سرحد کا تنازع یا تاریخ کی ضد؟

تحریر: شکور بلوچ
پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کو سمجھنے کیلئے صرف چمن یا طورخم کے راستے بند ہونے کے واقعات گننا کافی نہیں۔ یہ مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گہرا ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ سرحد پر کس نے کس پر فائرنگ کی، بلکہ یہ ہے کہ سرحد کی حقیقت کس نے کس پر مسلط کی؟ ریاستیں اسے دفاعی لکیر کہتی ہیں، جبکہ وہاں بسنے والے لوگ اسے اپنے گاﺅں کے دو سروں کی پگڈنڈی سمجھتے ہیں۔ شاید یہی وہ نکتہ ہے جہاں بات بگڑتی بھی ہے اور سلجھ بھی سکتی ہے۔
1893ءمیں کھینچی گئی ایک لکیر کو پاکستان آج بین الاقوامی سرحد کہتا ہے، جبکہ افغانستان اسے زخم مانتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تنازع میں نہ پاکستان کی عمر اتنی ہے کہ وہ اپنے دعوے کو قدیم کہہ سکے، نہ افغانستان نے کبھی بطورِ ریاست اس لکیر کو دل سے قبول کیا۔ کابل کے بادشاہ سے لے کر کمیونسٹ حکومت، مجاہدین، طالبان اور آج کے اسلامی امارت تک کسی نے ڈیورنڈ لائن کو رسمی طور پر ”مستقل سرحد“ تسلیم نہیں کیا۔ وہی لکیر جسے اسلام آباد ریاستی خودمختاری کی علامت سمجھتا ہے، کابل اسے تقسیم قبائل کا نوآبادیاتی ہتھیار کہتا ہے لیکن شاید اصل مسئلہ پاکستان اور افغانستان کے بیانات میں نہیں، بلکہ چمن، ویش، اسپن بولدک، نوشکی اور رباط کے درمیان چلنے والے راستوں میں ہے جہاں لوگ آج بھی سرحد کا تصور پاسپورٹ سے نہیں بلکہ رشتے سے کرتے ہیں۔
1989ءمیں جب سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا تو یہ سرحد اور دھندلی ہوگئی۔ لاکھوں افغان پاکستان آئے۔ کچھ ”مہاجر“ کہلائے، کچھ ”مجاہد“۔ اس دور میں نہ تو کسی نے پوچھا کہ ویزا کہاں ہے نہ یہ کہ کون سرحد پار کر رہا ہے۔ پاکستان میں ایسی نسلیں آباد ہوئیں جو آج تک یہ فیصلہ نہیں کرسکیں کہ وہ کہاں کے ہیں۔ ریاستیں انہیں کبھی بوجھ کہتی ہیں اور کبھی اثاثہ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ سرحد کے دونوں طرف کے لوگ ہیں، کسی ایک طرف کے نہیں۔
2001ءمیں جب نیٹو افواج افغانستان آئیں تو پاکستان ایک بار پھر ”اتحادی“ بنا، لیکن المیہ یہ تھا کہ ہر اتحاد بد اعتمادی میں ڈھلتا رہا۔ نیٹو کے جانے کے بعد دونوں ریاستیں ایک دوسرے سے وہی سوال کرتی رہیں: ”اصل خطرہ تم سے ہے یا ہم سے؟“ کابل کہتا ہے کہ سرحد پار سے مسلح جتھے آتے ہیں، اسلام آباد کہتا ہے کہ سرحد کے ا±س پار انہیں پناہ دی جاتی ہے اور یوں ریاستوں کے درمیان عدم اعتماد نے سرحد کو ایک بار پھر امن کی لکیر کے بجائے الزام کی دیوار بنا دیا۔
حالیہ معاہدے، رابطے، بیانات سب اپنی جگہ۔ لیکن کیا کسی نے کبھی سوچا کہ اگر ایک فریق سرحد کو ٹینک کی دیوار سمجھتا ہے اور دوسرا اسے خاندانی راستہ، تو پھر امن کے نام پر کیا طے ہوگا؟ کیا ریاستیں اس حقیقت کو تسلیم کریں گی کہ سرحد کے بیچ بسنے والے بلوچ، پشتون اور دیگر قبائل کی یادداشت ریاستی نقشوں سے پرانی ہے؟ کہ وہ خود کو کسی ایک طرف مقید نہیں سمجھتے بلکہ مٹی کے وارث ہیں، جس پر ان کا تعلق پاسپورٹ سے زیادہ گہرا ہے؟
امن کی بنیاد شاید یہ نہیں کہ سرحد کہاں سے گزرتی ہے، بلکہ یہ ہے کہ اسے دیکھا کیسے جاتا ہے؟ اگر ریاستیں اسے فوجی مسئلہ سمجھیں گی تو نتیجہ ہمیشہ ناکہ بندی ہی ہوگا۔ اگر اسے انسانی مسئلہ سمجھیں گی تو شاید کبھی کوئی ایسا مکالمہ شروع ہو جس میں وہ لوگ بھی شریک ہوں جو بارڈر پر گولی نہیں چلاتے، صرف گزرنا چاہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں