”نکے داابا“

تحریر: انورساجدی
امریکہ اس وقت روئے زمین کا واحد سپرپاور ہے اس لحاظ سے تیسری دنیا کے غریب ممالک کے نکمے اور خاص طور پر آمر حکمرانوں جنہیں بونے یا ”نکے“ کہنا بہتر ہوگا ان نکے حکمرانوں کا ”ابا“ ہے۔
کوئی زمانہ تھا کہ دنیا دوسپر پاورز میں تقسیم تھی اکثر نکے حکمرانوں کا ابا امریکہ تھا جبکہ چند ایک کا سوویت یونین مائی باپ تھا1950ء اور1960ء کی دہائی میں نام نہاد انقلابوں کا رواج پڑا تھا افریقہ ایشیاء اور لاطینی امریکہ کے کرنل بریگیڈیئر اور جنرل اپنی حکومتوں کاتختہ الٹتے تھے اور دعویٰ کرتے تھے کہ وہ انقلاب لائے ہیں انگریزی میں یہ لفظ ”COUP“ کو ہوتا ہے اس کا اردو ترجمہ ایوب خان دور کے سرکاری دانشوروں نے انقلاب کیا جو کہ غلط ہے لیکن مجبوری یہ ہے کہ کوئی اردو لفظ ہے نہیں اگر بغاوت لکھا جائے تو زیادہ بہترہوگا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سوویت یونین بھی امریکہ کے مدمقابل آگیا اس لئے اسکے حامیوں نے بھی وسیع پیمانے پر اپنی حکومتوں کے تختے الٹے اور دعویٰ کیا وہ سوشلسٹ انقلاب لائے ہیں ان حکمرانوں میں جو سب سے زیادہ معروف اور مقبول ہوئے ان میں مصر کے کرنل جمال عبدالناصر لیبیا کے کرنل معمر قذافی شام کے حافظ اسد الجزائر کے بومدین تیونس کے حبیب بورقیبہ اور پاکستان کے نام نہاد فیلڈ مارشل ایوب خان شامل تھے۔
ان تمام آمروں کاانجام عبرتناک ہوا ناصر اور اسد کو 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بدترین شکست کاسامنا کرنا پڑا اسرائیل نے صحرائے سینائی گولان ہائٹس اورسب سے بڑھ کر مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس پرقبضہ کرلیا سردجنگ کے دوران امریکی سی آئی اے بھی کئی ممالک میں تختے الٹ کر اپنے تابع فرمان ”نکے“ حکمران مسلط کرتی تھی اس کی بڑی تفصیل ہے اور اس میں جانے کی ضرورت نہیں ہے ہماری یاد داشت میں جنرل ضیاء الحق نے امریکہ کی آشیر باد سے ذوالفقار علی بھٹو کاتختہ الٹا بھٹو وہ واحد حکمران تھے کہ امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے انہیں عبرتناک انجام سے دوچار کرنے کی دھمکی دی تھی اس دھمکی کو جنرل ضیاء الحق نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔جنرل ضیاء الحق کی خوش قسمتی تھی کہ امریکہ نے افغان ثورانقلاب کو ناکام بنانے کیلئے وہاں پر مداخلت کافیصلہ کیااسے ٹھوس بہانہ اس وقت ہاتھ لگا جب سوویت افواج اس انقلاب کادفاع کرنے افغانستان پہنچیں چنانچہ سی آئی اے نے وہاں پر جہاد شروع کرنے کی حکمت عملی بنائی ضیاء الحق پر ڈالروں کی برسات کردی گئی صدرریگن نے افغان وارلارڈ جنگجوؤں اور ملاصاحبان کومجاہدین کالقب دیا۔لاکھوں افغانوں کومجبور کیا گیا کہ وہ پاکستان کی طرف ہجرت کریں کسے یاد نہیں جب ملاحقانی کی قیادت میں ایک وفد نے وائٹ ہاؤس میں صدر ریگن سے ملاقات کی اور امریکی آشیردباد اورکروڑوں ڈالر واپس لیکر آئے۔
افغان جہادنے جہاں افغانستان کوتاراج کردیا وہاں پرپاکستان کی بنیادی ہئیت بھی بدل ڈالی ضیاء الحق نے ریاست کی سمت تبدیل کردی یہاں پر نودولتیہ اور خودساختہ اشرافیہ وجود میں لائی گئی گاؤں گاؤں قریہ قریہ ڈالر تقسیم کئے گئے ڈالروں کے حصول کی جو دوڑ شروع ہوگئی وہ آج تک جاری ہے مطلب نکلنے کے بعد جب امریکہ پاکستان سے پوچھے بغیر واپس چلا گیا تو افغانستان پرخونخوار جنگجوؤں نے قبضہ کرلیا ایک خونی خانہ جنگی شروع ہوگئی جس نے کابل سمیت پورے ملک کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا جب امریکہ کو احساس ہواکہ افغانستان میں بہت خون بہہ چکا تو اس نے ملک کو ایک نظم میں لانے کیلئے طالبان بنائے ان طالبان نے پاکستان کی مددسے افغانستان پرقبضہ کرلیا ناخواندہ ملاعمر کی قیادت میں ملک کواسلامی امارت قراردیاگیا اور تعزیری نظام رائج کیا گیا اسلام تو نافذ نہ کیاجاسکا البتہ سرقلم کرنے،کوڑے مارنے اور خواتین کیخلاف غیرانسانی سزائیں ضرور شروع کی گئیں جہاد کے دوران امریکہ نے جو”سوغاتیں“ بھیجی تھیں ان میں سعودی باشندہ اسامہ بن لادن اور مصری اخوان کے رہنما ایمن الظواہری افغانستان میں رہ گئیں ان لوگوں نے ایسے نوجوان تیار کئے جنہوں نے امریکہ پر حملہ کرکے اسے نائن الیون کے المیہ سے دوچار کردیا یہ وقت تھا کہ ایک بار پھر جنرل پرویز مشرف ایک نیم منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پربراجمان تھے امریکہ نے طالبان کو سزا دینے کا فیصلہ کیا حالانکہ مشرف طالبان کے طرفدار تھے لیکن وزیرخارجہ کولن پاول کی ایک ٹیلی فون کال پر سیاچن اورکارگل ہارنے والے اس گھبرو جرنیل نے گھٹنے ٹیک دیئے اور یوٹرن لیکر اپنی زمین فضا اور بحری حدود امریکہ کے حوالے کردیئے جنرل مشرف کے چیف آف اسٹاف جنرل شاہد عزیز نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ مشرف نے کمانڈروں سے پوچھے بغیر یہ فیصلہ کیا تھا اس فیصلہ کے تحت جیکب آباد،پسنی،شمشی اورپنجگور کے ایئرپورٹ امریکہ کو استعمال کیلئے دیدیئے گئے تھے یعنی امریکہ نے ایک فوجی آمر کے تعاون سے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی تورہ بورہ کے پہاڑی سلسلے پراتنے بم گرائے گئے کہ زمانہ امن میں اس کی مثال نہیں ملتی اس بمباری کی وجہ سے تورہ بورہ کی اصطلاح رائج ہوگئی۔جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف دونوں کی حیثیت امریکہ کے ”چھوٹو“ یانکے حکمرانوں کی تھی طالبان کے خاتمہ کے بعد جب جنرل پرویز مشرف نے اگست 2003ء میں امریکہ کادورہ کیا تو امریکی تاریخ کے نااہل تین صدر جارج ڈبلوبش جونیئر ان سے بہت خوش تھے جب امریکی صدر کسی نکے حکمران سے خوش ہوں تو انہیں ”کمپ ڈیوڈ“ میں مدعو کرتے ہیں جو ایک تفریحی صدارتی مقام ہے صدربش نے مشرف کو بھی وہاں مدعو کیا تھا اورہم نے میڈیا ٹیم کی حیثیت سے اس ملاقات کامنظر اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جنرل مشرف جس دن واشنگٹن پہنچے تو ان کی آمد کی خبر کسی بھی امریکی اخبار میں شائع نہیں ہوئی تھی۔
رات جب پاکستانی صحافیوں سے اسکی وجہ دریافت کی گئی تو انہوں نے کہا کہ پاکستان کے دارالحکومت میں ہرروز ملک بھر سے سینکڑوں بلدیاتی چیئرمین اورکونسلر موجود ہوتے ہیں لیکن ان کی موجودگی کاکوئی نوٹس نہیں لیاجاتا اسی طرح واشنگٹن اس وقت ساری دنیا کا پایہ تخت ہے اور یہاں پر ہرہفتہ کوئی نہ کوئی نکا حکمران ابا کے پاس حاضری دینے آتا ہے لیکن میڈیا میں انکی خبریں شائع نہیں ہوتیں۔انکے بقول افغانستان میں امریکہ کاکام نکلنے کے بعد جنرل مشرف کی حیثیت بھی ایک نکے حکمران کی رہ گئی ہے اس لئے امریکی میڈیا نے ان کی آمد کو کوئی اہمیت نہیں دی۔
کیمپ ڈیوڈ میں صدربش سے ملاقات کے بعد پاکستانی سفارت خانہ نے واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز کے فرنٹ پیج کاایک حصہ لاکھوں ڈالر میں خریداجہاں پر مشرف کی خبر اورتصویر شائع ہوئی۔
”نکے اورابا“کارشتہ صرف تیسری دنیا کے غریب ممالک پر موقوف نہیں بلکہ کئی بادشاہ اور آمر بھی صدر امریکہ کوابا کا درجہ دیتے ہیں حال ہی میں شکست کھانے والے صدرڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے کئی بادشاہوں اور آمروں کونکا سمجھ کر ابا کا کردار ادا کرتے تھے ٹرمپ کی شکست سے ان بادشاہوں سمیت دنیا کے کئی نکے حکمران سراسمیگی پریشانی اور گھبراہٹ کا شکار ہوگئے ہیں حالانکہ امریکہ توصرف اپنا مفاد دیکھتا ہے اسے نکے حکمرانوں سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے لیکن سارے نکے اس خوف میں مبتلا ہیں کہ نئے ”ابا“ کہیں دست شفقت نہ اٹھالے تیسری دنیا میں ایک اوروبال بھی ہے یعنی وہاں ایک نکا حکمران ہوتا ہے۔نکے کاایک ابا ہوتا ہے اور اس ابا کابھی ایک اباامریکہ میں بیٹھا ہوتاہے۔
ان نکے حکمرانوں کاخوف بلاسبب نہیں ہے کیونکہ امریکہ کا نیا حکمران کچھ نہ کچھ تبدیلیاں تو لائے گا جوبائیڈن نے منتخب ہوتے ہی ڈبلیوایچ دوبارہ جوائن کرنے کا اعلان کیا عالمی ادارہ صحت کوصدرٹرمپ نے خیرباد کہہ دیا تھا اور اس کی مالی امداد بھی بند کردی تھی موصوف نے اقوام متحدہ کی مالی امداد بھی روک دی تھی اور کہا تھا کہ یہ امریکہ مخالف اقوام کی یونین ہے اور صرف چین کے مفادات کو دیکھتی ہے۔
صدرٹرمپ نے دنیا میں آلودگی روکنے کے معاہدہ سے بھی کنارہ کشی کرلی تھی انہوں نے پہلے ٹوکیو اور بعدازاں پیرس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی تھی تاہم نئے صدر نے دونوں معاہدوں کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے صدر ٹرمپ کرونا وائرس کو چائنا وائرس کہہ کر پکارتے تھے اور ان کاالزام تھا کہ یہ وائرس چین نے ووہان کی لیبارٹری میں تیار کی ہے جبکہ نئے صدر نے ساری توجہ کرونا کے تدارک کے پروگرام دی ہے۔لیکن ابھی تک معلوم نہیں کہ ڈونلڈٹرمپ اقتدار کی پرامن منتقلی کیلئے تیار ہیں کہ نہیں انہوں نے اپنے وزیردفاع کو اس لئے برطرف کیا کہ انہوں نے صدر ٹرمپ کی حامیوں کی مخالفانہ ریلیوں کے دفاع کیلئے فوج سڑکوں پرلانے سے انکارکردیا تھا ساری امریکی انتظامیہ صدرٹرمپ کی منت سماجت کررہی ہے کہ وہ اقتدار کی منتقلی کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالیں شکست کے بعد بے چارہ ٹرمپ کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ ان کی اہلیہ میلانیا نے بھی انہیں چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے کسی فلاسفر نے سچ کہا ہے کہ شکست کا کوئی ساتھی نہیں ہوتا۔
ہمارے ملک سے بھی کچھ اچھی خبریں آنا شروع ہوگئی ہیں چند روز قبل وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈیئراعجاز شاہ نے اے این پی کے رہنماؤں اور حامیوں کے قتل عام کا ذکر انتہائی رعونت آمیز طریقے سے کیا تھا اور دھمکی دی تھی کہ اگر ن لیگ نے روش نہیں بدلی تو اس کا انجام بھی اے این پی جیسے ہوگا اس بیان کیخلاف اے این پی نے احتجاج کافیصلہ کیا تھا جس پر اوپر سے وزیرداخلہ کوہدایت کی گئی کہ وہ پرویز خٹک کو ساتھ لیکر اے این پی کی قیادت کے پاس جرگہ لے جائیں اورمعافی مانگیں چنانچہ اعجازشاہ باچا خان مرکز گئے اور معافی مانگ لی جوپشتون روایات کے مطابق قبول کرلی گئی مجھے یقین ہے کہ اتنا بڑا اقدام عمران خان کی ہدایت پرنہیں کیا گیا ہوگا کیونکہ وہ اپنے بزرگ ٹرمپ کی طرح مذاکرات بات چیت جرگہ اور معافی تلافی پریقین نہیں رکھتے اگر رکھتے تو لمبے بالوں والے وزیر علی امین گنڈاپور کی دشنام طرازی پرضرور معذرت کرلیتے انکی طبیعت ضدی بچوں جیسی ہے جس میں غلطی نہ ماننا ضروری ہے۔
ایک اورخبر یہ ہے کہ حکام بالا سے گلگت بلتستان کوصوبہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے اس سلسلے میں آج سیاسی رہنماؤں کو بریفنگ دی جائیگی حکام کی جومرضی کریں لیکن اگریہ فیصلہ کرلیا گیا تو اسے مسئلہ کشمیر کا مستقل حل سمجھاجائیگا یعنی جو حصہ انڈیا کے پاس ہے وہ اسی کا رہے گا اور پاکستانی کشمیر کو پاکستان کاحصہ قراردے کر بالآخر اسکی موجودہ حیثیت ختم کردی جائے گی
اللہ اللہ خیرصلہ
اچھی بات ہے کہ ہمارے حکمران سمجھ گئے کہ وہ جنگ کے ذریعے یہ مسئلہ حل نہیں کرسکتے لہٰذا اسے ایک اور انداز میں حل کیاجارہا ہے۔جہاں تک نئے امریکی صدر کی پالیسیوں کاتعلق ہے تو اس سے یقینی طورافغانستان اور پاکستان متاثر ہونگے افغانستان سے امریکی انخلا ایک نازک فیصلہ ہے نئے صدرطالبان اورٹرمپ انتظامیہ کے معاہدے کو برقراررکھیں گے لیکن یہ شرط رکھیں گے کہ اگرطالبان نے تشدد بند نہ کیا تو انخلا روک دیاجائیگا پاکستان کی سیاست پرکوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہونگے کیونکہ پاکستان فی زمانہ چین کے اثر میں ہے البتہ مشرق وسطی اور ایران کے حوالے سے کچھ ہوا تو اسکے اثرات پاکستان پربھی لازمی پڑیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں