بلوچستان میں چائلڈ لیبر، خوابوں کے قاتل حالات اور ہماری اجتماعی بے حسی

تحریر: میر بہرام لہڑی
ہر سال 12 جونکو دنیا بھر میں چائلڈ لیبر کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد بچوں سے جبری مشقت کے خلاف آواز اٹھانا، انہیں تعلیم کی طرف راغب کرنا اور محفوظ و خوشحال بچپن کے امکانات کو اجاگر کرنا ہے۔ اس دن کی بنیاد 2002ء میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) نے رکھی، اور تب سے یہ دن دنیا بھر میں ہر سال منایا جاتا ہے۔ *2025 میں اس دن کا تھیم ہے: "اجرتیں اور کام کی شرافت، مزدوروں کی صحت و تحفظ، اور سماجی انصاف۔بدقسمتی سے، پاکستان کا سب سے بڑا لیکن سب سے پسماندہ صوبہ بلوچستان اس مسئلے کا سب سے سنگین شکار بن چکا ہے۔ *بلوچستان کا تاریک چہرہ: اعداد و شمار کی زبان میں*2017 کی مردم شماری کے مطابق بلوچستان میں *18 سال سے کم عمر بچوں کی تعداد 40 لاکھ* تھی، جبکہ سالانہ آبادی کی شرح نمو 3.2% کے مطابق اب یہ تعداد *50 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ انہی میں سے *29 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ان بچوں کے لیے نہ تعلیم ہے، نہ تحفظ، نہ خوراک، نہ صحت – بلکہ اکثر کے نصیب میں کوئلے کی کان، ورکشاپ، ہوٹل، شاپنگ مال، یا مچھلی پکڑنے والی لانچ میں روزانہ کی کڑی مشقت ہے۔ہر روز ہم کوئٹہ اور دیگر شہروں میں ایسے بچے دیکھتے ہیں جو اپنے ننھے کندھوں پر گھریلو غربت، ریاستی غفلت، اور سماجی بے حسی کا بوجھ اٹھائے مزدوری کرتے ہیں۔ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب بلوچستان حکومت کے اپنے لیبر ڈیپارٹمنٹ نے 2023 سے ایک سروے شروع کیا، جس کی رپورٹ آج تک منظرِ عام پر نہیں لائی گئی۔ کیا چائلڈ لیبر سروے ایک دھماکہ ہے؟سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ رپورٹ شائع کی جائے تو بہت سے حقائق اور ریاستی ناکامیاں سامنے آئیں گی، جس سے حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھیں گے۔ اس پر نیشنل کمیشن برائے چائلڈ بلوچستان کے رکن عبدالحئی بلوچ نے واضح الفاظ میں کہا کہ حکومت نے اگرچہ 2021 میں چائلڈ لیبر کے قوانین منظور کیے، لیکن ان پر عمل درآمد مکمل طور پر غیریقینی ہے۔ سروے کی عدم دستیابی اس مسئلے پر بات کرنے کی بھی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ قدرتی آفات اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال: بچوں پر دہرا عذاب2020 میں کورونا وائرس کی وبا، 2022 کے تباہ کن سیلاب، حالیہ قحط سالی اور امن و امان کی غیر یقینی صورتحال نے بلوچستان کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان حالات میں غربت کی شرح بڑھتی جا رہی ہے اور ریاستی سطح پر نہ کوئی Child Welfare Roadmap ہے، نہ کوئی مربوط پالیسی۔آج بھی پورے بلوچستان میںصرف کوئٹہ میں ایک Child Protection Unit ہے، جو اس پورے صوبے کے بچوں کے تحفظ کے لیے بالکل ناکافی ہے۔ ریاستی ترجیحات میں بچے کہاں ہیں؟سینئر صحافی میر بہرام بلوچ نے اس معاملے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: "چائلڈ لیبر حکومت بلوچستان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں، بجٹ میں ایک فیصد بھی چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے مختص نہیں کیا جاتا۔ قانون میں جو کمیٹیاں بننی تھیں وہ بھی میرٹ پر نہیں بنیں، ان میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا جن کا بچوں کے مسائل سے کوئی واسطہ نہیں۔”یہ رویہ صرف لاپرواہی نہیں بلکہ نسلوں کے مستقبل سے کھلواڑ ہے۔ڈی جی لیبر کا مؤقف: امید کی کرن یا وقت گزاری؟ڈی جی لیبر بلوچستان بشیر احمد شاہوانی کے مطابق چائلڈ لیبر سروے کی رپورٹ بہت جلد، آئندہ 10 دنوں میں جاری کی جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سروے کے ابتدائی نتائج کے مطابق بلوچستان میں بچوں کی کل آبادی کا 3.6 فیصد حصہ چائلڈ لیبر میں ملوث ہے۔ اگر ہم موجودہ اندازوں کے مطابق بچوں کی کل تعداد 50 لاکھ مان لیں تو یہ شرح تقریباً 1 لاکھ 85 ہزار بچوں پر محیط ہو سکتی ہے — جو ایک تشویشناک حقیقت ہے۔ڈی جی لیبر نے مزید وضاحت کی کہ:* 14 سال سے کم عمر بچے کسی بھی قسم کی مزدوری کے اہل نہیں ہیں۔* 14 سے 18 سال کی عمر کے بچے مخصوص اور غیر خطرناک نوعیت کے کام کر سکتے ہیں۔* 18 سال سے کم عمر بچوں کو سخت یا خطرناک مشقت سے محفوظ رکھنا قانوناً لازم ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کا محکمہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے وژن کے مطابق یونیسف کے ساتھ مل کر ایک چائلڈ رائٹس روڈ میپ پر کام کر رہا ہے تاکہ ہر بچے کو تعلیم، صحت اور تحفظ کی سہولیات میسر آئیں۔ کیا کرنے کی ضرورت ہے؟بلوچستان میں چائلڈ لیبر کا خاتمہ صرف ایک قانون یا ادارے سے ممکن نہیں بلکہ ایک جامع، مربوط اور مسلسل حکمت عملی سے ہی یہ ناسور ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں:1. چائلڈ لیبر سروے کی رپورٹ فوری جاری کی جائے تاکہ حقائق سامنے آئیں۔2. صوبائی سطح پر چائلڈ پروٹیکشن یونٹس تمام اضلاع میں قائم کیے جائیں۔3. مخصوص بجٹ چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے مختص کیا جائے۔4. سکولوں کی حالت بہتر بنائی جائے تاکہ بچے مزدوری کے بجائے تعلیم کی طرف آئیں۔5. بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کو ریاستی سطح پر سپورٹ فراہم کی جائے۔6. والدین میں شعور بیدار کیا جائے کہ بچوں کی مشقت وقتی فائدہ تو دے سکتی ہے، لیکن یہ ان کے مستقبل کو تاریک بنا دیتی ہے۔ نتیجہ: ایک لمحہ فکریہبچے قوم کا مستقبل ہیں۔ اگر ہم انہیں آج مشقت میں جھونک دیں گے تو کل وہ یا تو جرم کی دنیا میں ہوں گے، یا پھر احساسِ محرومی کے ساتھ ریاست سے بدظن شہری بنیں گے۔ بلوچستان جیسے حساس صوبے میں چائلڈ لیبر کا مسئلہ صرف ایک سماجی مسئلہ نہیں، بلکہ قومی سلامتی، تعلیمی پسماندگی، اور معاشی بحران کا آغاز بھی یہی ہے۔آئیے! ہم سب مل کر عہد کریں کہ نہ صرف 12 جون کو بلکہ ہر دن بچوں کی آزادی، تعلیم، صحت، اور محفوظ بچپن کے لیے کام کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں