مشرق وسطیٰ میں طوفان
انور ساجدی
صدر ڈونلڈٹرمپ نے امریکی وقت کے مطابق جمعرات کی صبح عالمی سیاست پر باالعموم اور مشرق وسطیٰ کی سیاست میں بالخصوص ایک بم شیل گرادیاان کے اعلان نے بحیرہ روم بحیرہ عرب اور ساری دنیا میں ایک ارتعاش پیدا کردیا صدر ٹرمپ نے اچانک میڈیا کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل ایک معاہدے پر متفق ہوگئے ہیں جس کے تحت امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے ٹرمپ کے اعلان کا مقصد نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں زیادہ سے زیادہ حمایت کا حصول ہے کیونکہ رائے عامہ کے تمام جائزوں کے مطابق ان کے مدمقابل ڈیموکریٹ پارٹی کے امیدوار جوبائیڈن کو نمایاں سبقت حاصل ہے اس تاثر کو زائل کرنے کیلئے ڈونلڈٹرمپ نے بلا کی چال چلی ٹرمپ ہار ماننے اور باز آنے والی شخصیت نہیں ہیں وہ پولنگ سے قبل ایک دو اور بھی معجزے دکھانے والے ہیں اس سلسلے میں ان کے سعودی عرب سے خفیہ مذاکرات جاری ہیں وہ شاہ سلمان اور ان کے ولی عہد شہزادہ محمد کو قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ انتخاب سے پہلے ان کی مدد کریں یعنی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں ان کے خیال میں اس انقلاب آفرین فیصلے کے بعد ان کی جیت یقینی ہوجائے گی یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ ولی عہد محمد اسرائیل کیلئے پسندیدگی رکھتے ہیں شہزادہ کا وژن ہے کہ تیل کی وقعت ختم ہونے کے بعد سعودی عرب کو جن معاشی زبوں حالی کا سامنا کرنا پڑے گا سارے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل واحد ریاست ہے جو اس کے کام آسکتا ہے دوسری طرف اسرائیل کی بھی شدید خواہش ہے کہ دو اسلامی ممالک سعودی عرب اور پاکستان اسے تسلیم کریں اسرائیل کے خفیہ تھنک ٹینکس کا خیال ہے کہ اس کے بعد ہی سارے مشرق وسطیٰ پر صیہونی غلبہ ممکن ہوجائے گا شہزادہ محمد کے آنے کے بعد اسرائیل سے وقتاً فوقتاً خفیہ مذاکرات ہورہے ہیں جن کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ تعلقات قائم ہوئے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ سال بھارت کے اسرائیل جانے والے جہازوں کیلئے سعودی عرب نے اپنی فضائی حدود کھول دیں جبکہ کئی طیاروں کو اپنے ہوائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت بھی دیدی سعودی عرب اسرائیل کی ٹیکنالوجی معاشی ترقی سائنس اور طب میں پیش رفت سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اس سلسلے میں انڈیاکی مثال سامنے ہے اسرائیلی ماہرین زراعت نے بھارت میں عقل سے ماوریٰ زرعی انقلاب برپا کردیا ہے انڈیا اس وقت ایشیاء کا فروٹ باسکٹ بن گیا ہے اور انگور کی پیداوار میں دنیا کا نمبر 2 ملک بن گیا ہے اور تو اور کھجوروں کی پیداوار کے لحاظ سے بھی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اس کے علاوہ بھارت اسرائیل کی جنگی ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ کررہا ہے مستقبل میں سعودی عرب اسرائیلی جنگی ہتھیار مؤثرڈرون ٹیکنالوجی رات کو دیکھنے والے آلات اور جنگی حکمت عملی سے نہ صرف فائدہ اٹھائے گا بلکہ اس کا سب سے بڑا خریدار بن جائے گا اسرائیل اور سعودی عرب اس لئے قریب آنا چاہتے ہیں کہ خطے میں ان کا مشترکہ دشمن ایران ہے کیونکہ ایران حزب اللہ کی صورت میں اسرائیل کی سرحد پر بیٹھا ہوا ہے اور وہ کسی وقت بھی صیہونی ریاست کو نقصان پہنچا سکتا ہے چند روز قبل بیروت پورٹ کو جس بھیانک حملے کے ذریعے تباہ کیا گیا لبنانی حکام کا شک ہے کہ یہ اسرائیلی کارستانی ہے کیونکہ ایران بیروت پورٹ کے ذریعے حزب اللہ کو جنگی ساز و سامان فراہم کرتا تھا بیروت پورٹ کی تباہی کے بعد حزب اللہ کو سپلائی بند ہوگئی ہے جس سے فائدہ اٹھاکر اسرائیل اس پر حملہ کرسکتا ہے۔
سعودی ولی عہد کی ضد ہے کہ وہ ہر قیمت پر ایران کو تباہ کرکے مشرق وسطیٰ کی سیاست سے نکال دیں گے اس مقصد کیلئے وہ امریکہ کے ساتھ اسرائیل کی ٹیکنالوجی اور جنگی مہارت سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اسرائیل کافی عرصہ سے ایران اور لبنان میں پراسرار واقعات برپا کررہا ہے وہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کرچکا ہے جبکہ کئی ممالک کے اہم مقامات کو آگ لگاچکا ہے سعودی عرب جانتا ہے کہ وہ اکیلے ایران کو تباہ نہیں کرسکتا اس کیلئے اسرائیل کی مدد کی ضرورت ہے یہ جو عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے یہ ایک ٹریلر ہے اصل فلم اس وقت چلے گی جب سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرے گا ایک خدشہ یہ ہے کہ سعودی عرب پاکستان پر دباؤ ڈالے گا کہ وہ اس کی تقلید کرے تاکہ اس کا وزن بڑھ جائے لیکن پاکستان کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ سعودی عرب کی طرح شخصی سلطنت نہیں ہے یہاں برائے نام سہی جمہوری نظام قائم ہے جب کہ غیر مؤثر سہی ایک پارلیمنٹ بھی وجود رکھتی ہے سیاسی جماعتیں کام کررہی ہیں اگر پاکستانی حکومت نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تو پاکستان کے جذباتی لوگ سڑکوں پر آجائیں گے اور ایجی ٹیسن شروع کردیں گے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ جنرل پرویز مشرف نے 2003 میں واشنگٹن ڈی سی میں دیا تھا لیکن فیصلہ کرنے کی جرأت نہ کرسکے اگرچہ عمران خان دل سے چاہتے ہیں کہ پاکستان اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرے لیکن وہ اکیلے یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کیونکہ اتنے بڑے فیصلے کا انہیں اختیار نہیں ہے اگر کبھی یہ فیصلہ کیا گیا تو طاقتور مقتدرہ کرے گی مشرف کے وزیر خارجہ میاں خورشید محمود قصوری باقاعدہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے دلائل دیتے تھے ان کا کہنا تھا کہ ترکی پہلا اسلامی ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا اس کے بعد سب سے بڑے عرب ملک مصر نے 1978 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کے تحت اسرائیل کو تسلیم کیا اس کے بعد ایک اور فریق اردن نے بھی تسلیم کیا حالانکہ 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے دریائے غرب اردن مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی کے علاقے اردن سے چھینے تھے اس کے بعد 1995 میں خود فلسطین نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا اس سے پہلے صدر کلنٹن کی میزبانی میں یاسر عرفات اوراسرائیلی وزیراعظم اسحق ربین کے درمیان ایک امن معاہدہ پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت غرب اردن اور غزہ کی پٹی سلیف رول کیلئے پی ایل اوکے حوالے کئے گئے تھے خورشید قصوری کے مطابق جب عرب ممالک نے خود اسرائیل کو تسلیم کیا ہے تو کیوں نہ پاکستان بھی اسے تسلیم کرے جو براہ راست اس تنازعہ کا فریق نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات خراب ہوگئے تھے جنہیں دوبارہ بحالی کیلئے دونوں ملک سرگرم ہوگئے ہیں سعودی عرب کی یہ لالچ ہے کہ شائد پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فیصلے میں اس کا ساتھ دے عین ممکن ہے کہ پاکستان کو مالی امداد اور قرضوں کی ترغیب بھی دی جائے لیکن پاکستانی حکمران جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا تو ان کا بوریا بستر گول ہوجائے گا۔
عرب امارات سے سفارتی تعلقات کا قیام اسرائیل کی بڑی کامیابی ہے کیونکہ اسرائیل کو تیل اور گیس کے حصول کیلئے سخت مشکلات کا سامنا ہے اس وقت وہ کردوں سے تیل خرید نے پر مجبور ہے جبکہ تعلقات کے بعد وہ اپنی ضرورت کا تیل اور گیس عرب امارات سے خرید سکے گا جس سے اس کی معیشت کو مزید فروغ ملے گا اسرائیلی شہریوں کے دوبئی آنے سے سیاحت کو بھی کافی فروغ ملے گا لیکن جو اسرائیل کے دشمن ہیں وہ دوبئی کو اتنے بڑے فیصلے پر کبھی معاف نہیں کریں گے وہ خدانخواستہ امارات سے بیروت جیسا بدلہ بھی لے سکتے ہیں جبکہ امارات میں ایسے حملوں کے سہنے کی سکت نہیں ہے اگر دوبئی ایک بار تباہ ہوا تو دوبارہ اس کا آباد ہوجانا مشکل ہے اسی طرح اگر سعودی عرب نے اسرائیل سے تعلقات قائم کئے تو اس کی مشکلات میں اضافہ ہوگا ریڈیکل اسلامی گروپ ایک نیا محاذ کھولیں گے سعودی عرب کو داخلی انتشار کا سامنا بھی کرنا پڑے گا اس کی شیعہ اکثریت بغاوت بھی کرسکتی ہے جب داعش اخوان اور دیگر گروپ سراٹھائیں گے ایران اس کے خلاف مزید محاذ کھولے گا اور اسے امہ میں تنہا کرنے کی کوشش کرے گاخود شاہی خاندان کے اندر مزید بغاوتیں ہونگی جس کے نتیجے میں سعودی بادشاہت کو خطرات لاحق ہوجائیں گے مخالف طاقتیں سعودی عرب کو چاروں طرف سے گھیرنے کی کوشش کریں گی ایک طرف شام و لبنان دوسری جانب حماس اور حزب اللہ اس کے خلاف اعلان جنگ کریں گی جبکہ ایران اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھائے گا اس طرح یہ فیصلہ بالآخرایک گھاٹے کا سودا ثابت ہوگا اسرائیل کو اس وقت تسلیم کیا جانا چاہئے جب وہ فلسطینی ریاست قائم کرکے دیدے اور فلسطینی عوام کے جینے کا حق تسلیم کرلے اس کے بغیراسے تسلیم کرنا محض زیادتی ہے فلسطینی صدر محمود عباس نے امارات کے فیصلہ کو دھوکہ دہی اور بے وفائی سے تعبیر کیا ہے ایران نے اسے شرمناک قرار دیا ہے شام نے اسے خودکشی کا نام دیا ہے بہرحال اس کے باوجود امارات کا فیصلہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے ایک اہم فیصلہ ہے جس کے دوررس نتائج برآمد ہونگے جو آمریتوں کیلئے تباہی کا باعث بھی بن سکتا ہے دونوں صورتوں میں پاکستان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ لاکھوں پاکستانی امارات سعودی عرب اور قطر میں مقیم ہیں جو زرمبادلہ بیچنے کے سب سے بڑے ذرائع ہیں اگر ان ممالک میں عدم استحکام پیدا ہوا تو بھی پاکستان متاثر ہوگا یا سعودی عرب اور امارات نے مل کر پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ بھی اسرائیل کو تسلیم کرلے تو اس کے اثرات بھی پڑیں گے کیونکہ پاکستان کو امداد دینے والے ممالک یہی دو ہیں۔
٭٭٭


