بلوچستان اسمبلی کی ثقافتی عمارت کو منہدم کرنے کیخلاف درخواست، امان اللہ کنرانی کے دلائل پر فیصلہ محفوظ

کوئٹہ (مانیٹرنگ ڈیسک)بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد ھاشم خان کاکڑ و جسٹس محمد عامر نواز رانا پر مشتمل ڈویژن بنچ نے بدھ 9 اکتوبر کو سپریم کورٹ بار ایسوسیشن کے سابق صدر و سابق سینٹر امان اللہ کنرانی کی بلوچستان اسمبلی کے تاریخی و ثقافتی ورثے کے آئینہ دار عمارت کو منہدم کرنے کے مجوزہ سرکاری منصوبے کے خلاف آئینی درخواست پر دلائل کی سماعت کی امان اللہ کنرانی نے دلائل دیتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 28 کا حوالہ دیا جس میں ثقافتی ورثہ کا تحفظ شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحت جس میں اس کی ضمانت دی گئی ہے ،سرکار اس آئینی تقاضے سے روگردانی نہیں کرسکتا ۔انھوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں اسمبلی کاروائی 27.6.24 میں سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ و قائد حزب اختلاف یونس عزیز زہری سمیت صوبائی وزیر منصوبہ بندی ظہور بُلیدی و سپیکر بلوچستان اسمبلی کیپٹن عبدالخالق اچکزئی نے بلوچستان اسمبلی کی عمارت کی تزئین و آرائش پر بات کی اور ایوان نے بلوچستان اسمبلی کو منہدم کرنے کی منظوری دی نہ کابینہ کو اس بابت اعتماد میں لیاگیا بغیر کسی قانونی و اخلاقی جواز کے محض سیاسی بغض و عناد کی بنیاد پر ایک قابل استعمال تاریخی و ثقافتی اہمیت کے حامل عمارت کو گرانا دوسرا خطیر رقم پانچ ارب روپے مختص خرچ کرنے کا منصوبہ بنانا صوبے کے عوام کے ساتھ زیادتی و پیسے کا ضیاع اور آئین کے آرٹیکل 28 کی روح کے منافی و معاندانہ ہے جس کو روکنا آئین کے آرٹیکل 199(2) کے تحت بنیادی حقوق کا تحفظ ہائی کورٹ کی ذمہ داری ہے دلائل میں برطانیہ کے قدیمی ایوان زیریں کی عمارت جو صدیوں پرانی ہے ،مگر اس کا وجود قائم و زیر استعمال کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس کو تاریخی ورثہ سمجھ کر محفوظ بنایا جارہا ہے ،ایسے ہی سندھ اسمبلی عمارت بھی تاریخی ورثے کی نشانی کے طور پر قائم ہے۔لہٰذا عدالت حکومت کو بلوچستان اسمبلی کی موجود حیت کو تبدیل یا منہدم کرنے سے روکنے کا حکم امتناع جاری کرے ۔عدالت نے ابتدائی دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا اور بتایا اس بابت تفصیلی حکم نامہ معروضی حالات کے تناظر میں بعد میں جاری کیا جائےگا اس موقع پر سابق وزیراعلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی جانب سے درخواست گزار کی معاونت کیلئے راحب خان بلیدی ایڈوکیٹ بھی پیشہوئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں