عوامی نیشنل پارٹی سندھ: مفاد پرستی، غیر آئینی رویے اور پختون کارکن کی بے دخلی، ایک فکری المیہ
تحریر: شیرین خان مندوخیل
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) بابائے امن باچا خان اور خان عبد الولی خان کے نظریاتی قافلے کا تسلسل ہے۔ اس جماعت کی بنیاد عدم تشدد، عوامی حقوق، جمہوریت، آئین اور پشتون قوم کی بیداری پر ہے۔ مگر بدقسمتی سے اے این پی سندھ برسوں سے ایک ایسی راہ پر گامزن ہے جہاں نظریہ کمزور، مفاد مضبوط، اور تنظیمی اصول پسِ پشت ڈال دیے گئے ہیں۔
سندھ میں پارٹی کی قیادت اور تنظیمی ڈھانچہ مسلسل مخصوص افراد، ٹولوں اور عہدہ پرستوں کے قبضے میں ہے۔ نہ صرف تنظیمی فیصلے غیر آئینی انداز میں کیے جا رہے ہیں، بلکہ باچا خان مرکز جیسے تاریخی ادارے کو صرف تصویری نشستوں اور مخصوص چہروں کی نمائش کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
آئین کی خلاف ورزی اور تنظیمی بگاڑ
عوامی نیشنل پارٹی کا آئین واضح طور پر تنظیم سازی، انتخابات، احتساب اور شفاف قیادت کے اصول طے کرتا ہے۔ وارڈ سے لے کر صوبائی سطح تک تمام عہدیداروں کا انتخاب شفاف انتخابات کے ذریعے ہونا چاہیے۔ مگر سندھ میں یہ عمل کئی برسوں سے ایک بند کمرے کی سازش بن چکا ہے۔
پارٹی آئین کا احترام نہ صرف کارکنوں کا حق ہے بلکہ قیادت کی ذمہ داری بھی ہے۔ اگر کسی صوبائی تنظیم میں انتخابات محض دکھاوا ہوں اور فیصلے چند چہروں کے درمیان بانٹ دیے جائیں تو وہ تنظیم عوامی نہیں، خاندانی جاگیر بن جاتی ہے۔
باچا خان مرکز …. صرف مخصوص طبقے کے لیے؟
باچا خان مرکز سندھ، جو ایک تربیتی، فکری اور تنظیمی مقام ہونا چاہیے، آج عام کارکن کے لیے بند اور فوٹو سیشنز کے لیے کھلا ہے۔ وہاں صرف منظورِ نظر افراد کو رسائی حاصل ہے۔ کیا یہ مرکز شہیدوں، محنت کش کارکنوں اور باچا خان بابا کے فلسفے کا حقیقی وارث ہے یا صرف چند شخصیات کی خوشامد کا اڈہ بن چکا ہے؟
پختون سٹوڈنٹ فیڈریشن سندھ — نظریاتی کارکنوں کی بے دخلی اور مرکز سے محرومی
پختون سٹوڈنٹ فیڈریشن (PSF) عوامی نیشنل پارٹی کی نظریاتی، خودمختار اتحادی تنظیم ہے، جس کا واضح آئین، منشور اور تاریخی کردار ہے:
قوم، تعلیم، جدوجہد اور قربانی
تاہم آج PSF سندھ شدید سازشی تقسیم کا شکار ہے۔ نام نہاد صوبائی کابینہ نے PSF کو چار غیر آئینی دھڑوں میں بانٹ کر اس کا وجود کمزور کر دیا ہے۔ سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ PSF سندھ کو مکمل طور پر باچا خان مرکز سندھ سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔
نہ انہیں کسی مشاورتی اجلاس میں بلایا جاتا ہے، نہ کسی تربیتی نشست، سیمینار یا فکری مکالمے میں ان کی شرکت ہوتی ہے۔
مرکز جو PSF جیسے نظریاتی نوجوانوں کی فکری تربیت کا مرکز ہونا چاہیے تھا، آج PSF کے لیے بند دروازہ اور مافیا کے لیے کھلا دربار بن چکا ہے۔
قوم کے سامنے سوالات:
پہلا: کب تک اے این پی سندھ مخصوص افراد کے ذاتی مفادات کے لیے استعمال ہوتی رہے گی؟
دوسرا: PSF جیسے نظریاتی ادارے کو چار دھڑوں میں تقسیم کرنا کونسی تنظیمی حکمت عملی ہے؟
تیسرا: باچا خان مرکز عام کارکن کے لیے بند اور مخصوص طبقے کے لیے کھلا کیوں ہے؟
چوتھا: کیا مرکزی قیادت سندھ کی تنظیمی انحطاط سے بے خبر ہے یا خاموش تماشائی؟
تجاویز برائے اصلاحات:
پہلی: فوری طور پر اے این پی سندھ کی موجودہ صوبائی تنظیم تحلیل کی جائے اور ایک غیر جانبدار نگران کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں PSF، بزرگ کارکنان اور نیشنل یوتھ کو نمائندگی دی جائے۔
دوسری: تمام سطحوں پر شفاف تنظیمی انتخابات کرائے جائیں۔
تیسری: باچا خان مرکز کو عام کارکن کے لیے کھولا جائے اور PSF کو اس میں نظریاتی سرگرمیوں کے لیے باقاعدہ حق دیا جائے۔
چوتھی: PSF کی خودمختاری کا احترام کیا جائے اور تنظیمی فیصلوں میں ان کی مشاورت لازمی قرار دی جائے۔


