قلات میں کالج اور اسکول سطح پر براہوئی زبان میں تقریری مقابلہ، ایک تنقیدی جائزہ

تحریر: ثاقبہ سعید
8 جون بروز ہفتہ کو ایلمنٹری کالج میں براہوئی اکیڈمی کی جانب سے ایک تقریری مقابلہ بعنوان ”لمہ زبان ٹی تعلیم ننا حقے“ منعقد ہوا۔ اس تقریری مقابلے میں اسکول اور کالج سطح کے اسٹوڈنٹس نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ پروگرام میں قلات کے ہر کالج سے 2 طالب علم اور ہر اسکول سے ایک طالب علم نے مقابلے میں حصہ لیا۔
پروگرام کا آغاز گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج قلات کے پرنسپل ثنا اللہ ثنا کی صدارت میں ہوا۔ منصب پر فائز 3 رکنی ججز کا ٹیم بھی تشکیل دیا جا چکا تھا جن میں پروفیسر محمد صدیق، براہوئی زبان کے شاعر رحیم صیاد اور قلمکار عابد سلام شامل تھے۔
پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کے بعد اسٹوڈنٹس نے پرجوش اور ولولہ انگیزی سے اپنے اپنے تقریروں سے سامعین کے دھیان کو اپنے طرف قائل کرنے ان کو عنوان سے آگاہ کرنے اور داد وصول کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس پروگرام میں طلبا اور طالبات کی شرکت اور ولولے کو دیکھ کر خوشی کا احساس ہوا مگر چند ناقابل فراموش رویوں، کوتاہیوں اور ناانصافی پر مبنی حرکات کو دیکھ کر بہت افسوس ہوا یوں ایلیمنڑی کالج قلات اور محکمہ تعلیم جیسے غیر متنازعہ اور غیر جانبدار اداروں پر بھی سوال اٹھانے کو دل چاہا۔مگر سب سے بدتر اور مایوس کن عمل میرٹ کی پامالی تھی۔
کالج کے ایک اسٹوڈنٹ کی حیثیت سے میں نے بھی شرکت کی تاکہ مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت اور حق پر کچھ سننے اور سمجھنے کا موقع مل سکے۔ حسب معمول ہر پروگرام کے منتظمین کی طرف سے کمی کوتاہی رہتی ہے اسی طرح اس تقریری مقابلہ میں بہت سارے کمی دیکھنے کو سامنے آگئے جن کو مختصراً میں اس طرح بیان کرتی ہوں:
1) جگہ کی کمی جہاں کافی طلبا و طالبات کو پروگرام میں جگہ اور کرسیوں کی کمی کی وجہ سے کھڑا رہنا پڑا۔
2) منتظمین کی غیر ذمہ داری جہاں اسٹیج کو سنبھالنے بچوں بچیوں کو مائک تک رسائی میں مشکلات کا سامنا رہا۔
3) تیسری اور اہم ناقصی ججز کا میرٹ کو پامال کرنا اور ناقابل قبول و یک طرفہ فیصلہ کرنا جو مستحق محنت کش طالب عملوں کیساتھ ناانصافی تھی۔ ججز کا ایسے طلبا و طالبات کو انعام کا مستحق قرار دینا جن میں براہوئی اکیڈمی قلات کے اہم ارکان کی بیٹی، بھائی اور رشتہ دار شامل تھے۔
4) عموماً ان تمام بچوں اور بچیوں کو بالکل نظر انداز کردیا گیا جنہوں نے موضوع کی مناسبت سے تقاریر کی اور براہوئی اور بلوچی زبان کی اہمیت اور اس میں تعلیم پر زور دیا۔
5) پروگرام کے ججز کا براہوئی اکیڈمی کا باقاعدہ ممبر ہونا اور تو اور وہ طلبا جو انعام کے لئے نامزد ہوئے ان میں 70 فیصد ایسے طلبا جو منتظمین کے اپنے رشتہ دار یا بھائی اور بیٹی وغیرہ تھے۔
6) مقابلے میں ایک اور معیوب حرکت کہ جب کوئی طلبا ذیل اشعار (زمانہ ٹی اندا نشانے ننا، براہوئی بلوچی زبانے ننا) کو ارشاد کرتا، کرتی یا اس طرح کی کوئی شاعری ہوتی تو کمپیئر اور ججز کا آنکھوں سے ایک دوسرے سے اشاروں میں ہمکلام کرنا ایک نہایت نازیبا حرکت ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ منتظمین اور ججز کا پہلے سے یک طرفہ فیصلہ کیلئے متفق ہونا ہے۔
7) مقابلہ کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا اسکے نتائج favoritism اور نظریاتی تعصب کی بنا پر بنائے گئے۔ وہ طلبا و طالبات جو اپنی تقریر میں براہوئی اور بلوچی کو اپنی اپنی زبانیں تصور کرتے ہیں اور اس سے منسلک اشعار پڑھے ان کو بہترین تقاریر پیش کرنے کے باوجود نظر انداز کردیا گیا۔ جنہوں نے نہایت پرخلوص پرجوش ولولہ انگیزی اور دلائل سے تقریر سرانجام دے کر پوزیشن کے مستحق بننے میں کامیاب ہوئے لیکن یہ مقابلہ دراصل تقریری قابلیت نہیں بلکہ نظریہ کی بنیاد پر رکھ کر میرٹ کا پامالی کا باعث بنا۔
مستقبل میں حوصلہ شکنی اور نفرت انگیز ماحول اور واقعات پر کنٹرول کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے متنازعہ اور تعصب پر مبنی پروگراموں کو تعلیمی اداروں بالخصوص ایلیمنٹری کالج قلات، ڈگری بوائز کالج قلات اور انٹر گرلز کالج قلات اور ہائی اسکولوں میں منعقد کرنے سے گریز کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے ہی اداروں اور اساتذہ سے بدظن اور بیزار نہ ہوسکے۔ اگر کسی بھی وقت اس طرح کا کوئی پروگرام ہو تو وہاں پر ایسے ججز ہوں جو اقربا پروری اور متعصبانہ عمل سے پاک ہوں خاص کر ایسے ججز کی سلیکشن محکمہ تعلیم کی طرف سے ہو تو بہتر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں