ریگستان میں صحرا

تحریر: انورساجدی
قترقی یافتہ دنیا اور پاکستانی میڈیا میں بنیادی فرق یہ ہے کہ وہاں پر خبریں تجزیئے اور تحقیقاتی رپورٹیں شائع کی جاتی ہیں وہاں پر سیاستدانوں کی بجائے انسانی دلچسپی معاشی اور سائنسی خبروں کو اہمیت دی جاتی ہے ہمارے ہاں اخبارات کے صفحات اور ٹی وی چینل سیاستدانوں کے بیانات ملکی اور عالمی صورتحال پر ان کے بے بنیاد اور حقیقت سے دور تجزیہ شائع اور نشر کرتے ہیں۔
جب سے پی ڈی ایم بنی ہے سیاست اس کے گرد گھومتی ہے ایک طوفان برپا ہے کوئی اسے بھان متی کا کنبہ کہہ رہا ہے جبکہ بعض مکس اچار جواب میں اپوزیشن سرکاری اکابرین کو آٹا چور، چینی چور، سلیکٹڈ اور ریجیکٹڈ کا نام دے رہی ہے گزشتہ روز جو خبر سب سے زیادہ دلچسپی کا باعث بنی وہ بی بی بختاور کی منگنی کی خبر تھی اس کا علان اچانک کیا گیا جس سے اکثر لوگ حیرت میں پڑ گئے جبکہ رات گئے پاکستان میں مقیم متنازع امریکی خاتون سنتھیا ڈی رچی نے اپنے ٹویٹ میں یہ سوال پوچھا کہ آصف علی زرداری نے اپنی بیٹی کا رشتہ اپنے خاندان سے باہر ایک احمدی خاندان میں کیسے کیا ان کا یہ انکشاف خاصا پراسرار اور شرارت آمیز تھا سوال یہ ہے کہ ایک امریکی شہری کو زرداری اور اس کے خاندان سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ دوسری بات یہ کہ سنتھیا کو اندر کی معلومات کون فراہم کر رہا ہے ایک خاص دانشور زید زماں حامد اور ان کے ساتھیوں نے بے شمار مواد سوشل میڈیا پر چھوڑا۔
ابھی معلوم نہیں کہ زرداری خاندان کب اس پروپیگنڈے کا جواب دے گا یا خاموشی اختیار کرے گا بہت جلد اصل صورتحال واضع ہو جائیگی زید زماں نے تو بختاور کے سسر یونس چوہدری کی کتاب کا سرورق اور ایک خلاصہ بھی جاری کیا ہے جس میں یونس چوہدری نے اپنے والد کی گرفتاری کو احمدی عقیدہ سے جوڑا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ خود یونس چوہدری ابھی تک قادیانی ہوں وہ ایک آرائیں ہیں اور ان کا آبائی علاقہ ساہیوال ہے۔
لوگوں کو یاد ہو گا کہ جب منظور وٹو پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو ان کے والد فوت ہو گئے تھے جب ان کی نماز جنازہ پڑھائی جا رہی تھی تو وٹو نے اس میں شرکت نہیں کی اور قبرستان میں الگ تھلگ کھڑے رہے میڈیا کو پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ مسلمان ہیں جبکہ ان کے والد احمدی تھے اس لئے انہوں نے نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی پنجاب کی چونکہ دس فیصد آبادی احمدی ہے اس لئے یہ اندازہ لگایا نہیں جا سکتا کہ کس بڑے خاندان کا تعلق احمدی فرقہ سے ہے فی زمانہ ان میں سے بیشتر لوگ اپنا عقیدہ مخفی رکھتے ہیں کیونکہ شناخت ظاہونے پر انہیں کسی بھی انہونی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے
مغرب میں عقیدہ ذاتی معاملہ تصور کیا جاتا ہے اس لئے کوئی کسی کا مذہب نہیں پوچھتا جبکہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے جب سے قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کیا جا چکا ہے ان کے خلاف بعض حلقوں میں نفرت پائی جاتی ہے حتیٰ کہ بعض اوقات ان کے شہری اور بنیادی حقوق پر بھی زد آتی ہے چونکہ زرداری پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں اس لئے وہ پبلک فگر ہیں اور ان کے ہر عمل پر عوام کی نظر ہوتی ہے لہذا اگر ان سے کوئی غلط فیصلہ ہو جائے تو رد عمل بھی سخت آتا ہے۔
سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے یہ دلچسپ سوال پوچھا ہے کہ گھر بس جانے کے بعد بی بی بختاور اپنے نام میں کیا تبدیلی لائیں گی اس وقت ان کے نام کے ساتھ بھٹو زرداری کے لاحقے ہیں شادی کے بعد وہ اپنا نام بختیار چوہدری بھی رکھ سکتی ہیں یا بختاور بھٹو چوہدری ورنہ بختاور زرداری چوہدری کا نام اختیار کر سکتی ہیں بے نظیر کی شہادت کے بعد زرداری خاندان میں پہلی خوشی آ رہی ہے اس لئے زرداری خاندان اور پیپلز پارٹی کے کارکن خاصے شاداں و فرحان نظر آ رہے ہیں وہ انتظار میں ہیں کہ ان کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے لئے چوہدرائن کا انتخاب کب کریں گے ملک کے بڑے لیڈر کی حیثیت پارٹی کے پیروکار بلاول بھٹو کا گھر بستا دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ آصف علی زرداری کے اکلوتے بیٹے ہیں ان کے والد بھی اکیلے تھے بلاول بھی اسی طرح اکیلے ہیں آصف اپنے خاندان کو بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کی بڑی سیاسی و معاشی سلطنت کو زیادہ وارث چاہئیں پاکستان کی جو سیاست ہے لگتا ہے ”اسٹیٹس کو“ برقرار رہے گا آخری نئی جماعت تحریک انصاف تھی جس کو اسٹیٹس کو توڑنے کیلئے لایا گیا تھا اگر مستقبل میں یہ جماعت برقرار رہی تو اچھی بات ہے لیکن لگتا نہیں کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے بعد کوئی اور جماعت ملکی سطح پر قومی جماعت کی حیثیت حاصل کر سکے گی کیونکہ جماعت چلانے کیلئے اربوں روپے کی ضرورت ہوتی ہے اتنے وسائل پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے تیسری جماعت کی اس وقت جمعیت علمائے اسلام کو حاصل ہے جبکہ جماعت اسلامی بھی یہ پوزیشن حاصل کرنے کیلئے تگ و دو کر رہی ہے 2008ء کے انتخابات کے بعد یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ امریکہ اور انگلینڈ کی طرح پاکستان میں بھی دو جماعتی نظام مستحکم ہو جائیگا 2013ء میں اس توقع کو اچھی خاصی تقویت ملی تھی لیکن 2018ء میں غیر متوقع طور پر تحریک انصاف نے اسٹیٹس کو توڑ دیا اور دونوں جماعتوں کو شکست سے ہمکنار کر کے اقتدار پر قابض ہونے میں کامیاب ہو گئی یہ الگ بات کہ تمام مخالف جماعتوں نے ان انتخابات کو انجینئرڈ قرار دیا عمران خان کو سلیکٹڈ وزیراعظم کہا ان کا الزام ہے کہ تحریک انصاف کو ایک زبردست جھرلو کے ذریعے کامیابی دلائی گئی اسی وجہ سے پی ڈی ایم کا قیام عمل میں لایا گیا جس نے گزشتہ ماہ سے ایک تحریک کا آغاز کیا ہے اس تحریک کے خدوخال ابھی تک واضع نہیں کیونکہ دو جلسوں کے بعد مقتدرہ نے پی ڈی ایم کے بعض رہنماؤں نے خفیہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کر کے انہیں کمال مہارت سے مصروف رکھا یہی وجہ ہے کہ بلاول نے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں ایک الگ موقف پیش کیا جبکہ مریم بی بی نے اپنے انٹرویو میں ایک مختلف نکتہ نظر پیش کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جماعتیں لارے لپے میں آ رہی ہیں اگر ان لوگوں نے مولانا کے مشورے پر عمل نہیں کیا تو پی ڈی ایم ایک ایسی تحریک چلانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی جو کہ حکومت کے خاتمہ کیلئے ضروری ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ تحریک انصاف اور اس کے محسنوں کے درمیان وہ گرمجوشی باقی نہیں رہی جو دو سال پہلے تک موجود تھی پی ڈی ایم اتنا تو کر سکا ہے کہ ان تعلقات میں سردمہری اور رخنہ لے آیا ہے جو حکومتی اکابرین ہیں انہیں مقتدرہ اور اپوزیشن کے درپردہ تعلقات پر شدید تحفظات ہیں وہ باقاعدہ طعنہ زنی کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پی ڈی ایم جو سیاسی مداخلت کے خاتمہ کا نعرہ لگا رہی ہے جبکہ وہ یوٹرن لے کر خود نئی مداخلت کی دعوت دے رہی ہے اگر حالات اسی طرح رہے تو آئندہ دو تین ماہ میں کافی مدوجزر پیدا ہونگے جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی حکومت اپنی موجودہ حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوگی بلکہ ایک بار پھر ملک میں تبدیلی کی ہوائیں چلنا شروع ہو جائیں گی اس سلسلے میں بلاول کا موقف ہے کہ ان ہاؤس تبدیلی لانے کیلئے کوشش کی جائے جس کا آغاز پنجاب سے کیا جائے جبکہ مولانا و ن لیگ جلد بازی میں مبتلا ہیں ان کا خیال ہے کہ سست روی اختیار کی گئی تو ان کی تحریک مقررہ وقت میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی یہ بات اچھا خاصا پراسرار ہے کہ نواز شریف کے سخت موقف کے باوجود نواز شریف کے پاس بار بار قاصد کیوں بھیجے جا رہے ہیں اور میاں صاحب ان قاصدوں سے ملنے اور ملاقات کرنے پر کیوں مجبور ہیں ادھر حکومت کی کوشش ہے کہ مسلم لیگ کے اراکین کو توڑ کر ایک نیا داؤ کھیلا جائے لیکن نیشنل سیکورٹی کو جو خطرات درپیش ہیں وہ حالات کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ نیشنل سیکورٹی کے ذمہ داران کا خیال ہے کہ سیاسی عدم استحکام سے یہ خطرات بڑھ جائیں گے جبکہ معاشی مسائل اور کورونا کی وجہ سے ملک ایک مشکل صورتحال کی طرف جا رہا ہے مولانا نے اس صوررتحال کے پیش نظر پیغام بھیجا ہے کہ تحریک انصاف کی نااہل حکومت کو ہٹا کر ایک قومی حکومت قائم کی جائے تاہم مولانا نے یہ نہیں بتایا کہ ایک منتخب حکومت کو کس طرح ہٹایا جائیگا اس کیلئے کون سے طریقے استعمال کئے جائیں گے یہ سرکاری جماعت کیلئے کافی پریشان کن صورتحال ہے اکثر رہنماء بوکھلائے ہوئے ہیں حتیٰ کہ وزیراعظم بھی اچھے خاصے پریشان ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ تربت میں عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ
انہوں نے اوپر سے دیکھا کہ ریگستان کے اندر صحرا ہے اور صحرا میں پانی ہے جبکہ پانی میں پوٹینشل ہوتا ہے غالبا ًوزیراعظم صحرا میں نخلستان بولنا چاہتے تھے لیکن ذہنی پریشانیوں کی وجہ سے وہ یہ کہنا بھول گئے جس کی وجہ سے مخالفین نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کی قابلیت پر سوالات اٹھائے وزیراعظم اس طرح کی غلطیاں شروع سے کرتے چلے آ رہے ہیں توقع ہے کہ وہ آئندہ ایسی غلطیوں اور ہواس باختگی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں