تعلیم اور تباہی، سعید ابراہیم کا فکری چیلنج
تعلیم پر لکھے گئے بیشتر مضامین نمبروں، نصاب یا امتحانی نظام تک محدود ہوتے ہیں۔ مگر سعید ابراہیم کی کتاب "تعلیم اور تباہی” ان سب سے ہٹ کر ہے۔
یہ کتاب محض اصلاحی نہیں، بلکہ انقلابی ہے۔ کیونکہ یہ تعلیم کے ظاہری ڈھانچے کے بجائے اس کی روح پر بات کرتی ہے۔
سعید ابراہیم نے اپنے مشاہدے اور تجربے سے یہ دکھایا ہے کہ اگر تعلیم انسان نہیں بناتی تو وہ تباہی کے سوا کچھ نہیں۔
کتاب کے تین ابواب۔
"ٹیچر کو کیسا ہونا چاہیے”,
"بچے کو کیسا گھر چاہیے”, اور
"بچے کو کیسا اسکول چاہیے”
میرے نزدیک اس پورے فکری نظام کا خلاصہ ہیں، جن میں مصنف نے انسان سازی کی تین بنیادیں پیش کی ہیں: استاد، گھر اور اسکول۔
ٹیچر کو کیسا ہونا چاہیے؟
سعید ابراہیم استاد کو ایک مقدس کردار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ استاد محض سبق پڑھانے والا نہیں بلکہ "روشنی دینے والا” ہے۔
ایک ایسا شخص جو بچوں کے ذہنوں کو نہیں، ان کے دلوں کو روشن کرتا ہے۔
ان کے مطابق اچھا ٹیچر وہ ہے جو خوف کے بجائے مکالمے سے نظم قائم رکھے، جو بچوں کو محض حکم نہ دے بلکہ ان کے اندر سوچنے اور سوال کرنے کی جرات پیدا کرے۔
مصنف کا ایک جملہ دل میں اترتا ہے:
“استاد وہ نہیں جو علم دے، بلکہ وہ ہے جو علم جگائے۔”
یہ باب اس تصورِ استاد کو چیلنج کرتا ہے جو سختی اور اطاعت پر مبنی ہے، اور اس کی جگہ ایک ایسے استاد کا خاکہ کھینچتا ہے جو محبت، اعتماد اور انسان دوستی سے تربیت کرے۔
بچے کو کیسا گھر چاہیے؟
دوسرے باب میں مصنف والدین کو یاد دلاتے ہیں کہ تعلیم کی بنیاد گھر سے پڑتی ہے۔
ایک ایسا گھر جہاں مکالمہ، محبت اور احترام کا ماحول نہ ہو، وہاں بچے سیکھنے کے جذبے سے خالی رہ جاتے ہیں۔
سعید ابراہیم لکھتے ہیں کہ بچے کو وقت دینے کا مطلب صرف اس کے ساتھ موجود ہونا نہیں بلکہ توجہ سے سننا ہے۔
والدین اگر بچوں کے احساسات کو سمجھیں، ان سے گفتگو کریں اور انہیں اپنے فیصلوں میں شریک کریں، تو یہی اعتماد آگے جا کر ان کی تعلیم کا سب سے مضبوط ستون بنتا ہے۔
یہ باب ہر والدین کو متنبہ کرتا ہے کہ اگر گھر میں محبت نہیں تو اسکول کی تعلیم بے اثر رہتی ہے۔
بچے کو کیسا اسکول چاہیے؟
کتاب کا تیسرا باب ایک تلخ مگر ضروری سچائی بیان کرتا ہے:
آج کا اسکول علم کا نہیں، بلکہ خوف کا مرکز بن چکا ہے۔
جہاں بچے تجسس سے نہیں، بلکہ خوف سے پڑھتے ہیں۔
مصنف کے مطابق موجودہ نظامِ تعلیم نے بچوں کی تخلیقی قوتوں کو مفلوج کر دیا ہے۔
گھنٹی، ڈانٹ، نظم و ضبط، اور نمبرات کی دوڑ نے تعلیم کو ایک مشینی عمل بنا دیا ہے۔
ایک بہتر اسکول وہ ہے جہاں استاد اور شاگرد دونوں سیکھنے کے شوق میں شریک ہوں،
جہاں کھیل، موسیقی، فن، اور مکالمہ تعلیم کا حصہ ہوں۔
ایسا ماحول جو بچے کو محض ذہین نہیں بلکہ باشعور، مہربان، اور جرات مند انسان بنائے۔
مصنف لکھتے ہیں کہ:
“اگر تعلیم خوف پر قائم ہے، تو وہ تباہی ہے۔
تعلیم تب ہی مکمل ہے جب وہ انسان کو آزاد کرے۔”
انسان سازی کی تکمیل۔ تین ستونوں کا رشتہ
ان تین ابواب کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ سعید ابراہیم نے استاد، والدین اور اسکول کے تعلق کو ایک مثلث کی صورت میں پیش کیا ہے۔
یہ مثلث صرف تب مکمل ہوتی ہے جب تینوں میں شعور، محبت اور مکالمہ موجود ہوں۔
اگر استاد علم کا ذوق جگائے،
گھر محبت کا سکون دے،
اور اسکول تخلیق کی آزادی۔
تو بچہ صرف کامیاب نہیں، کامل انسان بن جاتا ہے۔
میرا تاثر
مجھے ان ابواب نے یہ احساس دلایا کہ ہمارا تعلیمی نظام نصاب نہیں، نظریہ مانگتا ہے۔
ہمیں نصاب سے زیادہ نگاہ بدلنے کی ضرورت ہے۔
ایسی نگاہ جو بچے کو نمبر سے نہیں، اس کی ذات سے دیکھے۔
سعید ابراہیم نے ثابت کیا کہ تعلیم کتابوں، اسباق یا امتحانات کا نام نہیں۔
یہ انسان کے اندر چھپی ہوئی روشنی کو جگانے کا عمل ہے۔
اور اگر ہم نے تعلیم کو اس کی اصل روح واپس نہ دی،
تو واقعی، “تعلیم اور تباہی” میں فرق باقی نہیں رہے گا۔
اختتامیہ: سعید ابراہیم کی تحریر ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ
“تباہی تعلیم میں نہیں،
تعلیم تباہی کو بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔
اگر ہم اسے انسان بنانے کا وسیلہ سمجھ لیں۔”
یہ کتاب ہر استاد، والدین، اور طالب علم کے لیے ایک آئینہ ہے۔
اور شاید ایک امید بھی،
کہ اگر ہم مکالمے، محبت اور احترام سے تعلیم کو دوبارہ انسان سے جوڑ لیں،
تو تباہی کی جگہ روشنی جنم لے سکتی ہے۔


