"بہترین مذہب انسانیت کا ہے”
تحریر: بلاول ساجدی
جس انسان میں انسانیت نہ ہو تو اسکی انسانی وجود کا کوئی فاہدہ نہیں۔ اس جہاں میں بھی اسکی عزت نہیں اور وہ جہاں بھی اسکا اچھا نہیں ہوگا۔ دین اسلام میں بہت زیادہ زور حقوق العباد پر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ کوئی شخص گناہ کرتا ہے جب وہ توبہ کرتا ہے تو میں اسے بخش دیتا ہوں کیونکہ وہ میرا اور اسکا معاملہ ہے۔مگر کوئی شخص کسی انسان کا دل دکھاتا ہے تو اللہ سے جتنا توبہ کریں اسکو تب تک بخشا نہیں جاتا جب تک اس انسان سے معافی نہیں مانگتا اور وہ شخص معاف نہیں کرتا۔اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو زیادہ ترجیح دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا درجہ نہیں دیا ہے۔انسان وہ مخلوق ہے جسے اچھے اور برے میں فرق کرنے کا شرف حاصل ہے۔ رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ۷۲ فرقوں کا زکر کیا ہے اور مسلمان اس بات کو تسلیم بھی کرتے ہیں۔مگر دکھ کی بات یہ ہے سب اپنے فرقے کو اچھا قرار دینے میں لگے ہوئے ہیں۔دین اسلام نے بھائی چارگی کا حکم دیا ہے۔مگر ہم اپنے سگے بھائیوں کے خون کے پیاسے بن چکے ہیں۔حضور کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اپنے گھر سے تبلیغ کا آغاز کیا اور اسکے بعد کفار مکہ کو دین اسلام کی دعوت دی تو وہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دشمن بن گئے پھر بھی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انکو عزت دی حسنِ اخلاق سے پیش آئے۔کسی کو آپ نے کافر نہیں کہا۔اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس بات کی تصدیق کی تھی کے انکے نواسوں کے ساتھ کیا ہوگا۔یہ سب باتوں کو جان کر بھی ہم مسلمان ایک دوسرے فرقوں کے لوگوں سے نفرت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
دین اسلام نے شراب،زنا،چوری،اور بہت ساری ناجائز کاموں سے منع کیا ہے مگر افسوس اسوقت مسلمان وہ تمام کاموں کو کر رہے ہیں۔اور سب کو اپنا پیشن بنایا ہوا ہے۔بہت سارے لوگ آفس وغیرہ میں دوسرے مذہب اور فرقے کی لوگوں سے عزت اور محبت سے پیش آتے ہیں یہاں تک کہ ساتھ بیٹھ کر ایک ہی دسترخوان میں کھانا کھاتے ہیں اور جب کوئی بھی انسان اسکا تعلق کسی بھی مذہب یا فرقے سے ہو وہ جب بیمار ہوتا ہے تو اسکو خون کی ضرورت پڑتی ہے تو اس وقت جو خون اسکا جسم میں چڑھایا جاتا ہے تو نہیں وہ شخص اور نہیں اسکے خاندان کا کوئی شخص یہ سوال کرتا ہے کہ یہ خون کس مذہب اور فرقے کی تعلق رکھنے والے شخص کا ہے۔ان سب نفرتوں کا جڑ ہمارے مولوی حضرات ہے جو بس اپنے فرقے کو درست ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
دین اسلام میں قتل پر بھی بہت سخت سزا ہے۔اور کہا جاتا ہے ایک انسان کاقتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔اور جب محرم کا چاند نظر آتا ہے تو شعیہ فرقے کے لوگ غمِ حسین میں ماتمی جلوس اور امام بارگاہوں میں مجلسِ اور عبادات مصروف رہتے ہیں اور ان پر حملے کیے جاتے ہیں۔اور جب ربیع الاول کا چاند نظر آتا ہے تب سنی فرقے کے لوگ اپنے جلوس نکالتے ہیں اور درس بیان کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور ان پر بھی دینی دشمن حملہ کرتے ہیں۔اور بلکل اسی طرح دسمبر کے مہینے میں عیسائی مذہب کے لوگ کرسمس بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہوتے ہیں اور اپنے گرجا گھروں میں عبادت میں مصروف ہوتے تو ان پر حملے ہوتے ہیں۔ان حملوں میں وہ لوگ ملوث ہوتے ہیں جو فرقہ واریت دشمن ہوتے ہیں اور یہ لوگ مذہبی اور فرقاوارانہ نفرتیں پھیلاتے ہیں
ان سب کا حل یہ ہے جمعہ کے مبارک دن کا خطبہ لاؤڈ اسپیکر پر دیا جائیں۔اس میں بھائی چارگی،زنا،جھوٹ،حقوق العباد،اور ان تمام کاموں کے متعلق درس دیا جائے جس سے دین اسلام نے منع کیا ہے۔اس سے ہم ہر بھی اچھا اثر پڑہے گا۔ اور ہم اچھے مسلمان اور انسانیت کی قدر کرنے والے لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔