بلوچستان اور ماحولیاتی تبدیلی
تحریر : حسان احمد
بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور یہ زمین کا ٹکڑا اللہ کی رحمت ہے یہاں سب کچھ موجود ہے جیسے سمندر، دریا، پہاڑ، میدان، زراعت، بارڈر، قدرتی وسائل اور مال مویشی۔ لیکن بدقسمتی سے بلوچستان کی قسمت خراب ہے۔ یہاں دہشت گردی اور جھگڑے تو ہیں ہی، ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلی (Climate Change) کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کا بلوچستان پر بہت گہرا اثر پڑا ہے۔ یہاں بارشوں کا نظام یکسرتبدل ہو گیا ہے۔ پہلے ہر موسم میں ایک خاص وقت پر بارش ہوتی تھی، لیکن اب یا تو بارش ہوتی ہی نہیں، یا بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے بلوچستان کی زمین سوکھ چکی ہے۔ کوئٹہ، نوشکی، پشین، گوادر، پسنی جیسے علاقوں میں قحط (Sukha) پڑ گیا ہے۔ زیرِ زمین پانی اپنی آخری حد کو پہنچ چکا ہے۔
خشک سالی کی وجہ سے زراعت بری طرح متاثر ہو گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ مال مویشی کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔ یہ نقصان صرف زمین تک محدود نہیں بلکہ سمندر میں بھی نظر آ رہا ہے۔ تازہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے سمندری حیات بھی کم ہو رہی ہے جو کہ زندگی کے قدرتی دائرے (Life Cycle) کو خراب کر رہی ہے۔
اتنا ہی نہیں، بلوچستان میں درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے چھوٹے گلیشیئر بھی پگھلنے لگ گئے ہیں جیسے کان مہترزئی، زیارت، ڈومیرہ جیسے علاقے جہاں سارا سال برف جمی رہتی تھی اور صاف پانی جمع رہتا تھا، لیکن اب وہ بھی پگھل چکے ہیں۔ یہاں جو پانی زراعت کے لیے استعمال ہوتا تھا وہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ پھلوں کے باغات میں پیداوار آدھی رہ گئی ہے جیسے سیب، انگور، انار، چیری اور خشک میوہ جات جیسے بادام، اخروٹ وغیرہ۔ یہ مسئلہ صرف ماحولیات تک محدود نہیں بلکہ مالی پریشانی کا بھی سبب بن رہا ہے اور جانوروں کی خوراک کا مسئلہ بھی بڑھ رہا ہے۔
اوپر سے بلوچستان میں پلاسٹک کا استعمال بھی بہت زیادہ ہے اور اس کو ری سائیکل کرنے کا کوئی خاص انتظام نہیں ہے۔ صرف 9% پلاسٹک ری سائیکل ہوتا ہے، باقی کا 91% یا تو جلا دیا جاتا ہے، یا پہاڑوں میں پھینک دیا جاتا ہے، یا پھر سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جلانے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور خطرناک گیسزکا اخارج ماحولیاتی تبدیلی کا سبب بنتی ہیں۔ پہاڑوں میں پھینکنے سے وہ چھوٹے ٹکڑوں میں بدل جاتا ہے جو زمین کو بھی خراب کرتا ہے، اور سمندر میں پھینکنے سے سمندری زندگی کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس سے سمندر کی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی صلاحیت بھی کم ہو جاتی ہے۔ یوں زراعت، خوبصورتی اور ماحول تینوں خراب ہو رہے ہیں۔
پھر بلوچستان میں سبی، دکی، مچھ، ڈھاڈر میں کوئلے کی کان کنی کی جاتی ہے اور انرجی کے لئے کوئلہ اور لکڑی بڑی مقدار میں جلائی جاتی ہے جس سے کاربن میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ براہ راست ماحول پر اثر ڈال رہا ہے۔ باقی مائننگ جیسے ریکوڈک، سیندک جیسے منصوبوں کی وجہ سے بھی ماحول کو بہت نقصان ہو رہا ہے اور فضائی معیار اور زمین دونوں خراب ہو رہی ہیں۔
بلوچستان میں سوکھا پڑنے کی وجہ سے لوگ زراعت اور مال مویشی کے پیشے چھوڑ کر اپنی زمینوں پر ہوٹل اور اپارٹمنٹس بنانا شروع کر چکے ہیں۔ اس سے درخت کاٹنے کا عمل بھی تیز ہو گیا ہے جس سے بارش کا سسٹم بھی خراب ہو گیا ہے۔ پھلوں اور زراعت کی پیداوار میں کمی آئی ہے، بے روزگاری بڑھی ہے، اور گرمی کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ سب سے پہلے یہاں درخت لگانے کا عمل شروع کریں اور ہر خالی جگہ پر درخت لگائیں۔ مائننگ کو آئی ایس او کے اسٹینڈرڈ کے مطابق کریں، اور کوئلہ اور لکڑی کی جگہ گرین انرجی استعمال کریں۔ پلاسٹک بیگز پر پابندی لگائیں اور اس کے متبادل کو استعمال کریں۔ پلاسٹک ری سائیکلنگ کے پلانٹس لگائیں اور ویسٹ مینجمنٹ کو بہتر بنائیں۔ لوگوں میں شعور پیدا کریں۔ ساحلی علاقوں کو صاف کریں۔ زمین میں پانی جمع کرنے کے لئے بور لگائیں اور ڈیم بنائیں۔ کسانوں کی مدد کریں۔ مصنوعی بارش اور کلاؤڈ کیچنگ پلانٹس لگائیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ان سے فائدہ اٹھا سکیں اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات ہم پر کم سے کم آئیں۔


