یوسف عزیز مگسی بلوچ قوم کے عظیم محسن

:عمران رزاق بلوچ

	اگر تا ریخ کے اوراق کو پلٹ کر اُن کا بغور عمیق اوردقیق مشاہدہ کیا جائے تو شاید چند ہی ایسے افراد ملیں گے جنھوں نے حقیقی معنوں میں اپنے قوموں کی خاطر کچھ کرنے کے لیے اپنی مال،دولت،رشتہ داری،دوستی حتی کہ اپنی ہستی تک کی پرواہ نہیں کی اور اپنی جان تک قربان کیا۔ بلوچوں کی تاریخ میں یوسف عزیز مگسی کا شما ر بھی ایسے ہی حقیقی لوگوں میں ہوتاہے۔ وہ بلوچ قوم کے محسن تھے،شاید سب سے عظیم اور بڑے محسن تھے۔ورنہ بہت سے بے چارے اورنالائق لوگ قوم پرستی کے شیریں نام پر مفت میں نامدار ہو کر بدنام ہیں۔ 

نواب یوسف عزیز مگسی اپنے وقت کے مگسیوں کے سربراہ نواب قیصر خان مگسی کے گھر میں (1907) میں پید ا ہوئے۔یہ ایک ایسا دور تھا کہ انگریزی استعما ر بلوچستان سمیت پورے متحدہ ہندوستان پر راج کر رہا تھا۔بلوچستان میں اُس وقت خان قلات کی خانیت تو تھی،لیکن وہ براے نام ہی خان قلات تھے۔ در اصل یہاں حقیقی والی اور حکمران انگریز ہی تھا۔یوسف نے اپنی بچپن اپنے علاقوں کے کھیتوں کھلیانوں پگڈنڈیوں سے اور مٹی  کے کھیلوں سے کھیلنے سے شروع کیا۔ اوراپنے اُ ستادوں سے تعلیم اور گیان حاصل کرنے کے بعد، اپنی شعوری نظروں سے  بلوچستان کے عوام کی بے چارگی، پس ماندگی،غلامی دیکھی۔اُس کو اپنے قوم کے اس حالت پر بہت رنج ہوا اور اس کو ختم کرنا ہی اُس نے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔وہ اس  مقصد کے حصول کے لئے اتنے مصروف ہوگے کہ صرف بلوچستان اور ا س کے عوام کے ہو گے۔سچ تو یہ ہے کہ یوسف نے جب علمی معنوں سے اپنی آنکھیں کھولیں تو اس نے اپنے آپ اور اپنے قوم کو انگریزوں کے  پنجرے میں پایا۔انگریز ہر چیز پر قابص تھے۔  غُلامی کی یہ عالم تھا کہ اجتمائی آزادی اپنی جگہ، شخصی آزادی بھی بس ایک خواب تھا۔ انگریز نے ایسے ایسے پابندیاں عائد کی تھیں کہ یقین نہیں آتا۔اخباروں اور رسالوں کے چاپنے پر بلوچستا ن میں پابندی توتھی ہی اس کے علاوہ سندھ ودوسرے جگہوں سے  بلوچستان آنے والے اخبارات  پربھی  پابندی تھی۔ حتی کہ اُس زمانے میں بلوچستان میں اخبارات  پڑھنے پر بھی پابندی تھی۔

  ایسے ماحول میں یوسف نے اپنے قوم کی طرف نظر دوڑائی تو اُسے سمجھ میں نہیں آیا کہ قوم کی نجات کا راستہ کہاں سے شروع  کروں۔ قومی تعلیم سے،مقامی ظالم اور جابر جاگیرداروں،نوابوں،سرداروں سے،یا قبضہ گیرا نگریزوں سے ٓازدی کی جد وجہد سے۔
لیکن آخرکا ر اُس نے را ستہ نکالا کہ اُس نے ان تینوں مقصدو ں پر ایک ساتھ کام کرناشروع کیا ۔یہی سے یوسف کہ شخصیت کے اصل(بُنیادی) پہلو اور دوسرے (ثانوی)پہلو ظاہر ہونا شروع ہوئے۔،لیکن اُس کا  اصل اور اہم مقصد انگریزوں سے آزادی تھی۔کیونکہ اُ ُس کو اس بات کا ادراک تھا کہ یہ سارے مسلے ایک دوسرے سے جڑے ہوے ہیں۔ اپنے قوم کی بہتری میں دن رات کام کرنے والے یوسف کے شخصیت جو جو پہلو سامنے آئے ہیں اور جو میں نے محسو س کیے ہیں اس مضمون میں ہم اس عظیم بلوچ پُسگ کی شخصیت کے ان ہی پہلوں کا جائزہ  لیں گے۔

نواب یوسف علی خان عزیز مگسی حقیقی معنوں میں ایک  ماہر عمرانیا ت (سماجیات دان) Sociologist اور  ما ہر انسانیت(بشریات دان)Anthropologist تھے۔ وہ چیزوں اور واقعات کا سماجی انداز میں مطالعہ کرتے اور عمرانی بنیادو ں پر اُن کا حل تلاش کرتے۔ چونکہ وہ ایک نواب خاندان سے تھے اور جدی پشتی نواب زادے اور جاگیر دار تھے۔اس لیے جتنا بغور، اُس نے کسانوں اور بے چارے مزدوروں،دھقانوں کی زندگیوں کا مشاہدہ کیا شاید ہی کسی اور نے کیا ہوگا۔ کیونکہ اُس کا زیادہ تر وقت ان ہی  لوگوں کے ساتھ،ان ہی کے درمیان ہی گزرتا تھا۔ اُن کے گھر میں ہر کام یہی لوگ کرتے تھے،کھیتوں میں بھی یہی لوگ تھے جو سارا سال کام کرتے تھے کبھی کھیتوں میں ہل چلاتے ہوئے،کبھی فصلوں کو پانی دیتے ہوئے،کبھی تیار فصلوں کو کاٹتے، تو کبھی تیار مال کو صاف کرتے ہوئے۔لیکن اُن کے اتنے محنت کے بدلے انُ کو کیا ملتا تھا۔دو  وقت کی روٹی (پیٹ بھر کے بھی نہیں)،اور ہر سال اُن کے قرضوں میں اضافہ در اضافہ جس کے نتیجے میں،نسل در نسل غلامی۔ وہ یہ سب کچھ وہ اپنی انکھوں سے دیکھتا آ رہا تھا۔اور جس بات نے یوسف کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچائی وہ نوابوں،سرداروں اور جاگیرداروں کہ اس کلاس سے رویہ تھا،وہ ان کو اپنے برابر تو دور کی بات ان کو انسان تک نہیں سمجھتے۔بات بے بات پھر مارنا،گالی دینا،کتوں جیسا سلوک کرنا،بے عزت کرنا، اور اس جیسے اور بھی بے شمار ظلم کو وہ ان پر اپنا  حق خیال کرتے تھے۔یوسف عزیز نے ماہر عمرانیا ت کی طرح اس مسلے پر  سوچ و بچار کیا   اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اس مسلے کا جڑ روزگار  یعنی اقتصادی ہے  ان کے پاس اپنے زمیں نہیں ہیں اور یہ دو وقت کی رورٹی کیلے  یہ طاقتوروروں  کے محتاج ہیں اور اُ نکے  جسمانی اور روحانی ازیت کو برداشت کرتے ہیں۔اور اگر ان کے روزگار کا مسلہ حل کیا جاے تو یہ محتاجی اور ظلم اور تعدی سے ٓازاد ہوں گے۔  اور اس زمانے میں روزگار کا اصل اور بنیادی محور زمین تھا ا ور اُن پر جاگیردار اور سردار سنڈیمنی ں نظام کے تحت قابص تھے۔  اس لیے  یوسف  عزیز  زندگی بھر ان لوگوں میں عظیم روسی ناول نگار کاونٹ لیو ٹالسٹا ئی  کی طرح نہ صرف مفت زمیں تقسیم کرتے رہے بلکہ ان کے ذ مے قرضے جو  صدیوں سے چلے ارہے تھے  اور نسل در نسل منتقل ہوئے تھے بھی ختم کیے۔  ہالنکہ اس  اُس کے اپنے قریبی دوست،رشتہ دار عزیز ناراض ہوئے  اور یوسف کو منع کی پھربھی یوسف کا فیصلہ نہ بدلہ وہ انصاف اور احسان مرتے دم تک کرتے رہے۔

 یوسف کی شخصیت میں ایک ماہر تعلیم  (Educationst)بھی مخفی تھا۔یوسف  چونکہ دانشور  تھے اور اس نے ہندوستان کی غلامی کے اسباب کا مطالعہ کیا تھا کہ کس طرح وہاں کے ناداں،نا خواندہ، عوام  کو انگریز جھوٹ فریب اور مکاری  سے دھوکہ دیتا رہا  بے علمی کی وجہ سے انگرزیز ان کو تقسیم درتقسیم کرتا رہا اوریکے بعد دیگرے  ہندوستانی ریاستوں پر  قابص ہوتا گیا۔ اور  پھروہ اس بات سے اشنا تھا کہ کس طرح ایک لمبی غلامی کے دوران  وہاں کے لوگوں کیلے تعلیمی ادارے بنتے گے جن میں حصول تعلیم کے بعد  ہندوستانی عوام میں جو فکری تبدیلی ائی تھی۔  جسں کی وجہ سے اُن میں سامراجیت اور غلامی سے نفرت اور اپنی  ملک کی  آزادی  کے لیے جوش و جزبہ  پیدا ہوا تھا۔اور پھر یوسف اپنے دور میں خود ھندوستان میں رہا تھا  اور اس نے وہا ں کے خواندوہ اور تعلیم یافتہ سیاسی،سماجی لوگوں اور رہنماوں میں  تعلیم کے برکت سے آزادی کے لیے پیدا ہونے والے فکر ی مضبوتی کو بھی محسوس کیا تھا۔  اس لیے یوسف نے بلوچستان  میں بھی  آزادی کی خاطر تعلیم کو ہتھیا ر جاننا،کیونکہ یوسف جانتا تھا کہ تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے لیس ہوکر عو ام  نہ  صرف  اپنی  بے چارگی اور پس مندگی  کا احساس کرکے مقامی زور اوروں  کے خلاف نفسیاتی اور روحانی  طور پر مضبوط ہو کر اپنی عزت، روزگار مساوات،اور حق کیلے  جد ہ جہد کریگا بلکہ وہ  اپنے مادر وطن کے غلامی کا احساس کرکے ا نگریزوں سے آزادی بلوچستان کے لیے ایک  شعوری اور بار اور کوشش بھی کر سکے گا۔

ان مقاصد کے حصول کیلے  یوسف نے وہ کا م کیے  جومیرے خیال کے مطابق  جان جیک روسو،Rossuee)،پاپا پستالوزی  Pastalozi)  جیسے عظیم ماہر تعلیم اور انقلابی سمیت کسی بھی  دوسرے ماہر تعلیم نے نہیں کیے۔۔ (تعلیمی عمرانیاتEducational Sociology)کے بانیوں میں شمار ہونے والے  جان ڈیوی  John Davviکے خدمات بھی  تعلیم اور تعلیمی عمرانیات کے لیے بھی اتنے نہیں ہیں جتنے اس یوسف نام والے شخص نامی ادارے کے ہیں۔ پورے بلوچستان میں یوسف نے تیں سو سے زیادہ  اسکول بچوں کے لے  اپنے خرچے پر تعمیر کروائے۔ بلکہ ان اسکولوں کے جگہ بھی اپنے زمینوں پر فراہم کیے۔ اور جہا ں جہاں  اسکولوں کی ضرورت تھی اور اپنی زمینیں نہ تھی وہاں اس مرد شعور نے  اپنے  جیب سے  زمیں کی قیمت ادا کیااور  اسکول تعلیم کروایا۔ اسُ نے مرتے دم تک ان اسکولوں کو اپنے جیب سے چلایا حتی کہ ان میں پڑھانے والے استادوں کا تنخواہ اپنے جیب سے ادا کرتے رہے۔اور بچوں کی تعلیمی ضرورتیں  بھی خود پورا کرتے رہے۔ اگر یوسف بلوچستاں کے بجائے امریکہ یا یورپ میں ہوتے تو اس وقت تعلیمی عمرانیا ت اور تعلیم کے بانی شمار ہوتے۔

یوسف   انسانی نفسیا ت  سے بھی اچھی طرح واقف تھے۔  جب اُ س نے محسوس کیا کہ لوگوں میں تعلیم کے حوالے سے خوف اور ڈر ہے تو اس نے  خود  جا کر اُن سے اس معاملے پربات کی اور ان کہ شک اور ابہام دور کیا  او ر ان کو راضی کیا کہ بچوں کو اسکول میں داخل کر دیں۔  اگر  وہ چاہتا تو وہ ایک حکم نوابی دیتا کہ بچے اسکول اجائیں  اور کوئی انکار بھی نہیں کرتا۔لیکن وہ شعور دے کر شعور لانے کائل تھا۔

اور ویسے بھی اُس نے اپنی پوری زندگی(مختصر) میں صرف ایک حکم نوابی دیا تھا  اور کیا  خوب صورت حکم دیا تھا۔  جو کسی بھی نواب،سردار زمندار،جاگیردار،لارڈ،بیگ،ڈیوک نے نہیں دیا  ہے  اور نہ ہی کسی فلاحی  اور تعلیمی حکومت  اور ریا ست نے  عوام میں تعلیم عام کرنے کیلے ایسا حکم  د یا ہے۔(وہ لوگ جو اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھجتے ہیں انُ کو میں جیل میں ڈال دوں گا)یہ حکم مگسی نے اس لیے دیا تھا کہ کچھ لوگ اپنی بچوں سے بیدردی سے محنت کرواتے تھے اور خود  آرام کرتے تھے  اور بچوں کے سکول میں جانے کی وجہ سے یہ ساراکام  پھرا ن کو  خود کرنا پڑھتا۔لیکن مگسی صاحب نے آن کو یہ اجازت دی اور  ان کے بچے بھی سکول داخل کروادیے۔

 یوسف عزیز کی شخصیت نہایت خوبصورت تھی  وہ عام سے انسان تھے نوابی والے شوق و شان سے اُس کو نفرت تھی۔اسی وجہ سے اس نے  اپنے نام کے آگے نواب کو ہمیشہ ہمیشہ ختم کردیا اور اصل بلوچی لبز خطاب میر قبول کیا۔اور کھلم کھلا کہا کہ میرے نام کو نواب یوسف عزیز مگسی کے بجائے میر یوسف عزیز بلوچ لکھا جائے۔یعنی برداری اور ذات (انفرادیت)کا دامن بھی چھوڑکر بلوچیت(اجتمایت) کی طرف آئے۔ مزاج کے اعتبار سے یوسف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سخت نرم تھے پھر کافی جرت مند اور دلیر تھے فریاد بلوچستان نامی مضمون اُس دُور کے حساب سے ایک جنگی محاز سے کم نہ تھی اور جس کے نتیجے میں یوسف نے جیل بھی خوشی سے سہہ لی۔ 

یوسف عزیز مگسی کی شخصیت میں ایک عظیم شاعر بھی تھا جس کا ذکر ہم کسی اور مضمون میں کسی اور دن کریں گے۔یہ نہ صرف یوسف عزیز اوربلوچ قوم کی بد قسمتی تھی بلکہ اسے پورے خطے کی بدقسمتی تھی کہ یوسف لندن سے آتے ہی کوئٹہ کے اس عظیم زلزلے میں لقمہ اجل بن گئے اور بلوچ قوم کو بیچ منجدار میں چھوڑ گے وہ بلوچ  عوام کے سامنے سہی طور پر اپنا اصولی موقف بھی پیش نہ کرسکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں