سچ کی آواز اور انصاف کی جنگ
تحریر: ابوبکر دانش میروانی بلوچ
ہر سال 2 نومبر کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام صحافیوں کے خلاف جرائم سے استثنیٰ کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن دنیا بھر کے ان بہادر صحافیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع ہے جنہوں نے سچ کی تلاش اور عوام کو باخبر رکھنے کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں اس دن کا بنیادی مقصد ان جرائم کی طرف عالمی توجہ مبذول کروانا ہے جو صحافیوں کے خلاف کیے جاتے ہیں اور جن کے مجرم اکثر و بیشتر سزا سے بچ جاتے ہیں۔
آزادی صحافت پر حملہ، دراصل جمہوریت پر حملہ ہے صحافت کو کسی بھی جمہوری معاشرے کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ ایک آزاد اور ذمہ دار صحافت نہ صرف حکمرانوں کو جوابدہ بناتی ہے بلکہ عوام کو باخبر فیصلوں کے لیے ضروری معلومات بھی فراہم کرتی ہے۔ جب صحافیوں کو حملوں، دھمکیوں، اغوا یا قتل کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان جرائم کے مرتکب افراد کو سزا نہیں ملتی تو یہ صرف ایک فرد پر ظلم نہیں ہوتا، بلکہ یہ آزادی اظہار رائے اور جمہوریت کی بنیاد پر ایک سنگین حملہ ہوتا ہے۔
یونیسکو (UNESCO) کے اعداد و شمار کے مطابق، دنیا بھر میں صحافیوں کے قتل کے تقریباً 90 فیصد مقدمات بغیر کسی عدالتی فیصلے کے غیر حل شدہ رہتے ہیں، یعنی مجرموں کو کوئی سزا نہیں ملتی یہ استثنیٰ کا خوفناک کلچر ہی ہے جو مزید تشدد اور خاموشی کو فروغ دیتا ہے۔
عالمی دن منانے کے مندرجہ ذیل اہم مقاصد ہیں:
دنیا بھر کی حکومتوں اور عدالتی اداروں پر دباو¿ ڈالنا کہ وہ صحافیوں کے خلاف ہونے والے تمام جرائم کی شفاف، فوری اور مکمل تحقیقات کریں اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔
استثنیٰ کے کلچر کو ختم کر کے صحافیوں کے لیے ایک محفوظ ماحول فراہم کرنا تاکہ وہ بغیر کسی خوف کے اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دے سکیں۔
لوگوں میں یہ شعور اجاگر کرنا کہ سچ کی آواز دبانے کا مطلب ان کے اپنے بنیادی حق، یعنی معلومات تک رسائی کے حق کو خطرے میں ڈالنا ہے۔
حکومتوں کو یہ یاد دہانی کروانا کہ صحافیوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔
جدید دور میں صحافیوں کو صرف جسمانی تشدد ہی کا سامنا نہیں ہے بلکہ وہ ڈیجیٹل خطرات کی زد میں بھی ہیں خواتین صحافی بالخصوص آن لائن ہراسانی، سائبر دھمکیوں اور صنفی بنیاد پر تشدد کا شکار ہوتی ہیں، جس سے آزادی اظہار رائے پر مزید برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جنگ زدہ علاقوں جیسے غزہ اور دیگر تنازعات والے خطوں میں صحافیوں کی ہلاکتیں اور زخمی ہونے کے واقعات تشویش ناک حد تک بڑھ چکے ہیں، جہاں وہ بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کا نشانہ بنتے ہیں۔
پاکستان میں بھی صحافیوں کے لیے کام کا ماحول ہمیشہ چیلنجنگ رہا ہے۔ متعدد رپورٹس کے مطابق یہاں بھی صحافیوں کو حملوں، دھمکیوں اور قتل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور استثنیٰ کی شرح اب بھی بلند ہے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کی جانب سے صحافیوں کے تحفظ کے لیے وعدے اور قانون سازی کے اقدامات ضروری ہیں، مگر ان پر عمل درآمد سب سے بڑا چیلنج ہے۔ وزیراعلیٰ، وزیراعظم اور اسپیکر جیسے اعلیٰ عہدیدار اس دن اپنے پیغامات میں آزادی صحافت کی ضمانت دیتے ہیں، لیکن ضروری ہے کہ یہ وعدے محض بیانات تک محدود نہ رہیں بلکہ ٹھوس اقدامات کی شکل اختیار کریں۔
صحافیوں کے خلاف جرائم خاتمے کا عالمی دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب تک صحافی محفوظ نہیں، عوام باخبر نہیں رہ سکتے اور کوئی بھی معاشرہ صحیح معنوں میں جمہوری نہیں کہلا سکتا۔ دنیا کو چاہیے کہ وہ صرف اس دن تقریبات منعقد کرنے پر اکتفا نہ کرے، بلکہ صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ہر جرم پر انصاف کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات کرے۔ سچ کو کوئی دیوار نہیں دے سکتی اور سچ بولنے والوں کو تحفظ فراہم کرنا عالمی برادری کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔


