ کر اسے مزید تین دن کی جسمانی ریمانڈ کے لیے ایف آئی اے کے حوالے کردیتا ہے۔ آپ کا آئین و قانون کہتا ہے کہ کسی صحافی کو اس کے سورسز جاننے کے لیے مجبور نہ کیا جائے۔ یہ ہے آپ کا قانون؟ حامد میر نے انہی حالات پر ایک جیو کے پروگرام میں کہا کہ ”آج کے بعد میں آئین و قانون کی بالادستی کی بات نہیں کروں گا” ہم صحافی آئین و قانون کی بالادستی بات کرتے ہیں اور کچھ عناصر آئین سے جب جیسا چاہیں کھلواڑ کرسکتے ہیں البتہ وہی آج بالادست طبقے کہلاتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی نے پارلیمنٹ میں تاریخ کردی جس کے بعد کوئٹہ میں ان کے گھر پر نامعلوم افراد نے چھاپہ مارکر ان کے گارڈ کو ساتھ لے گئے اور ان کے ساتھیوں پر تابڑ توڑ حملے کئے جارہے ہیں۔ اس ملک میں سچ کی گنجائش نہیں چاہئے بولنے والا کوئی صحافی، سیاستدان یا کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں