غیر رسمی اتحادی۔۔۔!

تحریر: رشید بلوچ
پی ڈی ایم کو تین بڑے عوامی اجتماع کے بعد ایک نئی میثاق کی ضرورت محسوس ہوئی،پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں نے 12نکات پر مشتمل میثاق پر رضا مند ہو گئی ہیں جسے“ میثاق پاکستان“ کا نام دیا گیا ہے،میثاق میں درج ایک کوئی بھی ایسا نکتہ موجود نہیں ہے جس پر حزب اختلاف کی جماعتوں نے میثاق سے پہلے کسی قسم کااختلاف رکھا ہو، 18ویں ترمیم،شفاف الیکشن،غیرجانبدار اور مداخلت کے بغیر انتخابات وغیر ہ شروع دن سے اپوزیشن جماعتوں کا مطالبہ رہا ہے، پی ڈی ایم بنی ہی انہی نکات پر تھی ،نہ جانے کیوں اپوزیشن باالخصوص مولانا صاحب کو ایک بار پھر پرانے نکات کو لیکر نئی میثاق کی ضرورت پیش آگئی؟ اس سے قبل مشرف دور حکوت میں پاکستان کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے سر براہان محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے اپنی جلاوطنی کے دوران لندن میں ایک میثاق پر سائن کیاتھا،یہ معاہدہ میثاق جمہوریت (Charter of Democracy) کہلایا گیا،لندن میں ہونے والے میثاق جمہوریت (Charter of Democracy) میں دو بڑی جماعتوں نے ایک بنیادی نکتے پر اتفاق کیا تھا وہ یہ کہ دونوں جماعتیں کسی تیسری قوت کا آلہ کار بن کر ایک دوسرے کی ٹانگیں نہیں کھینچیں گی،دونوں جماعتوں میں جو بھی جماعت اقتدار میں آئے گی دوسری جماعت اسے اپنی پنج سالہ مدت پوری کرنے دے گی، دونوں جماعتوں کے درمیان ہونے والے اس دستا ویزی معاہدے کا یہ فائدہ ہو ا پیپلز پارٹی نے 2008 سے 2013 تک اپنی پانچ سال کی مدت پوری کر لی،قطعہ نظر اس کے اس وقت کے چیف جسٹس چوہدری افتخار نے آصف علی زرداری کے خلاف ن لیگ کی جانب سے میموگیٹ پٹیشن دائر کی گئی جس کا خمیازہ اب تک آصف علی زرداری بھگت رہے ہیں، جب کہ سوئس اکاؤنٹ کیس سے متعلق خط لکھنے سے انکار کرنے پر پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیج دیا گیا ، یہ بات ماننی پڑے گی کہ میثاق جمہوریت کی پاسداری کرتے ہوئے ن لیگ نے خود آلہ کار بننے کے بجائے پاکستان کے سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس کو آلہ کار بنا کر منتخب وزیر اعظم کو نااہل قرار دلوایا، اسے آپ مکافات عمل کہیں یا وقت کی پلٹ وار، نواز شریف خود ہی مشہور زمانہ پانامہ معاملے کے از خود نوٹس والے کیس میں ثاقب نثار کے فیصلے کا خوراک بن گئے،پانامہ کیس کے فیصلے نے نہ صرف نواز شریف کو وزارت عظمی سے بیدخل کر دیا بلکہ انہیں اب تک نا اہلی کا سامنا ہے،نواز شریف اب جلاوطن ہوکر نیا بیانیہ سیٹ کر رہے ہیں۔۔
میثاق یا Charter میں ہمیشہ متحارب گروپ یا مخالف قوت کے درمیان چند اصول طے کیئے جاتے ہیں خواہ وہ جنگی اصول ہوں یا دو فریقوں میں چند ایک سمت کا تعین کرنا ہو، میثاق مخالف گروپوں میں کثیر المدتی یا
مختصر مدتی معاہدے کا نام ہے،حالیہ برس میں قطر میں ہونے والے امریکہ،طالبان معاہدہ افغانستان میں جاری جنگ بندی کا دو قوتوں کے درمیان میثاق“ معاہدہ“ تھا،اسی طرح بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان لندن کا میثاق جمہوریت (Charter of Democracy) دو مخالف سیاسی پارٹیوں کے درمیان کچھ اصول طے کرنے کا نام ہے کیونکہ یہ دونوں جماعتیں ہمیشہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر اقتدار سے گرانے کا کام کرتی رہی ہیں، جب کسی بھی معاملے پر فریقین کے ما بین بنیادی نکات پر کوئی اعتراض نہ ہو سب یکجاہ ہو کر کسی تیسری قوت کے خلاف سر بہ پیکار ہوں وہاں آپس میں میثاق کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی،اتحاد کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ سامنے کھڑی رکاوٹ کو مشترکہ جدوجہد سے ہٹانے پر رضامند ہوچکے ہیں،تین جلسوں اور درجنوں مشترکہ پریس کانفرنسوں کے بعد پی ڈی ایم کے نئی میثاق بنانے کے مقصد سے یہی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ 11 جماعتوں کے مابین اب تک جملہ معاملات میں یکسوئی اور اتفاق نہیں تھا،نئی میثاق کے زریعہ تمام جماعتوں کو دوبارہ یکجاہ کرکے“ ٹریک“ پر لانے کوشش کی گئی ہے،پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی نئی میثاق مریم نواز کے طاقتور طبقے کی جانب سے“بات چیت“ کے انکشاف اور پیپلز پارٹی،ن لیگ اور جمعیت کے اندر درون خانہ ایک دوسرے کو چکمہ دے دے آگے نکل جانے کے خدشے کو پیش نظر رکھ کرعمل میں لایا گیا ہے،اگر ہماری قوم پرست جماعتوں کے لیڈر صاحباں برا نہ منائیں تو ان 3 جماعتوں کے علاوہ باقی تمام کی تمام جماعتیں پی ڈی ایم کے غیر رسمی اتحادی ہیں،ہماری قوم پرست جماعتوں کو“نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن، کی دہری پریشانی کا سامنا ہے،نہ اپوزیشن اہم فیصلوں میں اعتماد میں لے رہی ہے اور نہ ہی حکومت میں شامل ہونے سکت باقی رہ گئی ہے اس لیئے انہیں غیر رسمی اتحادی کہنا پڑ رہاہے،اگر ان کو اپنے غیر رسمی ہونے پر انہیں زرہ برابر بھی شک ہے تو پی ڈی ایم اجلاس میں مولانا صاحب کا محسن داوڑ کے ساتھ جارحانہ رویئے کی گواہی وہ خود دے سکتے ہیں، ہماری معلومات کے مطابق اپوزیشن کے“میثاق پاکستان“میں گوادر میں قانون سازی سمیت بلوچ قوم پرست جماعتوں کے بنیادی مطالبات کا کہیں بھی زکر موجود نہیں ہے،اگر یہ میثاق اتفاق رائے سے ہوا ہے تو بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کے بنیادی مطالبات کا کم از کم ایک شق موجود ہونا چاہئے تھا، مریم نواز کی بی بی سی کو دیئے گئے ا نٹرویو میں انکشافات کے بعد ہم نے اپنی قوم پرست جماعت کے ایک اہم لیڈر سے پوچھا تا کہ مریم بی بی کی“بات چیت“ سے متعلق انکشاف کے سیاق وسباق
سے متعلق کچھ بتا دیں الٹا انہوں نے ہم سے دریافت کرنا شروع کر دیا،اس وقت ہمیں اندازہ ہوگیا کہ ہماری قیادت رسمی اتحادی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں