نالونگ ڈیم کیلئے زمین کے حصول کا مسئلہ: جھل مگسی میں ترقی اور انصاف کے درمیان توازن

تحریر: خدیجہ مگسی
ترقیاتی منصوبے جیسے ڈیم کسی بھی ملک کی معاشی و سماجی ترقی کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں، لیکن اکثر یہ منصوبے مقامی آبادی کے حقوق، زمین کی ملکیت اور قانونی تقاضوں کے حوالے سے پیچیدہ مسائل بھی پیدا کرتے ہیں۔ بلوچستان کے ضلع جھل مگسی میں تعمیر ہونے والا نالونگ ڈیم اسی حقیقت کی واضح مثال ہے جہاں قومی مفادات اور مقامی برادریوں کے حقوق کے درمیان ایک نمایاں کشمکش جاری ہے۔ اس منصوبے کے لیے زمین کا حصول 1894ءکے نوآبادیاتی دور کے اراضی حصول ایکٹ کے تحت کیا جا رہا ہے، جو آج کے حالات اور قبائلی ملکیتی نظام سے مطابقت نہیں رکھتا۔
نالونگ ڈیم کا بنیادی مقصد تقریباً 47,000 ایکڑ زمین کو سیراب کرنا، بجلی پیدا کرنا اور سیلابی پانی کو کنٹرول کرنا ہے۔ اگرچہ یہ منصوبہ معاشی طور پر فائدہ مند ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے مطلوب زمین زیادہ تر قبائلی ملکیت میں ہے جس کی باقاعدہ دستاویزات موجود نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے لیے زمین کا ریکارڈ، مالکان کی شناخت اور انصاف پر مبنی معاوضے کی ادائیگی ایک مشکل مرحلہ بن جاتا ہے۔
1894ءکے ایکٹ کے تحت۔
دفعہ 4 حکومت کو عوامی مقصد کے نام پر وسیع اختیارات دیتی ہے۔
دفعہ 6 زمین کے حصول کو حتمی قرار دیتی ہے۔
دفعات 9 اور 11 معاوضے کے تعین سے متعلق ہیں مگر ان میں شفافیت اور مقامی شمولیت کی کمی ہے۔
جھل مگسی میں یہی قانونی خلا سنگین مسئلہ بنا۔ بہت سے متاثرہ خاندان اپنی زمین کا دعویٰ ثابت نہ کر سکے، جس کے باعث انہیں کوئی معاوضہ نہ ملا۔ کچھ لوگوں کو کم قیمت یا بہت تاخیر سے ادائیگی ہوئی، جو دفعہ 23 میں بیان کردہ ”منصفانہ معاوضے“ کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔
اس صورتحال نے مقامی معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کیے:
روزگار کا نقصان: زمین چھننے سے کسان، چرواہے اور مزدور بے روزگار ہو جاتے ہیں۔
سماجی بے چینی: قبائلی لوگوں میں حکومتی اداروں پر عدم اعتماد بڑھتا ہے۔
خواتین کی مشکلات: خواتین جو پانی، مویشیوں اور خوراک کی ذمہ دار ہوتی ہیں، سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں مگر انہیں فیصلوں میں شامل نہیں کیا جاتا۔
نالونگ ڈیم کا تنازعہ واضح کرتا ہے کہ ترقی اس وقت تک پائیدار نہیں ہو سکتی جب تک مقامی لوگوں کے حقوق کا احترام نہ کیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ 1894ءکے اراضی حصول ایکٹ میں فوری اور جامع اصلاحات کی جائیں تاکہ ترقی انصاف، شفافیت اور انسانی وقار کے ساتھ آگے بڑھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں