دوہری شہریت، منقسم وفاداری

راحت ملک
وہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کی سیاسی حیثیت کے متعلق گزشتہ دو عشروں سے بحث چلی آ رہی ہے۔پی ٹی آئی ان پاکستانیوں کو ووٹ کا حقدار بنانے میں قدرے زیادہ پرجوشن رہی جسکی وجہ سیاسی نظرئیے میں تلاش کرنا بے سود ہے قیاس ممکن ہے کہ چونکہ پی ٹی آئی کو مغربی دنیا میں بسنے والے پاکستانی اور غیر ملکی بھی(زیر التواء فارن فنڈنگ کیس) بھی مالی معاونت اور سیاسی حمایت مہیا کرتے تھے۔ چنانچہ دلیل دی جاتی تھی کہ بیرونی ممالک کام کرنے والے پاکستانی ملکی معیشت کے استحکام میں بالخصوص زر مبادلہ بھجوانے کا اہم ذریعہ ہیں۔ در حالانکہ مغربی دنیا میں آباد پاکستانیوں کے برعکس مشرق وسطیٰ عرب ممالک میں محنت کش پاکستانی زرمبادلہ بھجوانے میں دوسروں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ مغرب میں رہنے والے اپنے ملک سے محبت اور سیاسی مسائل کے حل میں دلچسپی و سنجیدگی اور اخلاص میں کسی سے کم یا زیادہ نہیں۔ زیادہ ترقی یافتہ خطے میں رہتے ہوئے اپنے ملک کے بارے ان کے خواب و خواہشات میں جوش و جذبے کی فراوانی بھی مسلمہ ہے اور یہی پہلو زیادہ توجہ طلب بحث کا بھی متقاضی ہے۔
وہ جس معروضی منظر نامے یا صورتحال میں جی رہے ہیں اس سے براہ راست متاثر ہونا ممکن ہے۔ اور ان کا اپنے آبائی ملک میں سیاسی انتظامی اصلاحات کیلئے متحرک ہونا خوش آئند ہے۔ لیکن آیا وہ پاکستان کے سیاسی معاشی انتظامی مافیے سے بھی پوری تاریخی سند کے ساتھ گہرا ادراک رکھتے ہیں؟ یا محض نقالیِ مغرب کے خوگر ہیں اور درست مگر ہوائی قلعے تعمیر کرنے والے غیر سیاسی مزاج اور رجحان میں مبتلا تو نہیں؟ ان امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ مشرقی ملکوں میں کام کرنے والے پاکستانی جو ملک کو سالانہ اربوں ڈالر اور دوسروں سے زیادہ زرمبادلہ بھی بھجواتے ہیں ان کے لئے مشرق وسطیٰ میں متاثر کن سیاسی حالات موجود نہیں تو شاید وہ سیاسی سرگرمی میں حصہ داری یا منصب کے حصول کے بھی زیادہ خواہاں نہیں ہونگے یوں اگر غیر ممالک میں رہنے والے افراد کی درجہ بندی کی جائے تو پہلی تقسیم منطقے کے فرق کی ہوگی۔ دوسری زرمبادلہ بھجوانے میں فوقیت کی اور تیسری بیک وقت دوہری شہریت خط امتیاز کھینچتی ہے
یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ زرمبادلہ کو بنیاد بنانے والی دلیل بذات خود توہینین آمیز ہے کیونکہ اس استدلال میں سرمائے یا زرمبادلہ کو انسان اور انسانیت پر فوقیت کا سلبی اور قابل مذمت عنصر موجود ہے۔ مشرق وسطی میں کسی غیر ملکی کو شہریت ملنے کا امکان ہی نہیں عرب دنیا ذہنی عظمت کے جس خبط میں مبتلا ہے وہ کسی بھی غیر عرب کو چاہے وہ ہم مذہب ہی کیوں نہ ہو اپنے برابر کا انسان سمجھنے سے عملاً گریز کرتے ہیں مغرب کی ذہنی فضا اسکے برعکس ہے تو بحث یہ ہے کہ دوہری شہریت رکھنے والے کو دوہرا حق انتخاب کیوں دیا جائے؟
یہ نقطہ دلائل کا طالب ہے
جاری ملکی مباحثے کا رجحان بیرون ملک مقیم تمام پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے میں مثبت طور پر متحرک رہا ہے جبکہ صرف پاکستانی شہریت کے حامل پاکستانی کو چاہے وہ کسی بھی ملک میں آباد ہو پاکستان میں بطور ووٹر درج کیا جاتا ہے بحث میں سوال یہ اٹھتا رہا کہ ایسے فرد کو حق رائے دہی اپنے اقامتی ملک میں رہتے ہوئے بروئے کار لانے کا استحقاق دیا جائے۔
بھارت میں بھی یہ بحث موجود رہی ہے لیکن انہوں نے ووٹر کو اپنے حق رائے دہی کے استعمال کیلئے انتخابات کے موقع پر اپنے حلقہ انتخاب میں موجود ہونے کا پابند کیا ہے۔ دوہری شہریت والے کو رائے موجودگی کے عمل سے بالکل خارج رکھا گیا ہے کیونکہ دوہری شہریت متصادم ومنقسم وفاداریوں پر مبنی ہوتی ہے لہذا منقسم وفاداری رکھنے والے فرد کو ملک کے سیاسی معاملات میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی مغربی دنیا کے معاملات اس کے برعکس ہیں وہ دوہری شہریت اور ووٹ کا حق دیتے ہیں لیکن اپنے آبائی ملک کی بجائے اقامتی ملک کے ساتھ ہر طرح کی وفاداری کا حلف لینے اس پر کار بند رہنے کے بھرپور موثر۔نگرانی کے عمل کا اہتمام کرے۔یاد رہے مغرب نوآبادیاتی دور میں افروایشیائی لاطینی امریکہ کے استحصال سے جمع شدہ مال و دولت کے اب خوشحال خطہ ہی نہیں بلکہ مستحکم ممالک کا مجموعہ ہے اور ان کا ادارہ جاتی ڈھانچہ دوہری شہریت کے حاملین سے ویسے خدشات نہیں رکھتا جن کا سامنا شمال یا ترقی پذیر دنیا کو ہے۔
دستور پاکستان میں دوہری شہریت کے حامل افراد پر بڑی صراحت اور پھر عدالتی فیصلوں کے ذریعے دو قدغنیں عائد ہیں
الف۔ ایسا شخص قانون ساز ادارے کا رکن نہیں بن سکتا؟
ب۔ وہ کسی بھی سطح پر سرکاری اہلکار بھرتی نہیں ہوسکتا۔
یہ بہت واضع مقصد اور لائحہ عمل ہے جسے اکثر بحث کے دوران نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
عمران حکومت کے فیصلہ ساز حلقے میں بکثرت پائے جانیوالے معاونین خصوصی ومشیران کی تعداد ہے جو سبھی غیر منتخب افراد ہیں اور اپنے عہدوں کے بلحاظ وفاقی وزیر کارتبہ ومرتبہ اور مراعات رکھتے ہیں۔ان مخصوص افراد کو بوجوہ عوامی سیاسی دباؤ اپنے ملکی وغیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے پر مجبور ہونا پڑا تو معلوم ہوا کہ سات میں سے کچھ مشیر یا معاون خصوصی ایسے ہیں جو سرے سے ملک کی شہریت نہیں رکھتے(یہاں پیدائشی شہریت کی دلیل قابل قبول نہیں) تو چند دوہری شہریت کے مالک ہیں۔
وزیراعظم بننے سے قبل جناب عمران خان اپنے جلسوں عوامی بیانات اور ٹی وی مباحثوں میں دوہری شہریت کے حاملین کو کوئی سرکاری عہدہ دینے یا انتخابات میں حصہ لینے کے سخت ناقد تھے۔ان کی فکر کا تضاد یہ تھا کہ وہ اس وقت بھی دوہری شہریت والوں کو ووٹ دینے کا مستحق بنانے کے ہمدرد وحامی تھے جبکہ آئین پاکستان کسی بھی شخص پر انتخاب میں حصہ لینے کے لئے ایک بنیادی شرط عائد کرتا ہے کہ شخص مذکورہ کا پاکستان کے کسی انتخابی حلقے میں بطور رائے دہندہ نام درج ہونا ضروری ہے۔صوبائی اسمبلی وسینٹ کے لئے متعلقہ صوبے میں بطور ووٹر اندراج لازم ہے اس آئینی انتظام وانصرام کی موجودگی میں محض کسی شخص کو جبکہ وہ دوہری شہریت رکھتا ہو ووٹ کا حق دینے کا مطلب الیکشن لڑنے کا اہلبنانا ہے جو متضاد بات ہے۔ووٹر بنائے جانے کے بعد اسے کسی قانون ساز ادارے جس کا وہ قانوناً اصل ہو۔انتخاب لڑنے سے روکنا مشکل ہوگا تاوقتیکہ آئین میں مناسب ترامیم نہ کردی جائیں۔
حکومتی حلقے کے طاقتور معاونین خصوصی ومشیران کے اثاثوں اور شہریت کے حقائق منظر عام پر آنے کے بعد پی ٹی آئی کے حلقے اب دلیل دیتے ہیں کہ آئین میں دوہری شہریت رکھنے والے پر قدغن موجود نہیں کہ اسے مشیر یا معاون خصوصی مقرر نہیں کیا جاسکتا۔میر ا سوال یہ ہے کہ بلا شبہ آئین میں مذکورہ نوعیت کی قدغن موجود نہیں تو آئین میں اس نوعیت کے اقدام کی اجازت بھی تو نہیں دی گئی۔؟آئین میں زیر بحث موضوع پر سکوت ہے تو کیا یہ لازم ہے کہ اس سکوت کی منفی طرزعملل سے تشریح کرکے من پسند اقدام کیا جائے؟کیا آئینی سکوت کی تشریخ دیگر ایسی دفعات کی روشنی میں نہیں ہونی چاہیے جو واضح طور پر قانون ساز ادارے اور سرکاری ملازمت حاصل کرنے کی ممانعت عائد کرتی ہیں سوال کو اس انداز سے بھی پرکھا جاسکتا ہے کہ دستور میں دوہری شہریت رکھنے پر حدود وقیود واضح طور پر موجود ہیں ان کا مقصد منقسم وفاداری رکھنے والے شخص کو ریاستی امور سے دور رکھنا تھا۔دستور سازوں نے اگر دوہری شہریت کے مشیر ومعاونین پر صراحیتاً پابندی عائد نہیں کی تو قیاس کیا جاسکتا ہے کہ وہ تصور کرتے ہوں گے کہ منتخب ہو کر آنے والے افراد علمی و عملی تیکنیکی استعداد کے اتنے ماہر ہونگے کہ انہیں اضافی مشاورت ومعاونت کی ضرورت ہی نہیں ہوگی ایسی صورتحال میں افسر شاہی یا سرکاری ٹیکنوکریٹ سے استفادہ کی سہولت بھی میسر ہے اور پھر بھی ضرورت آن پڑی تو وہ ان ملکی شہریوں سے استفادہ کرینگے جن کی وفاداری مشکوک یا منقسم نہ ہو۔
سیاسی سطح پر بھی اس مسئلہ کا حل موجود ہے اگر سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا جائے تو لازمی طور ہر سیاسی جماعت کو اپنے ارکان پر مشتمل ایسی کمیٹیاں بنانی چاہیں جو مختلف امور کے ماہر جماعتی ارکان پر مشتمل ہوں یا جماعت کے کسی رکن سے جماعتی سطح پر مشاورت کا اہتمام کر نا چاہیے۔ مسائل کے حل کے لیے نظریاتی سیاسی جماعتیں تحقیق پر مشتمل ہوم ورک مکمل کرتی ہیں تاکہ برسراقتدار آنے کے بعد انہیں ٹامک ٹوئیاں نہ مارنی پڑیں
وزیراعظم کا یہ صوابدیدی اختیار کہ وہ کسی بھی شخص کو کابینہ کے اجلاس میں جو مدعو کرسکتے ہیں لا محدود نہیں۔ مخصوص تناظر میں کسی شخص(مرد و زن) کو درپیش مسئلہ پر ماہرانہ رائے دینے کے لئے مدعو کرنے کا اختیارمستقلاء طور پرکابینہ اجلاس میں موجود رہنے اپنی مسلسل رائے دینے اور فیصلہ سازی میں بھرپور کردار ادا کرنے کا ختیار رہے نہ اسکی قانونی حیثیت۔
المیہ یہ ہے کہ اس وقت ملک میں بالواسطہ یا بلا واسطہ ایک تو غیر منتخب افراد کا غلبہ ہے جبکہ دوہری شہریت اور غیر ملکی افراد کابینہ کے نفس ناطقہ بنے ہوئے ہیں۔
سٹیٹ بنک کی گورنری اور آئی ایم ایف کے ملازم کی بطور مشیر خزانہ تقرری اس مضمون کے بین السطور میں موجود ہے۔
مشیر خزانہ بجٹ بنانے کے کلی مجاز ہیں لیکن وہ کیوں اسمبلی میں بجٹ پیش نہیں کرسکتے؟ کیونکہ وہ وزیر خزانہ ہیں نہ ہی رکن اسمبلی۔ اور ستم ظریفی دیکھئے کہ جو اصلاًوزیر خزانہ ہیں۔ وہ اپنے اہم فریضہ کی ادائیگی سے شاید عاجز ہیں خیر۔۔۔خبر یہ ہے کہ جناب شہزاد اکبر کو مشیر داخلہ بنایا گیا جن کا رتبہ و مرتبہ وفاقی وزیر کے مساوی ہے کہا جارہا ہے کہ یہ اپوزیشن کو ایوان میں احتساب کی بابت مسکت جواب دینے کیلئے مشیر داخلی و احتساب بنایا گیا ہے؟ کیا غیر منتحب مشیر داخلہ ایوان کی کاروائی میں حصہ لے سکتے ہیں؟ اگرجواب مثبت ہے تو پھر مشیر خزانہ کو اس حق سے محروم کیوں رکھا گیا تھا؟ میرا خیال۔یہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے فیصلے اور سماعت کے دوران اے آر یو کی قانونی حیثیت وساکھ پر اٹھنے عدالتی تحفظات کے بعد شاید اب اس نام نہاد ادارے کو برقرار رکھنا ممکن نہ ہو لہٰذا منتقم مزاج احتساب کے عملی رفیقٍِ کار کو قبل از وقت نیا روزگار مہیا کیا گیا ہے۔ جو اقربا پروری کی ہی ناروا مثال ہے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں