پانی، بقا اور بلوچستان، ایک عالمی چیلنج اور مقامی حقیقت
تحریر : سعید یوسف
پانی زمین پر زندگی کا بنیادی سرچشمہ ہے۔ انسانی بقا، معیشت، ماحولیاتی نظام اور تہذیب کی بنیاد اسی پر قائم ہے۔ لیکن آج یہی قیمتی وسیلہ خطرے میں ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ “Continental Drying: A Threat to Our Common Future” نے چند دن پہلے دنیا کے سامنے یہ حقیقت رکھی کہ ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو رہے ہیں جہاں تازہ پانی کی دستیابی محدود اور غیر یقینی ہو رہی ہے۔ یہ رپورٹ محض اعداد و شمار پر مبنی نہیں، بلکہ ایک انتباہ ہے کہ اگر ہم پانی کے مؤثر انتظام، پائیدار استعمال اور مشترکہ ذمہ داری کے اصولوں پر عمل نہیں کریں گے تو مستقبل کی نسلیں اس قدرتی اثاثے سے محروم ہو جائیں گی۔
دنیا کو آج continental drying یعنی براعظماتی سطح پر پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ہر سال تقریباً 324 بلین کیوبک میٹر تازہ پانی ضائع ہو رہا ہے، جو تقریباً 280 ملین افراد کی سالانہ پانی کی ضروریات پوری کر سکتا تھا۔ خشک علاقوں میں صورتحال اور بھی نازک ہے: جہاں پہلے ہی پانی کی قلت تھی، وہ مزید شدید ہو گئی ہے، اور وہ علاقے جن میں پہلے کافی پانی دستیاب تھا، وہ بھی دباؤ میں ہیں۔ پانی کی قلت کے اثرات وسیع پیمانے پر ہیں۔ یہ روزگار، آمدنی، زراعت اور ماحولیاتی نظام کو متاثر کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر، سب صحارا افریقہ میں خشکی کی وجہ سے ہر سال لاکھوں افراد بے روزگار ہو جاتے ہیں۔ زرعی شعبے میں پانی کے غیر مؤثر استعمال کی شرح بہت زیادہ ہے، خاص طور پر وہ علاقے جو پہلے سے خشک یا نیم خشک ہیں۔ رپورٹ میں تین بنیادی حکمت عملی پیش کی گئی ہیں جن میں پہلا پانی کی طلب (Demand) کا نظام سے متعلق بتاتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ٹیکنالوجی، ضابطہ کاری اور عوامی شعور کے ذریعے طلب کو بہتر طریقے سے منظم کر سکتے ہیں ۔ دوسرا اہم نکتہ جو کہ پانی کی رسد (Supply) میں اضافہ سے متعلق ہے جو بتاتی ہے کہ نئے ذخائر، پانی کی ری سائیکلنگ اور نمک پانی کا استعمال کو کیسے عملی جامعہ پہنایا جا سکتا ہے۔ جبکہ تیسرے اہم نکتہ میں پانی کی تقسیم (Allocation) کا توازن سے متعلق بتایا گیا ہے جو کہ مختلف شعبوں، علاقوں اور صارفین کے مابین منصفانہ اور مؤثر تقسیم یقینی کیسے بنا سکتے ہیں۔ رپورٹ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ صرف پانی کے شعبے کی اصلاح کافی نہیں؛ ادارتی صلاحیت مضبوط کرنا، جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا اور پانی کی قیمت و تجارتی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔
بلوچستان کے تناظر میں صورتحال کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے بلوچستان ایک خشک اور نیم خشک خطہ ہے، جہاں بارش کم ہوتی ہے اور زیرِ زمین پانی پر انحصار زیادہ ہے۔ صوبائی پانی پالیسی کے مطابق، دیہی علاقوں میں تقریباً 69٪ افراد کو محفوظ پانی دستیاب ہے، جبکہ شہری علاقوں میں یہ شرح 91٪ ہے۔ کوئٹہ اور اس کے آس پاس زیرِ زمین پانی کی سطح ہر سال تقریباً 3–4 فٹ نیچے جا رہی ہے۔ زرعی پیداوار میں بھی کمی دیکھی گئی ہے: کوئٹہ اور ملحقہ علاقوں کا صوبائی زرعی پیداوار میں حصہ پہلے 20٪ سے زائد تھا، جو اب 10٪ سے کم رہ گیا ہے۔ صوبے کی پانی ذخیرہ کرنے کی کل صلاحیت تقریباً 68,939 ایکڑ فٹ ہے، مختلف چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیم پراجیکٹس کے ذریعے۔ بلوچستان میں سالانہ بارش 50 ملی میٹر سے 500 ملی میٹر تک ہے، اور گھریلو و زرعی ضروریات کے لیے تقریباً 80٪ پانی زیرِ زمین ذرائع سے حاصل ہوتا ہے۔ 1998 کے بعد سے صوبے میں کم از کم 12 بڑے خشک سالی کے واقعات پیش آ چکے ہیں، جس سے لوگوں کی روزگار اور ماحولیاتی نظام شدید متاثر ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں continental drying کے اثرات تیزی سے محسوس کیے جا رہے ہیں، اور زرعی شعبہ معیشت کا اہم ستون ہے۔ اگر پانی کے استعمال میں مؤثر انداز (efficiency) نہ بڑھایا گیا تو زرعی پیداوار، کسانوں کی آمدنی اور معاشی استحکام متاثر ہوں گے۔ رپورٹ میں تجویز کردہ حکمت عملی کی بھی وضاحت کی گئی ہے۔ جس میں پانی کے طلب کے نظام ، رسد میں اضافہ، اور منصفانہ تقسیم کرتی ہے جیسے Drip irrigation (قطرہ بہ قطرہ آبپاشی)، Rainwater harvesting (بارش کا پانی محفوظ کرنا)، Groundwater recharge (زمینی پانی کی بحالی) جیسے اقدامات گزیر ہیں ، مزید برآں ان اقدامات کے ساتھ عوامی شعور میں اضافہ اور ادارتی صلاحیت کی مضبوطی پانی کے انتظام کو بہتر بنا سکتی ہے۔ اگر بروقت اقدامات کیے گئے تو بلوچستان نہ صرف پانی کے بحران سے بچ سکتا ہے بلکہ پانی کی کمی کے چیلنج کو پائیدار ترقی، زرعی بہتری اور ماحولیاتی تحفظ کے مواقع میں بدل سکتا ہے۔ اس کے برعکس، غفلت کی صورت میں یہ عالمی رپورٹ بلوچستان کے لیے حقیقی خطرے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ اگرچہ صوبائی سطح پر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، مگر وسائل کی کمی جیسے مسائل ابھی بھی حائل ہیں۔ اس لیے موثر پالیسی سازی، جدید ٹیکنالوجی اور عوامی شمولیت وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ پانی کے بچاؤ میں تمام مکتبہ فکر کو مل بیٹھ کر اسکی سنگینی کا ادراک کرنا ہو گا اور اس کے بچاو میں ہر ایک کو اپنی سطح پر بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔


