بلوچستان میں آزادی اظہار پر سنسر شپ اور روزنامہ انتخاب کے اشتہارات کی بندش پر PEN انٹرنیشنل کی تشویش

کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) PEN انٹرنیشنل کی رائٹرز ان پریزن کمیٹی کے چیئرمین ماتھیڈا نے کہا ہے کہ ایک ایسے صوبے میں جو استحصال اور عسکریت پسندی سے گہرا متاثر ہوا ہے، پرتشدد جبر کے ذریعے پرامن اظہار کو خاموش کرنے کا حکومتی فیصلہ اس کی بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی اور مزید بدامنی کو جنم دینے کا خطرہ ہے۔ PEN انٹرنیشنل کو پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں آزادی اظہار پر سنسر شپ اور دیگر پابندیوں کی حالیہ رپورٹس پر تشویش ہے۔ تنظیم میڈیا رپورٹنگ کی سنسر شپ کو فوری طور پر ختم کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرتی ہے کہ بلوچ برادری کے آزادی اظہار کے حق کا تحفظ کیا جائے۔ 28 جولائی کو گوادر شہر میں ایک پرامن احتجاج کا آغاز ہوا جس میں انسانی حقوق کے وسیع تر تحفظات اور صوبے کی پسماندہ نسلی بلوچ کمیونٹی کے خلاف وسیع پیمانے پر حقوق کی خلاف ورزیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔ تاہم، مظاہرین کے خلاف ہونے والے پرتشدد کریک ڈاﺅن اور پاکستانی حکام کی جانب سے احتجاج کی رپورٹنگ کو سنسر کرنے اور اس کے نتیجے میں دبانے کی کوششوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ سنسرشپ کی مثالوں میں وہ رپورٹس شامل ہیں جن کے مطابق پاکستانی حکام نے مقامی اخبارات سے مظاہروں کی کوریج روکنے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ روزنامہ انتخاب اخبار کے چیف ایڈیٹر انور ساجدی نے حکم کی تعمیل کرنے سے انکار کر دیا اور مظاہرے کی رپورٹنگ جاری رکھی، جس کے نتیجے میں مقامی حکام نے بطور انتقامی کارروائی کے طور پر روزنامہ انتخابا کے سرکاری اشتہارات کو مکمل بند کردیا۔ حالیہ دنوں میں پی ای این انٹرنیشنل کو ایسی خبریں موصول ہوئی ہیں کہ میڈیا اداروں نے بلوچستان سے متعلق صحافیوں کی بہت سی رپورٹس کو بھی شائع نہیں کیا۔ پاکستان میں اخباری صنعت کا زیادہ انحصار سرکاری اشتہارات سے حاصل آمدنی پر ہے۔ یہ انحصار اخباری صنعت کیلئے حکومت کی طرف سے معاشی جبر بے نقاب کرتا ہے، جس کا ایک ٹریک ریکارڈ ہے کہ آزاد میڈیا سے اشتہارات کو جان بوجھ کر معطل کرنے کا ایک ذریعہ ہے تاکہ تنقیدی رپورٹنگ کو روکا جاسکے۔ صوبے میں سنسر شپ کی دیگر مثالوں میں 27 جولائی کو گوادر میں انٹرنیٹ تک رسائی کی بندش، ایک ایسے وقت میں معلومات کے بہاﺅ کو روکنا شامل ہے جب حکام نے مظاہرین کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کیں۔ رپورٹس کے مطابق 6 اگست کو مکمل انٹرنیٹ تک رسائی ابھی بحال ہونا باقی ہے۔ بلوچستان اور وسیع تر دنیا کے درمیان معلومات کے بہاﺅ پر اس طرح کی پابندیاں متاثرین کے حقوق پر وسیع اثرات مرتب کرتی ہیں، جن میں اظہار رائے کا حق بھی شامل ہے۔ معلومات کے نتیجے میں پیدا ہونے والا خلا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی بنانے اور اس کی تصدیق کرنے کی کوششوں کو بھی پیچیدہ بناتا ہے اور غلط معلومات کے غیر چیک شدہ پھیلاو¿ کے لیے زرخیز زمین پیدا کرتا ہے۔ بلوچستان میں پابندیاں ایک ایسے صوبے میں حکومت کے طویل عرصے سے جاری کریک ڈاﺅن کی تازہ ترین مثال ہیں جو کئی دہائیوں سے تنازعات کا شکار ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہونے اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود، یہ ملک کا غریب ترین صوبہ بھی ہے، صوبے کی بلوچ آبادی کو استحصالی پالیسیوں کے نفاذ اور اختلاف رائے کو روکنے کے لیے ریاستی تشدد کے استعمال کے ذریعے بہت زیادہ پسماندہ کر دیا گیا ہے۔ جون 2024 میں رپورٹس سامنے آئیں کہ بلوچی زبان کو فروغ دینے والی ایک ادبی اور ثقافتی تنظیم بلوچی اکیڈمی ان کئی ادبی تنظیموں میں شامل تھی جس نے اپنے بجٹ میں 95 فیصد تک کمی کی تھی۔ بلوچی ثقافتی اداروں میں کٹوتی ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب حکومت نے اپنے صوبائی بجٹ میں مجموعی طور پر سرپلس کا اعلان کیا ہے۔ ایک ایسے صوبے میں جہاں پہلے سے ہی بچوں کے لیے ملک کی سب سے کم شرح خواندگی ہے، ثقافتی اور ادبی اداروں میں جاری کم سرمایہ کاری صوبے کی نسلی بلوچ آبادی کے پسماندگی کو مزید بڑھاتی ہے، جس سے محرومی اور تنازعات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہم بلوچستان میں آزادی اظہار رائے کے حق پر سنسر شپ اور دیگر غیر ضروری پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں