نسخہ کیمیا ….انور ساجدی کے نام

تحریر:ڈاکٹر طاہر حکیم بلوچ
واجہیں انور ساجدی، آپ نے اپنے کالم بعنوان ”آفٹر شاکس + پیرا شوٹرز“ بمورخہ 13 فروری 2024ءمیں جن اہم اور بنیادی حقائق کے متعلق اظہار خیال کیا ہے ان کا براہ راست تعلق بلوچ قومی سوال سے ہے۔ بلوچ قومی سوال کے حل کو دو مختلف اور متضاد زاویوں (پارلیمانی اور غیر پارلیمانی) سے دیکھا اور پر کھاجاتا ہے۔ اس ضمن میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ ”بلوچستان میں پارلیمانی سیاست ناکام ہوگئی ہے“۔ یہ وہ سچائی اور تلخ حقیقت ہے جسے اب تک بلوچوں کا ایک مکتبہ فکر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ لیکن آپ جیسے کہنہ مشق و جہاندیدہ صحافی اور دانشور کی جانب سے اس حقیقت کا اظہار خود اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ یہ جذباتی باتیں، رد عمل اور انتہا پسند خیالات نہیں ہیں بلکہ اپنے تجربات سے سیکھی گئی وہ حقائق ہیں جو نوجوانوں سے لے کر دانشوروں تک سب اسے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سامنے لا رہے ہیں ۔ ویسے ہی یہ سوال کافی عرصے سے زیر بحث ہے۔ نواب مری نے تو 1970ءکے انتخابی تجربے کے بعد اسے ایک ناکام تجربہ قرار دے کر خود کو اس عمل سے مکمل طور پر الگ کر دیا تھا بلکہ تا دمِ مرگ اس بورژوا سیاست کے خلاف بغاوت اور جد و جہد کا عَلم بلند کر رکھا تھا۔

تقریبا سن دو ہزار کے اوائل میں ہمارے چند دوستوں نے یہ سوال ایک دفعہ پھرزیر بحث لایا تھا کہ پارلیمانی جد و جہد اور انتخابی سیاست کے ذریعے بلوچ قومی مسئلے کا حل کسی بھی طور پر ممکن نہیں بلکہ 1988ءکے انتخابی تجربے سے بلوچ قومی سوال کو شدید دھچکا لگا ہے۔ لہٰذا اب اس کا ازالہ اس طرز سیاست سے کنارہ کشی میں ہی ممکن ہے۔ اس نظریاتی موضوع پر ایک طویل اور سیر حاصل مباحثے کا آغاز ہوا، سب سے پہلے بی ایس او تمپ زون نے اس موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس میں بلوچ قومی تحریک کے چند سر کردہ رہنماﺅں سمیت راقم الحروف نے بھی بحیثیت بی ایس او کے مرکزی عہدیدار شرکت کر کے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ہم نے اس وقت پارلیمانی جمہوری سیاست کے حق و حمایت میں دنیا جہاں کے تھیوریز اور دانشوروں کے حوالے بطور دلائل پیش کردیئے لیکن بعد میں ہمارے ان دوستوں کی جن سے ہم نے اختلاف رکھا تھا کی قرباینوں اور بے لوث جد و جہد نے ہمارے تمام دلائل اور خیالات کو باطل ثابت کر دیا ۔ گزشتہ بیس سالوں کی قومی جد و جہد نے بلوچ قومی تحریک کو ایک جدید شکل دے کر اسے نہ صرف بلوچ عوام میں کافی پزیرائی بخشی ہے بلکہ پارلیمانی سیاست کی تباہ کاریوں اور پاکستانی مالیاتی جمہوریت کو بھی خوب بے نقاب کر دیا ہے۔ اب بلوچ عوام اور خاص کر نوجوان نسل اس طرز سیاست سے مکمل لاتعلقی اختیار کر چکی ہیں۔

دوسری طرف سیکورٹی اسٹیٹ کے کرتا دھرتاﺅ ں نے بھی اپنے روئیے اور طرز عمل سے گزشتہ پانچ انتخابات 2002، 2008 ، 2013 ، 2018 اور 2024ءکے دوران جس طرح پارلیمانی جمہوریت کا جنازہ نکالا ہے۔ سیاست کی بیخ کنی کی ہے اور جس طریقے سے عوامی رائے کی بے حرمتی اور بے توقیری کی گئی ہے شاید اس کی نظیر دنیا کی کسی بد ترین آمریت اور آمرانہ نظام میں ہی مل سکے۔ جب کسی ملک میں ووٹ، سیٹ، وزارتیں اور ا راکین پارلیمنٹ کی منڈی لگے تو اس ملک میں جمہوریت اور انتخابات کوئی معنی نہیں رکھتے، ووٹ کریم داد کو دی جاتی ہے جبکہ کامیابی کی نوٹیفیکیشن رحیم داد کی جاری کی جاتی ہے۔ اب پاکستان میں جمہوری و انتخابی سیاست ایک مکمل بزنس اور منافع بخش کاروبار بن چکی ہے۔ الیکشن سے قبل ٹکٹوں کی تقسیم سے لے کر انتخابات اور ما بعد انتخابات ایک منڈی لگتی ہے جس کے پاس سب سے زیادہ کا لادھن، ناجائز، دولت اور بد عنوانی کے پیسے ہوںگے وہی ووٹ اور سیٹ کا حقدار اور خریدار نکلے گا ۔ پارلیمانی نشستوں اور وزارتوں کی باقاعدہ بولی لگتی ہے جس میں سارے ریاستی ادارے ملوث ہوتے ہیں۔ اس لے اب سیاسی کارکن اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے لوگ اس بارے میں سوچ ہی نہیں سکتے۔ جو لوگ ووٹ اور سیٹ کروڑوں میں خرید کر پارلیمان میں جاتے ہیں تو وہ یقینا عوام اور ووٹر کا نہیں بلکہ اپنے پچھلے اور اگلے انتخابات کا حساب کتاب برابرکرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ اس لیے پاکستان با لخصوص بلوچستان میں ووٹ، الیکشن، اسمبلی مکمل طور پر ما فیاز، ڈرگ ڈیلر، ڈیتھ اسکواڈ، عوام دشمن اور سماج دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں دیئے گئے ہیں۔ ان کے ذریعے سیاست کی جوبے توقیری اور بے قدری کی جارہی ہے اس کی مثال صومالیہ جیسے ممالک میں بھی نہیں ملتی۔ یہ سارا کھیل ایک مکمل اور جامع منصوبہ بندی کے تحت کیا جارہا ہے ۔ اس منصوبے کے تحت اس دفعہ بلوچستان میں ایک اور نیا تجربہ کیا گیا ہے ۔ جس کے تحت بلوچ پارلیمانی قوم پرستوں کو دھتکار کر ان کی جگہ نام نہاد وفاقی پارٹیوں کو لایا گیا ہے بلکہ بلوچ پارلیمانی قوم پرستوں کو یہ واضع پیغام دیا گیا ہے کہ ان کے لئے پارلیمانی جمہوریت میں بھی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اس لیئے ان کی تمام نشستوں کو ان الیکٹیلبز میں تقسیم کر دیا گیا ہے جو گزشتہ چاردہائیوں سے کبھی مسلم لیگ، کبھی پیپلز پارٹی اور کبھی باپ جیسی پارٹیوں میں اقتدار کے مزے لوٹ چکے ہیں۔ اب انہیں ایک نئے پروجیکٹ کے تحت بلوچ دشمن وفاقی پارٹیوں میں شامل کروانے کے بعدبزور طاقت اور ناجائز دولت کے بل بوتے پر فارم 47 کے تحت کامیاب کروا یا گیا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ عوام کے ووٹوں کی نہیں بلکہ فارم 47 کے پیدا وار ہیں۔ اب یہ گھوڑے آئندہ انتخابات تک مقتدر حلقوں کے اصطبل میں ہی قیام کریں گے جبکہ اس دوران انہیں سر ہلانے کی بھی اجازت نہیں ہوگی اگر کسی نے غلطی سے سر ہلانے کی کوشش کی تو اسے آئینہ یعنی فارم 47 دکھائی جائے گی، جبکہ اگلے الیکشن میں ان کے گردن میں کسی اور پارٹی کی رسی ڈال کر انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح کسی اور منڈی میں لیجا کر فروخت کر دیا جائے گا ۔ شاید اس سے یہی پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ بلوچستان میں پارلیمانی قوم پرستوں کو کوئی عوامی حمایت حاصل نہیں ہے ۔ یا بلوچستان میں بلوچ قومی تشخص کے دفاع کی کوئی تحریک نہیں چل رہی ہے۔ لیکن ریاست نے اپنے اس طرز عمل سے نہ صرف پارلیمانی جمہوریت اور نام نہاد انتخابات کی قلعی کھول دی ہے بلکہ اس طرز عمل سے اپنی زیرنگرانی ہونے والے انتخابات کومشکوک بنا کر انہیں جعلی بھی ثابت کر دیا ہے۔ دوسری طرف بلوچ نوجوانوں کے کام کو مزید آسان کر کے پارلیمانی سیاست کے متعلق بلوچ قومی موقف کو درست ثابت کر دیا ہے۔ اس لیے اب پاکستان میں جمہوریت، ووٹ یا بلوچ قومی سوال کو جمہوری انداز سے حل کرنے کے لیے مزید دلائل اور بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی ہے ۔ اور نہ ہی کوئی باشعور شخص ایسی فضول گفتگو سننے کے لیے تیار ہوگی ۔ آپ نے اپنے اسی کالم میں اپنے پرانے دوست ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو انسانی حقوق کی بنیادوں پر ایک پر امن عوامی تحریک شروع کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔

”ڈاکٹر عبدالمالک اپنی جماعت کو پر امن مزاحمتی تحریک میں تبدیلی کردیں اورپارلیمانی سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کریں، ڈاکٹر صاحب اپنی جماعت کو ایسی تحریک میں تبدیل کردیں جس کے بغیربلوچستان میں کوئی بھی قدم اٹھانا ممکن نہ ہو،وہ بلوچستان کے ساحل و وسائل کے دفاع، بنیاد حقوق کی پاسداری، بلوچ نسل کشی کے خلاف مزاحمت کو اپنا بنیادی مقصد قرار دیں تو یہ ایک یونیک تحریک ہوگی اورجماعت کے قائدین کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور ان کا کردار بھی تاریخی نوعیت کا ہو جائے گا”

آپ کایہ نسخہ کیمیا ڈاکٹر مالک اور نیشنل پارٹی سمیت اختر مینگل اور ان کی جماعت کے لیے بھی ایک اکسیر ہے۔ لیکن جیسا کہ آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ”میں جانتا ہوں ڈاکٹر صاحب اور نیشنل پارٹی کو یہ تجاویز پسند نہیں آئیں گے، وہ اب بھی یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کوئی وقت آئے گا، جب انہیں الیکشن میں کامیابی ہوگی وہ اپنی حکومت تشکیل دے سکیں گے“۔

ساجدی صاحب! آپ کے تجاویز غور طلب اور بحث طلب ہیں آپ نے تو ان سے بڑی توقعات اور امیدیں وابستہ کی ہیں۔ فی الحال میں آپ کی تجاویز پر اپنی مکمل رائے دینے سے قاصر ہوں، البتہ اس ضمن میں ایک جزوی بات کہنے کی جسارت کروں گا کہ مجھے تو دور دور تک اس کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ پارلیمانی سیاست سے کنارہ کشی اور عوامی مزاحمتی تحریک تو بہت دور کی بات ہے۔ یہ پارلیمانی قوم پرست جماعتیں (نیشنل پارٹی، بی این پی) تو اپنی ہاری ہوئی نشستوں کے لیے ڈھنگ کا ایک دھرنا اور احتجاج نہیں کر سکتیں، ایک پتلی سی گلی صحیح طریقے سے بند نہیں کر سکتیں۔ آراوز اور ڈی آراوز کے دفا تر کے سامنے ایک رات نہیں گزار سکتیں تو یہ کیسے لاپتہ افراد کی بازیابی، انسانی حقوق کی پامالی یا بلوچ نسل کشی کے خلاف ایک پرامن عوامی مزاحمتی تحریک لانچ کر سکتی ہیں؟ جہاں تک بلوچ کا تعلق ہے انہوں نے تو اپنا فیصلہ کر لیا ہے۔ بقول آپ کے بلوچستان کے عوام ایک اور طرف چل پڑے ہیں جبکہ یہ جماعتیں میدان جنگ کی دوسری جانب کڑی ہیں“ اب تحریکی معاملات ان کے ہاتھوں سے نکل چکی ہیں ان کی انہی مصلحت پسند پالیسیوں اور رویوں کی وجہ سے ایک زبردست سیاسی خلا پیدا ہو گیا ہے جسے اب بلوچوں کی نوجوان نسل پُر کر رہی ہے بلکہ انہوں نے پہلی محاذ کے ساتھ دوسری محاذ یعنی عوامی مزاحمتی تحریک کی کمان بھی سنبھا لی ہے۔ ان جماعتوں کے پاس اب وہ نظریاتی کیڈر نہیں جو اسّی اور نوے کی دہائیوں میں ہوا کرتے تھے۔ اب ان کے ہاں سرکاری ملازمین اور ٹھیکیداروں کی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں ان سے کبھی بھی عوامی مزاحمتی تحریک نہیں چلائی جا سکتی۔ اس کے لیے جنون، جذبہ اور وابستگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ٹھیکیدار تو آدھے گھنٹے کے لیے دھرنے میں بیٹھ ہی نہیں سکتے دوسری طرف ڈاکٹر مہرنگ بلوچ جو عوامی مزاحمت کا ایک نیا استعارہ ہے نے عوامی مزاحمت کی ایک اعلیٰ مثال قائم کر کے بلوچ قومی سوال کو عالمی دنیا میں بہترین طریقے سے اجاگر کر دیا ہے۔

یہ قوم پرست جماعتیں ایک ایسی بھنور میں پھنس چکی ہیں کہ ایک طرف آگ کا دریا ہے اور دوسری طرف گہری کھائی ہے ۔ ایک طرف ریاست کو ان کی نام نہاد جمہوری و انتخابی سیاست بھی پسند نہیں تو دوسری طرف بلوچ نوجوان بھی ان سے کافی ناراض اور نالاں ہیں ۔ وہ انہیں پاکستان کے ایجنٹ، ریاست کے سہولت کار، نوآ بادیاتی استحصال میں شریک کار تصور کرتے ہیں ۔ ان ناموافق حالات میں ان قوم پرستوں کو اپنی بقاءکا مسئلہ بھی در پیش ہے ۔ اگر ان کا سیاسی کردار این جی اوز جیسا رہا تو ان کی حالت سندھی قوم پرستوں سے بھی بدتر ہو جائے گی ۔ ریاست بھی ان کو مزید کمزور اور نحیف دیکھنا چاہتی ہے۔ کیونکہ اب بلوچستان میں ریاست کی ترجیحات کافی بدل چکی ہیں اسے پارلیمان میں سیاسی لوگوں کی نہیں بلکہ ڈیتھ اسکواڈ، اور ڈرگ ڈیلروں کی اشد ضرورت ہے۔ البتہ وقت و حالات نے انہیں ایک سنہری موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ اپنی سیاست پر نظرثانی کریں، حالات کا باریک بینی سے مطالعہ کریں، اپنی گزشتہ ادوار کی پالیسیوں سمیت بلوچ قومی تحریک کا ازسر نوجا ئزہ لیں، بلوچ عوام کے ”کور ایشوز“ کے متعلق ایک واضع اور ٹھوس سیاسی اسٹینڈلیں، ریاستی جبر کے خلاف مصلحت پسندی کی بجائے عوامی مزاحمتی جد و جہد کا راستہ اختیار کریں۔ تو شاید اس سے ان کی کچھ تلافی ہوجائے اور انہیں اپنا سیاسی ساکھ بحال کرنے میں مدد مل سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں