بلوچی ادب کا جنازہ

تحریر: عزیز سنگھور
کسی بھی قوم کی طاقت اس کے ”لٹریچر“ یعنی علم وادب پرمنحصر ہے۔ مضبوط لٹریچر سے طاقتور اقوام بنتی ہیں۔ لٹریچرکو کتابیں محفوظ کرتی ہیں جبکہ لائبریریاں کتابوں کو محفوظ کرتی ہیں اور وہیں سے "ویڑنری” انسانوں کا جنم ہوتا ہے اور وہیں انسان جابر ریاست کے خلاف مزاحمت کا راستہ چنتا ہے۔ اس لئے ریاستی اشرافیہ ادب سے ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے اور وہ بار بار ادب پر "وار” کرتا ہے۔ ایسے ہی ایک "وار” کا منصوبہ 6 جون 2024 کو کراچی کے علاقے ملیر میں پیش آیا۔
ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر اور قائد آباد پل کو توسیع دینے کی آڑ میں ملیر کی سب سے بڑی پبلک لائبریری "سید ہاشمی ریفرنس کتابجاہ” کو مسماری کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ اس سلسلے میں لائبریری کی عمارت پر مسماری کے نشانات لگادیئے گئے ہیں خدشہ ظاہر کیا جارہاہے کہ کسی وقت بھی لائبریری کو مسمار کیا جائیگا جس کیلئے ہیوی مشینریز بھی پہنچادی گئی ہیں۔
غلام محمد بلوچ گوٹھ کے نصف حصے میں موجود مکان و دکان مسمار کیے جائیں گے جبکہ دوسری جانب ملیر قائد آباد پل کی توسیع کا کام بھی شروع ہونے والا ہے اس حوالے سے رات کی تاریکی میں ملیر قائد آباد پل کے اس پار موجود "سید ہاشمی ریفرنس کتابجاہ” کی عمارت پر نشانات لگائے جاچکے ہیں۔ وفاقی اداروں کی جانب سے لگائے گئے نشانات کی وجہ سے علمی وادبی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
واضع رہے کہ ملیر کا علمی وادبی مرکز سید ہاشمی ریفرنس کتابجاہ بلوچی زبان کے مشہور شاعر، ادیب و مفکر سید ظہور شاہ ہاشمی سے منسوب ہے۔ یہ لائبریری انور بلوچ ہوٹل کے قریب ملیر اور قائد آباد کے درمیان پل کے نیچے واقع ہے۔ سید ہاشمی ریفرنس کتابجاہ (لائبریری) کی بنیاد دسمبر 2003 میں بلوچ مارکسسٹ رہنما لال بخش رند نے رکھی تھی۔ جس کیلئے ملیر سے تعلق رکھنے والے بلوچی زبان کے اسکالرعظیم دہقان نے لائبریری کو پلاٹ بطور تحفہ دیا تھا اور بلوچ مفکر و دانشور پروفیسرصبا دشتیاری شہید کی کاوشوں اور مالی معاونت سے دو کمرے اور ایک ہال پر مشتمل لائبریری کی عمارت دو سال بعد مکمل ہوئی اور تیرہ مارچ 2005 سے لائبریری کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ہاشمی ریفرنس کتابجاہ کے 1200 سے زائد ارکان ہیں۔ لائبریری میں 14 ہزار سے زائد کتب موجود ہیں۔ لائبریری کی جانب سے تاحال 40 سے زائد کتب شائع ہوچکی ہیں۔ یہاں سینکڑوں نوجوان مطالعہ کرنے کے لئے آتے رہتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو ملیر ندی کراچی کے لئے آکسیجن حب ہے۔ یہاں کمرشل سرگرمیوں سے ماحولیاتی آلودگی جنم لے گی۔ جس سے کراچی شہر کے پرفضا ماحول کو شدید نقصان پہنچے گا۔
دوسری جانب ضلع ملیر کے لوگ تعلیم اور صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔ حکومت بجائے ملیر کے عوام کی فلاح و بہبود پر کام کرے وہ ملیر اور گڈاپ میں نجی ہاﺅسنگ اسکیموں پرتوجہ دے رہی ہے۔ ملیر ایکسپریس وے کا منصوبہ دراصل "ایلیٹ کلاس” کے لئے تعمیرکیا جارہا ہے تاکہ "ایلیٹ کلاس” کے لئے بننے والا "بحریہ ٹاون” اور "ڈی ایچ اے سپر ہائی وے” کو شہر سے جوڑا جاسکے۔ اس منصوبے سے عام عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا۔ یہ محلات اور بنگلوز میں رہنے والوں کے لئے ایک منصوبہ ہے۔ جس کی تکمیل سے ریاستی "اشرافیہ” کو کھربوں کا فائدہ ہورہا ہے۔ ملیر ایکسپریس وے ڈی ایچ اے کریک ایونیو سے شروع ہوکر جام صادق پل، شاہ فیصل کالونی روڈ، فیوچرکالونی سے ہوتا ہوا ایم نائن پر کاٹھور تک جائےگا۔ فی الحال اس منصوبے پر سید ہاشمی ریفرنس کتابجاہ (لائبریری) کے قریب کام جاری ہے۔ لائبریری کو مسماری کے نشانات لگانے سے ان خدشات نے جنم لیا ہے کہ کسی بھی وقت اس لائبریری کو مسمار کردیا جائے گا۔
مسماری کا عمل بلوچ قوم کو علم و ادب سے دور رکھنے کی ایک سازش ہے۔ یہ کوئی عام عمارت نہیں بلکہ یہ دو عظیم اسکالرز کی سوچ و فکر کی علامت ہے۔ جن میں سید ظہور شاہ ہاشمی اور پروفیسر صبا دشتیاری شامل ہیں۔
بلوچی زبان کے صف اول کے شاعر و ادیب سید ظہور شاہ ہاشمی نے 21 اپریل 1926 میں بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں آنکھ کھولی۔ انہوں نے گوادر میں "انجمن اصلاح بلوچاں” کے نام سے ایک تنظیم کی داغ بیل ڈالی اور اس کے ساتھ ہی عوام کو ان کے حقوق کی آگاہی کےلیے ایک رسالے کا بھی اجرائ کیا۔ جس میں بلوچوں کے سیاسی اور سماجی مسائل کو اجاگرکیا جاتا رہا۔ یہ وہ دور تھا جب گوادر کے حکمران سلطان قابوس آف عمان ہوا کرتے تھے۔ سید ظہور شاہ کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں سے سلطان قابوس آف عمان سخت نالاں تھے۔ جس کی پاداش میں سید ظہور شاہ ہاشمی کو گوادر میں قید بھی کیا گیا۔ بعد میں انہیں گوادر بدر کردیا گیا۔ انہوں نے اپنی جلاوطنی کے ایام پاکستان یعنی کراچی میں گزارے۔ واضح رہے کہ 1958 کو گوادر کو دوبارہ بلوچستان کا حصہ بنانے میں شہید نواب اکبر خان بگٹی کا کلیدی کردار تھا۔ نواب اکبر بگٹی اس وقت کے وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی کابینہ میں وفاقی وزیر تھے تاہم پاکستانی تاریخ میں شہید نواب اکبر بگٹی کے اس اہم کردار کو فراموش کرتے ہیں اور اپنی جھوٹی تاریخ بیان کرتے رہتے ہیں۔ جو ایک اخلاقی جرم ہے اورتاریخ کے ساتھ ایک کھلواڑ بھی۔
بعد میں یہی "گوادر ڈیپ سی پورٹ” اور بلوچستان کے ساحل و وسائل پر چین اور اسلام آباد کے قبضے کے خلاف نواب اکبر بگٹی نے مزاحمت کا راستہ چنا اور جامِ شہادت نوش کیا۔
کراچی میں قیام کے دوران سید ظہور شاہ بلوچی زبان و ادب اور بلوچی ڈکشنری (لغت) "سید گنج” کیلئے دن رات کوشاں رہے۔ ان کی کتابوں میں بلوچی دربر، بے سرگال، بلوچی سیاہگ، بلوچی اردو بول چال، نازرک اور دیگر شامل ہیں۔ وہ 4 مارچ 1978 کو ہم سے جدا ہوگئے۔ ان کی تدفین کراچی کے قدیم قبرستان "میوہ شاہ” میں کی گئی۔
بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسر اور ممتاز بلوچ دانشورصبا دشتیاری کی کہانی بھی سید ظہور شاہ سے مختلف نہیں۔ دونوں مزاحمت پسند خیالات کے مالک تھے۔ ان کی تحریروں سے انقلاب کی بوآتی تھی۔
یکم جون 2011 کو پروفیسرصبا دشتیاری کواس وقت نامعلوم مسلح افراد نے سریاب روڈ پر سنجرانی اسٹریٹ کے قریب گولی مار کر شہید کیا جب وہ حسب روایت وہاں سے پیدل گزر رہے تھے۔ صباد دشتیاری زمانہ طالب علمی سے بلوچی ادب کو فروغ دینے میں مصروف عمل رہے۔ وہ ملازمت شروع کرنے کے بعد نہ صرف بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ کو بلوچی ادب کی تعلیم دیتے تھے بلکہ اپنی تنخواہ سے ملیر میں ظہور شاہ ہاشمی کے نام سے "سید ہاشمی ریفرنس کتابجاہ” کی عمارت بھی تعمیر کروائی۔ صبا کراچی میں لیاری کے علاقے بغدادی کے ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کی تکمیل کے دوران وہ حاجی عبد اللہ ہارون اسکول میں بطور استاد بھی کام کرتے رہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد صبا بلوچستان یونیورسٹی میں بطور پروفیسر کام سرانجام دیتے رہے۔ صبا 20 کے قریب کتابوں کے مصنف تھے۔ وہ بلوچی کے ساتھ اردو، فارسی اور عربی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔ وہ شاعری بھی کرتے اور مشاعروں میں باقاعدگی سے شریک بھی ہوتے تھے۔ صبا صاحب کے جسد خاکی کو بلوچستان سے لیاری پہنچایا گیا تو ان کے "دیدار” کےلئے بلوچ نوجوانوں کا ایک سمندر امڈ آیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لیاری میں ریاستی”دلال” بالمعروف "لیاری گینگ وار” کا راج تھا۔ ان کے منع کرنے کے باوجود بھی بلوچ نوجوانوں نے صبا شہید کو "قومی اعزازات” کے ساتھ سلامی دی اور ان کی میت کو "بلوچستان کے قومی پرچم” کے سائے تلے دفنایا گیا۔
سید ہاشمی ریفرنس کتابجاہ کی عمارت کو پروفیسر صبا شہید نے اپنے خون پسینے سے تعمیر کیا تھا۔ شہید کا خون کبھی بھی رائیگاں نہیں جائے گا۔ سید ہاشمی ریفرنس کتابجاہ کی عمارت کو نقصان پہنچایا گیا تواس کی ایک ایک اینٹ کا بدلہ لیا جائیگا کیونکہ یہ صرف ایک عام عمارت نہیں ہے بلکہ یہ بلوچ قوم کا قومی ورثہ بھی ہے۔