نہرو کی سالگرہ

انور ساجدی
اطلاعات کے وزیرشبلی فراز نے کراچی میں اتوار کی بارش کے بعد زبردست بیان دیا کہ
کراچی ڈوبا ہوا ہے اور نہرو
سالگرہ منارہاہے
26جولائی کو جناب آصف علی زرداری کی65ویں سالگرہ تھی،انہوں نے خود تواپنی سالگرہ نہیں منائی لیکن پارٹی کارکنوں نے مبارکباد کی حد تک دھوم دھام سے یہ دن منایا زرداری صاحب کافی دنوں سے علیل ہیں پہلے ضیاء الدین اسپتال میں زیرعلاج تھے آج کل بلاول ہاؤس میں صاحب فراش ہیں ان کا اپناایک طریقہ کار ہے وہ کبھی تنقید حتیٰ کہ دشنام طرازی کاجواب نہیں دیتے جب وہ صدر تھے اور ملک پر انکی حکومت تھی تو سارامیڈیا انکی کردارکشی پرلگاہوا تھا میرشکیل الرحمن کاچینل ہرروز غضب کرپشن کی عجب کہانیوں کے عنوان سے زرداری کیخلاف پروگرام چلاتا تھا صوبہ بہار کے دارالحکومت پٹنہ سے تعلق رکھنے والے کامران خان زرداری کے پیچھے پڑے ہوئے تھے اس کے باوجود انہوں نے میرشکیل سے وہ انتقام نہیں لیا جو عمران خان نے لیا زرداری کرپٹ ہونگے لیکن انکے بارے میں منفی تاثر قائم کیا گیا اس کام کاآغاز میاں نوازشریف نے کیا تھا ان کا نام مسٹر ٹین پرسنٹ نوازشریف نے رکھاتھا۔
لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جب نوازشریف کی کرپشن پکڑی گئی تو پتہ چلا کہ وہ مسٹر25پرسنٹ تھے انکے چھوٹے بنائی شہبازشریف نے دومرتبہ کہاتھا کہ وہ زرداری کو مال روڈ پر گھسیٹ کر ان کا پیٹ چاک کرکے لوٹا ہوامال برآمد کریں گے لیکن جب انکے کرپشن کا حساب کتاب ہوا تو وہ نوازشریف سے بھی آگے تھے اب جبکہ تحریک انصاف کی حکومت پر کھربوں روپے کے کرپشن کے الزامات ہیں تو ڈراسہما میڈیا اس طرح کا پروپیگنڈہ نہیں کررہا ہے جس طرح وہ زرداری کیخلاف کررہا تھا میڈیا زرداری کیخلاف بغض کیوں رکھتا ہے یہ کوئی راز کی بات نہیں کیونکہ اپنے وقت کا ہر بڑا ”باس“ زرداری سے نفرت کرتا ہے اور وہ میڈیا کو بتاتا ہے کہ توپوں کا رخ مسلسل زرداری کی طرف رکھنا ہے اندرکھاتہ زرداری ناقابل برداشت وفاق دشمن اور قوم دشمن ہے انکے بارے میں یہ تاثر قائم کیا گیا ہے کہ وہ متعصب سندھی رہنما ہے انہوں نے آئین میں 18ویں ترمیم منظور کروائی اس اقدام کو بھی ملک دشمنی سے تعبیر کیاجارہا ہے جبکہ این ایف سی ایوارڈمیں صوبوں کیلئے زیادہ وسائل مختص کرنے کے عمل کو بھی وفاق پر حملہ قرار دیاجارہا ہے ان پر نوازشریف نے جو درجنوں مقدمات قائم کئے تھے وہ توختم ہوچکے لیکن موجودہ حکومت نے مزید ریفرنسز دائر کئے ہیں ان کا مقصد زرداری کوعتاب میں رکھ کر حسب منشا کام لینا ہے زرداری پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ سندھ کے سارے وسائل ہڑپ کررہا ہے جس کی وجہ سے اس صوبہ کے عوام معاشی بدحالی کاشکار ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ کے حالات اچھے نہیں ہیں لیکن باقی صوبوں میں کونسے دودھ اورشہد کی نہریں بہہ رہی ہیں دراصل پورا ملک ایک طرح سے آفت اور عفریت کاشکار ہے جو خرابیاں ہیں وہ من جملہ ریاستی ڈھانچہ میں ہیں کیونکہ یہاں پر نظام چل نہیں پارہا ہے غیر ضروری اورغیرترقیاتی اخراجات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ پورا ریاستی ڈھانچہ اسکے بوجھ تلے دباہوا ہے جو حقائق ہیں اسکی نشاندہی کرنے کی جرأت کوئی نہیں کرتا سیاستدان گماشتے بنے ہوئے ہیں انہیں وقتی اقتدار چاہئے جبکہ حالات کا تقاضہ ہے کہ جمہوری نظام کو چلنے دیا جائے اور بڑے پیمانے میں اصلاحات کی جائیں خرابیوں کاحقیقت پسندی سے جائزہ لیکر ان کا تدراک کیاجائے لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتا ریاستی ڈھانچہ میں عدم توازن کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں انکی ذمہ داری سیاستدان پر ڈال کر انہیں بدقماش اوردلن ظاہر کیاجاتا ہے۔
ملک میں اتنی نفرت اور غیرسنجیدگی ہے کہ وزیراعظم کے ایک گرین کارڈہولڈرمشیرشہبازگل نے بلاول بھٹو کے اجرک والے ماسک پر اعتراض کیا اور اسے صوبائیت سے تعبیر کیا
شبلی فراز نے زرداری کو نہروقراردیا ہے لیکن وہ تو سندھ کے نہرو ہیں وہ بتاسکتے ہیں کہ قومی سطح کے نیرو کون ہیں؟
جس طرح زرداری سندھ میں ناکام ہیں عمران خان قومی سطح پر اس سے زیادہ ناکامی سے دوچار ہیں لیکن قصور کسی کا نہیں ہے جومرض ہے اس کا صحیح علاج نہیں ہورہا ہے خرابیاں کینسر کی شکل اختیار کرچکی ہیں لیکن اسپرین سے اس کا علاج ہورہاہے۔
کوئی شک نہیں کہ زرداری 12برس سے سندھ میں برسراقتدار ہیں لیکن سندھ کے حالات جوں کے توں ہیں پیپلزپارٹی نے صرف صحت کے شعبے میں اچھے کام کئے ہیں باقی سندھ کا بھی وہی حال ہے جو دیگر صوبوں کا ہے زرداری پر زیادہ تنقید کراچی کے مسائل کی وجہ سے ہورہی ہے یہاں پر صفائی کے انتظامات اچھے نہیں ہیں ڈرینج اور سیوریج کے مسائل ہیں پانی کامسئلہ ہے کراچی چونکہ صوبہ سندھ کا چہرہ ہے اس لئے اسے لیکر پیپلزپارٹی کی حکومت کو ناکاقراردیاجاتا ہے حالانکہ کراچی دوملاؤں میں مرغی حرام والی صورتحال سے دوچار ہے شہر کے میئراور اہم ٹاؤنز ایم کیو ایم کے ہاتھوں میں ہیں لیکن یہ لوگ کام نہیں کرتے بلکہ الٹارکاوٹیں ڈالتے ہیں جب بھی بارش ہوتی ہے میئرصاحب لمبی تان کر سوجاتے ہیں اور کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتے عذر یہ ہے کہ انہیں اختیارات نہیں ہیں فنڈز نہیں ہیں جو فنڈز انہیں مل رہے ہیں ان کا پتہ نہیں چل رہا کہ وہ کہاں جارہے ہیں۔
اسکے علاوہ کراچی مسائل کا گڑھ بن چکا ہے گزشتہ مردم شماری میں جان بوجھ کر وفاقی اداروں نے کراچی کی آبادی کم از کم 50لاکھ کم ظاہر کی حالانکہ دیکھنے میں کراچی لاہور سے کافی بڑالگتا ہے کہ لیکن مردم شماری میں اسے لاہور کے برابر ظاہر کیا گیا گزشتہ ایک عشرے میں 20لاکھ سے زائد لوگ کراچی میں آکر آباد ہوتے ہیں انکی وجہ سے کچی آبادیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے وسائل مسائل کے اعتبار سے کم پڑگئے ہیں نالے کچرے سے بھرے ہوئے ہیں اور جب تک پلاسٹک پرپابندی عائد نہیں کردی جاتی نالے صاف نہیں ہوسکتے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے پانی کی قدرتی گزرگاہوں کو بند کردیا ہے اس لئے بارش کا پانی سیلاب کی صورت اختیار کرتا ہے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کاعملہ کام نہیں کرتا یہی حال کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈی ایچ اے کا ہے ڈی ایچ اے کی متعدد سڑکیں ندی نالے بن جاتی ہیں شہر کے معاملات کوٹھیک کرنے کیلئے کوئی مرکزیت نہیں ہے جبکہ دیگر صوبوں سے لوگوں کی آمد جاری ہے میڈیا کراچی کے حالات کامنفی پہلو دکھاتا ہے لیکن سوچتا نہیں کہ ہر سال ہزاروں لوگ کراچی کا رخ کیوں کرتے ہیں اگر کے پی اور پنجاب بہت ترقی یافتہ بن چکے ہیں تو انکے لوگ روزگار کیلئے کراچی کارخ کیوں کرتے ہیں۔
سندھ حکومت کی نااہلی ہے کہ اس نے ابھی تک کراچی کاتبدیل شدہ ماسٹر پلان نہیں بنایا شہر کے کئی علاقوں میں نکاسی کو بہتر کیاجاچکا ہے لیکن پلاسٹک کے تھیلے نالیوں اور آبی گزرگاہوں کوبندکردیتے ہیں جب تک کراچی کا نیا ماسٹر پلان نہیں بنتا اور جب تک بلڈرمافیا بے لگام رہے گا کراچی کے مسائل بڑھتے رہیں گے۔
اگر زرداری کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ملک ریاض سے کہتا کہ کراچی اور دادو کی ڈیڑھ لاکھ ایکڑ کے عوض کراچی کو ڈرینج سسٹم بناکر دو زرداری کی مہربانیوں نے ملک ریاض کا پاکستان کا نمبر ایک دولتمند شخص بنادیا ہے اس نے حال ہی میں جس اسکیم کااعلان کیا ہے وہ تھانہ بھولا خان میں واقع ہے جیسے کہ میں لکھ چکا ہوں وہ کچھ عرصہ بعد گورکھ ہل اسٹیٹس پر بھی قبضہ جمائے گا زرداری انہیں نواب شاہ لے گئے ہیں کراچی میں وہ کئی بلند عمارتیں تعمیر کررہا ہے لیکن ان سے کراچی کی کوئی خدمت نہیں لی جارہی ہے۔وہ سینکڑوں گوٹھ ہڑپ کرکے کھربوں روپے کمارہا ہے ملک ریاض سے یہ بھی کہاجاسکتا تھا کہ وہ عالمی ورثہ موہن جوڈروکوبھی درست کردے کیونکہ دنیا کی یہ پہلی عظیم تہذیب کے آثار مٹ رہے ہیں نہ وفاق کو اسکی پرواہ ہے اور نہ ہی سندھ حکومت کو فکر ہے ویسے تو ملک ریاض کے موج ہیں وہ سندھ اوربلوچستان سے تادم مرگ نہیں نکلے گا کیونکہ بلوچستان میں جو ڈی ایچ اے کینٹ اور دیگر تعمیراتی منصوبے بن رہے ہیں ملک ریاض کی خدمات سے ضرور استفادہ کیاجائے گا اگرآواران اور جھاؤ کے مجوزہ جدید شہر بنانے کا کام اسے دیئے جائیں تو وہ صرف پانچ سال کے عرصہ میں یہ شہرکھڑا کردیں گے معلوم نہیں کہ جھاؤ میں ”درون“ کے پہاڑوں تک شہربسانے کا کیا مقصد ہے اسلام آباد میں ڈی ایچ اے فیزIIکاترقیاتی کام ملک ریاض نے کیا ہے اور بہت جلدی کیا ہے وہ ملک کے سب سے بڑے کینٹ تربت کاکام بھی تیزی کے ساتھ کرسکتے ہیں۔لگتا ہے کہ خدا نے ملک ریاض کی سن لی ہے وہ سندھ کے بعد کسی وقت بھی جنوبی بلوچستان کا رخ کرسکتے ہیں لیکن اس سے پہلے زرداری کو چاہئے کہ وہ ملک ریاض کے10ارب ڈالر کے منافع میں سے کچھ کراچی کی بہتری پرخرچ کروائیں ورنہ کراچی کے مسائل کبھی زرداری کاپیچھا نہیں چھوڑیں گے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں