چین اور امریکہ کی جنگ میں یہاں کے پشتون جل جائیں گے، نواب ایاز جوگیزئی
کوئٹہ(یو این اے ) پشتونخواملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری نواب محمد ایاز خان جوگیزئی نے کہا کہ جب اقوام متحدہ بنی تھی اُس وقت ملکوں کی تعداد سو سے بھی کم تھی لیکن آج دو سے زائد ہیں، دنیا میں ملک ٹوٹتے رہے اور مختلف قومیں آزادی لیکر اپنے اپنے ممالک بناتے رہے اسی طرح پاکستان بھی اپنی بے انصافیوں ظلم اور بربریت کے نتیجے میں دولخت ہوا۔ بنگالیوں نے اپنا آزاد ملک بنالیا آج وہ معاشی سیاسی طور پر اور ہر لحاظ سے پاکستان سے مضبوط ہیں، ٹیکسٹائل میں دنیا کے کئی ممالک کا مقابلہ کررہی ہیں، سیاست میں مسلسل مداخلت کاریوں کے نتیجے میں ہم نے پوری دنیا میں خود کو تنہا کردیا ہے،ہماری غلط پالیسیوں کی وجہ سے یہ خطہ ایک بار پھرعالمی طاقتوں کا میدان جنگ بننے جارہا ہے،روس امریکہ کی جنگ میں چالیس سال تک افغانستان کے پشتون جلتے رہے اب کے بار چین اور امریکہ کی جنگ میں یہاں کے پشتون جل جائیں گے، حکمرانوں نے عقل کے ناخن نہ لیئے تو بربادی انکا مقدر بنے گی، جنگ چھیڑی گئی تو صرف پشتونخوا وطن نہیں سب جل جائینگے، پشتونوں کی عدالت میں آئے ہیں ہمیں بتایا جائے یا ہمارا ساتھ دیا جائے۔ ان خیالات کا اظہارماسٹر پلان چمن میں کوئٹہ ڈویژن کے دوسرے اور ضلع قلعہ عبداللہ خان وضلع چمن کے مشترکہ دو روزہ عوامی جرگہ سے صدارتی خطاب کے دوران کیا۔نواب محمد ایاز خان جوگیزئی نے کہا کہ پشتونخوا وطن میں جرگے کرکے اپنے عوام کے ساتھ اپنی حالت بیان کررہے ہیں اور پھر انہی کے بتائے گئے راستے پر چلنے کا فیصلہ کرینگے۔ ہمیں لوگ اس لیے پارلیمان نہیں جانے دے رہے کہ ہم وہاں عوام کی حقیقی آواز اور ان کے مسائل بیان کرکے دشمن کے مظالم اور بے انصافیوں کی بات کرتے ہیں جو کہ انہیں پسند نہیں۔ پشتونوں کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے لیکن انہیں ان کے جائز حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے، ان پر رزق وروزگار کے دروازے اس لیے بند کیئے جارہے ہیں تاکہ یہ غربت اور بھوک سے اتنے نڈھال ہوجائیں کہ پھر کسی بھی پراکسی جنگوں کا ایندھن بنیں۔ نواب محمد ایاز خان جوگیزئی نے کہا کہ اگر چہ پشتون اللہ تعالیٰ کی جانب سے غریب پیدا نہیں ہوئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین کے ایسے ٹکڑے کا مالک بنایا ہے جہاں دنیا کی سب سے قیمتی معدنیات وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہیں لیکن پشتون نوجوان اس کے باوجود دیار غیر میں پہلے محنت مزدوری تو اب کچرہ دانوں میں کچرہ چُننے میں مصروف ہیں۔ آج تو اس ریاست میں پشتونوں کو ان کاموں پر مامور کردیا گیا ہے جو کہ دوسرے اقوام نے ان کاموں کو رد کردیا ہے۔ اپنے وطن کے کوئلے، کرومائٹ اور دیگر معدنیات مزدور کی حیثت سے پنجابی ٹھیکیداروں کے لیے نکالتے ہیں یہ وطن ہمارے آباؤ اجداد نے اپنے سروں کے قربانی کے نتیجے میں ایسے پالا کہ اس کے ایک ایک پتھر، درخت اور ایک ایک انچ زمین کے لیے نہ صرف پرائے قابضوں بلکہ اپنے لوگوں کا بھی خون بہایا ہے۔ پشتون تو اپنی زمینوں میں دوسرے گاؤں کے ریوڑوں، بھیڑ بکریوں کو بھی چرنے نہیں دیتے اس پر ایک دوسرے کے ساتھ دشمنیاں کرتے ہیں لیکن آج دوسرے صوبوں سے پرائے لوگ آکر لاکھوں ایکڑ زمین ایک کاغذ کے عیوض اپنے نام الاٹ کررہے ہیں۔ کیونکہ پشتونوں میں اتفاق کا فقدان ہے۔ اپنے آپس میں ذرا بھی رحم بردباری سے کام نہیں لیتے لیکن جب دوسروں نے ان کے تمام قیمتی خزانوں سے بھرے پہاڑ الاٹ کیئے تو اس پر خاموش ہیں۔ نمازیں ہم پڑھتے ہیں۔ نواب محمد ایاز خان جوگیزئی نے کہا کہ توکل ہی ہمیں مشکلات سے نکال سکتی ہیں جوکچھ کھونا تھا کھوچکے اب اپنی عدالتیں قائم کرکے اپنے چھوٹے چھوٹے مسئلے مسائل حل کرنے ہونگے۔ ملکی عدالتوں سے انصاف کی توقع کم اور عوام کا اعتماد اُٹھتا جارہا ہے۔ اپنے معتبر باکردار قبائلی مشران کی لسٹیں مرتب کرکے ان سے فیصلے کرائینگے۔ نواب محمد ایاز خان جوگیزئی نے کہا کہ میں نے قلعہ عبداللہ کی مختلف چھوٹی بڑی دشمنیوں میں ثالثی کا کردار جرگے کے ذریعے اور انفرادی طور پر ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ تین تین راتیں ایک گھر کے سامنے گزاریں لیکن چند لوگ اپنے بزرگوں کی بجائے اپنے نوجوانوں کو اختیار کے مالک بنا چکے ہیں جو جذبات کی رو میں قومی مفادکو مد نظر نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے نوابی کی دستار پہنی تو سب سے پہلے یہ فیصلہ کیا کہ عورت کو بدی، دشمنی میں عیوض کے طور پر نہیں دیا جائے گا جو بہت انسان دشمن رسم تھی ہمیں اپنی عورتوں کو جائیدادوں میں حصہ دینا ہوگا۔ عورت کو سیال بنانا ہوگا۔ نواب محمد ایاز خان جوگیزئی نے کہا کہ پہلے جب پشتونوں میں کوئی قتل کرتا تو وہ گھر بار چھوڑ کر فرار ہواجاتا اور کسی غیر علاقے میں پڑاؤ ڈال کر تباہ وبرباد ہوجاتا تھا لیکن آج جب کوئی قتل کرتا ہے اور اپنے کسی قبیلے کے ساتھ دشمنی بن جاتی ہے تو اُس کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں پھر اچانک کالی شیشوں والی گاڑیاں، گارڈز، کلاشنکوف، راہداریاں اور چھاؤنیوں میں آنا جاناشروع ہوجاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ان سماج دشمن عناصر کے پیچھے کن کا ہاتھ ہے اور کونسی قوتیں ہیں جو پشتونخوا وطن میں کشت وخون قبائیلی دشمنیاں چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج تو ہمارے صبر کے پیمانے اتنے لبریز ہوگئے ہیں کہ اپنے چچا زاد بھائی کو بھی نہیں چھوڑرہے کیونکہ ہمارے نوجوانوں کو مختلف نشئی مواد کا عادی بناکر انہیں ذہنی طو ر پر مفلوج کیا جاتا ہے ایک سازش کے تحت پشتونوں کے نئی نسل کو نشے کا عادی بناکر انہیں برباد کرکے اپنے حقوق کے مطالبے اور سیاسی جمہوری جدوجہد اور قومی تحریک سے دستبردار کرانا چاہتے ہیں۔ اور یہ نشئی مواد سرکاری جگہوں سے آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پشتونخواملی عوامی پارٹی نے اس قوم اور اس خطے کی چوکیداری کا بیڑا اُٹھایا ہے اور مشر محمود خان اچکزئی نے اسمبلی کے فلور پر اپنے سر کی پرواہ کیئے بغیر ظالم جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہتے رہے ہیں اور پشتونوں کے حقوق سمیت محکموم قوموں کے حقوق اور آئین کی بالادستی، پارلیمنٹ کی خودمختاری، جمہور کی حکمرانی کی بات جراتمندانہ انداز میں کی ہے اور ہم سب یہ کام تادم مرگ کرتے رہینگے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں کے فیصلے تو ایسے ہیں کہ ملک کے جمہوری وزیر اعظم بھٹو کو پھانسی دیدی گئی اور برسوں بعد عدالت کا فیصلہ آیا کہ یہ غلط ہوا۔ یہ کوئی انصاف والا ملک نہیں رہا بلکہ یہ ایک جنگل کی طرح بنتا جارہا ہے جہاں جنگل کا قانون ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی پشتونخوا کے پشتون تیسرے درجے کے شہری کے طور پر زندگی گزاررہے ہیں کیونکہ ارباب اقتدار وارباب اختیار بلوچ ہیں اور صوبے کی تمام وزارتوں اور بجٹ پر قابض ہیں۔ پشتونوں کو ایک بہن کی حیثیت کا حصہ بھی نہیں دیا جارہا ہے۔ صرف دو وزراء پشتون ہیں آج ایک بچہ تو کیا پارلیمنٹ کے ممبر بھی اغواء ہورہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم چمن کے مسئلے پر کیسے خاموش رہ سکتے ہیں جہاں لوگوں، انسانوں کو دو وقت کی روٹی سے محروم کیا گیا ان کی جائز کاروبار چھین لی گئی۔ ان پر غیر آئینی، غیر قانونی فیصلے مسلط کیئے گئے۔ انہیں اپنی زمینوں، اپنی قبرستانوں میں جانے سے روک دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے چمن ماسٹر پلان کی بنیاد رکھی تھی جو کہ یہاں کے عوام کے لیے بہت بڑا کام تھا لیکن کچھ لوگوں نے بدنیتی کی بنیاد پر اس عوامی میگا منصوبے کے دوسرے فیز کے لیے بجٹ میں رقم نہیں رکھی جو کہ سراسر چمن کے عوام کے ساتھ دشمنی ہے کیونکہ یہ ڈاکٹر حامد کی ذاتی ملکیت نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ اب ہم سب نے ہمت کرنی ہوگی اور اپنی حالت خود بدلنے کے لیے قدم اٹھانے ہوں گے۔