جنگ جو عورت کی عزت کی خاطر لڑی گئی
تحریر: علیشبا بگٹی
جنگ ذیقار، عربوں کی پہلی بڑی فتح جو صرف ایک عورت کی عزت کی خاطر لڑی گئی
خسرو پرویز (خسرو دوم) شاہِ ایران جو تقریباً 570 عیسوی میں پیدا۔ ایران کا یہ شہنشاہ، دنیا کے سب سے طاقتور بادشاہوں میں شمار ہوتا تھا۔ اس کے دربار میں سونا یوں بہتا تھا جیسے کسی پہاڑی نالے میں پانی۔ اس کے پاس دنیا کے خوبصورت ترین محلات اور مضبوط ترین لشکر تھے۔ مگر ایک دن، ایک چھوٹی سی بات، اس کے غرورِ سلطنت کو یوں بھڑکا گئی، جیسے سوکھی لکڑی چنگاری سے بھڑک اٹھتی ہے۔
تقریباً 602 عیسوی کی بات ہے کہ ایک روز شهنشاه ایران خسرو پرویز (خسرو دوم) کے دربار میں عرب عورتوں کی خوبصورتی کا ذکر چھڑ گیا۔ وہاں موجود زید بن عدی العبادی جو قبیلہ عبس سے تھا۔ اس نے موقع پاکر کہا۔ ” اے بادشاہ عالم ۔ لخمی بادشاہ نعمان بن المنذر کے گھر میں بیس سے زائد لڑکیاں ہیں۔ بیٹیاں، بہنیں اور قریبی رشتے دار۔ سب انتہائی خوبصورت اور دلکش ہیں۔” خسرو کی خواہش بھڑک اٹھی۔ اس نے نعمان بن المنذر کو پیغام بھیجا کہ اپنی ایک بیٹی مجھے بطور لونڈی بھیج دو۔ نعمان نے سخت الفاظ میں انکار کر دیا۔ میں آزاد عرب کی بیٹی کو اجنبی بادشاہ کے حرم میں بھیجنے سے موت کو ترجیح دوں گا۔”۔۔ خسرو غصے میں آگ بگولا ہوا اور نعمان کو فوراً دربار میں طلب کیا۔ نعمان جانتا تھا کہ واپسی نہیں، اس نے جانے سے پہلے اپنی سب سے خوبصورت بیٹی کو قبیلہ بنی شیبان کے سردار ہانی بن مسعود الشیبانی کے سپرد کر دیا۔ اور خود خسرو کے پاس پہنچ گیا۔ خسرو نے اسے قید کر کے ہاتھیوں تلے کچلوا کر قتل کر دیا۔
کچھ عرصہ بعد خسرو نے ہانی بن مسعود کو پیغام بھیجا کہ لڑکی مجھے سونپ دو۔ ہانی نے جواب دیا۔ "اللہ کی قسم ۔ ہماری غیرت اور ہمارا عرب ہونا ہمیں اس بات سے روکتا ہے، کہ ایک آزاد عرب عورت کو کسی غیر ملکی کے حوالے کریں۔” خسرو نے بڑی فوج تیار کی۔اور 612 عیسوی میں اس کی قیادت خود اپنے عظیم سپہ سالار ” الحميري الطوسي ” یا تاریخی روایات میں ” اياس بن قبيصة الطائي ” اور کئی دوسرے کمانڈروں کے ساتھ مل کر کی۔ بعد کی روایات میں بعض نے اسے "خورہ بہروز ” یا ” ہرمز ” بھی کہا۔ فوج میں زنجیر بند ہاتھی، بھاری گھڑ سوار اور ہزاروں پیدل سپاہی بھی شامل تھے۔ جب یہ خبر عرب قبائل تک پہنچی تو ایک عجیب منظر دیکھنے میں آیا۔۔ صرف ایک عورت کی عزت کے سوال پر سینکڑوں میل دور دراز کے قبائل نے اپنے پرانے خون اور دشمنیاں بھلا دیں۔ بنی بکر بن وائل ، بانی بن مسعود، بنی شیبان بنی تمیم ، بنی ربیعہ ، بنی عبس، بنی ذبیان، بنی غطفان، هوازن اور دیگر چھوٹے بڑے قبائل اکٹھے ہو گئے۔
معرکہ ذیقار ، موجودہ جنوبی عراق، کوفہ کے قریب میں آراستہ ہوا۔ یہ وہی مقام تھا جہاں بعد میں حضرت سعد بن ابی وقاص نے قادسیہ لڑی۔ جنگ تین دن تک جاری رہی۔ فارسیوں کے پاس تعداد، ہتھیار، ہاتھی اور ساز و سامان کی برتری تھی، مگر عربوں کے پاس غیرت اور گھوڑوں کی تیزی تھی۔ ایرانی لشکر عدد میں بڑا تھا، اسلحے میں طاقتور تھا، ہاتھیوں، زنجیروں اور زرہوں سے لیس تھا۔ لیکن عربوں کے پاس ایک چیز تھی۔۔ عزت۔۔ اور عزت کی حفاظت میں لڑا جانے والا انسان ہار نہیں مانتا۔۔ تیسرے دن کا سورج طلوع ہونے سے پہلے عربوں نے رات کی تاریکی میں حملہ کر دیا۔ فارس کے کیمپ میں آگ لگا دی۔ ہاتھی بدک کر دوڑے، زنجیریں ٹوٹ گئیں، صفیں بکھر گئیں۔ فارسی لشکر بھاگ نکلا۔ ایک ہزار سے زائد فارسی سپاہی مارے گئے۔ کچھ عربی بھی مارے گئے۔ تاہم فارسی لشکر کے بہت سے بڑے سردار اور کمانڈر مارے گئے، جن میں سب سے مشہور نام ” ایاس بن قبيصة” اور ان کے ساتھ کئی فارسی سردار تھے۔ الغرض اور پھر ایسی جنگ ہوئی کہ جس نے سلطنتِ فارس کے گھمنڈ کو ریت بنا کر اڑا دیا۔ اور پہلی بار عرب نے فارس جیسی سلطنت کو میدانِ جنگ میں شکست دی۔
یہ قبل از اسلام عربوں کی فارسیوں پر پہلی کھلی اور واضح فتح تھی۔ طبری، بلاذری، ابن اثیر، ابن کثیر اور دیگر مورخین اسے ” أول أيام العرب ” یعنی عربوں کا پہلا عظیم دن قرار دیتے ہیں۔ شاعر عرب عروہ بن الورد نے اس جنگ کے بعد کہا تھا۔ نحنُ بَنُو بَك إِذَانَا الشيرَتْ .. غَضَبْنَ الحُرَّةُ العَرَبِيَّةُ۔ یعنی۔ ہم بنو بک ہیں، جنگ میں اس لیے اُترے کیونکہ ایک آزاد عرب عورت غضبناک ناراض ہوئی تھی۔۔
اور کہتے ہیں کہ خسرو پرویز (خسرو دوم) کو بعد میں اپنے ہی بیٹے شیرویہ (قباد دوم) نے تخت سے اتار کر قید کیا اور چند دن بعد 28 فروری 628 عیسوی کو اسے قتل کروا دیا۔
البتہ پھر جنگ ذیقار کا عربوں کا یہی جذبہ غیرت بعد میں چند سال بعد ہی اسلام کی صورت میں پوری دنیا پر چھا گیا۔ جنگ ذیقار نے ثابت کر دیا تھا۔ کہ جب بات عورت کی عزت اور قوم کے غرور کی ہو تو قوم ایک ہو جاتے ہیں۔۔ چاہے دشمن کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔۔ یہ واقعہ آج بھی یاد دلاتا ہے کہ بعض لڑائیاں دولت، زمین یا سلطنت کے لیے نہیں، صرف ناموس کی حفاظت کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ اور ایسی لڑائیاں تاریخ بدل دیتی ہیں۔
Load/Hide Comments


