جی بی انتخابات۔۔۔اصل پیغام اور بیانیے۔

تحریر: راحت ملک
15نومبر کو گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات کے نتائج نے سیاسی اختلافات کی خلیج مزید گہری کردی ہے پی ٹی آئی اپنی کامیابی کو اپوزیشن کے بیانیے کی شکست قرار دے کر اگر اپنی فتح پر اترا رہی ہے تو اس موقف کے ذریعے وہ پی ڈی ایم کے اس بیانیے کو جو جمہوری بالادستی اور شفاف انتخابات کے مطالبات پر مبنی ہے کی ناکامی کہہ کر اپنی کامیابی کو غیر جمہوری بھی قرار دے رہی ہے کیا شفاف اور آزادانہ جمہوری انتخابات پی ٹی آئی کے سیاسی موقف میں جگہ نہیں رکھتے؟ کیا وہ مصفانہ غیر جانبدار انتخابات کے حق میں نہیں؟؟ لیذا پی ٹی آئی کے پریس بیانات سے یہ سوال بھی بحث کا موضوع بنے گا۔
پی ڈی ایم کا بیانیہ اس وقت طاقت ور حلقے اور مائنڈ سیٹ کے خلاف ہے جو غیر آئینی طور پر سیاست اور جمہوری عمل میں رخنہ اندازی ومداخلت کرتا ہے۔چنانچہ اگر یہ بات مان لی جائے کہ جی بی کے انتخابات پی ڈی ایم کے اس بیانیے کی شکست ہے تو پھر اس انتخابات میں فتحمند کون ہوا ہے؟ پی ٹی آئی یا وہ حلقہ جو آزادنہ شفاف جمہوری عمل کی مزاحمت کر کے من پسند نتائج مرتب کرتا ہے؟ پی ٹی آئی کو اپنے حالیہ بیانات کی سیاسی بلوغت پر بار بار توجہ دینے غور کرکے اجراء کرنے کا مشورہ بروقت نہ بھی ہو تب بھی صائب تو بہرحال ہے۔
دلیل دی جاتی ہے کہ جی بی کی انتخابی روایت یہی رہی ہے کہ جو جماعت وفاق میں حکمران ہو وہی جی بی میں بھی کامیاب ہو کر حکومت بناتی ہے یہ ایک بے تکی بات ہے اور اس کے واضح معنی یہ ہونگے کہ جی بی میں کبھی کوئی سیاسی جماعت انتخابی معرکے میں کامیاب نہیں ہوتی بلکہ وفاق کی حکومت ھی اس نیم صوبائی قانون ساز اسمبلی میں انتخاب جیت کر حکومت بناتی ہے چنانچہاس بحث کا سارا نتیجہ یہ نکلے گا کہ حالیہ انتخابات میں بھی حکومت جیتی ہے نہ کہ پی ٹی آئی اور اسی تناظر میں ہن ہی کوئی سیاسی جماعت ہاری ہے!!! بلکہ جنہیں اقتدار کی آشیر باد میسر نہیں تھی وہ ہار گئے ہیں کیا دلیل کا یہ پہلو جی بی کے عوام اور ووٹرز،کی توہین پر مبنی نہیں؟ جو انہیں موقع پرست مفاد پرست اور اقتدار کی غلام گردشوں کا اسیر ثابت کرتا ہے؟ ثانوی طور پر مذکورہ استد لال ایک بار پھر انتخاب میں عدم شفافیت کی تائید کرتے ہوئے ثابت کرتا ہے کہ حکومت اپنے سرکاری وسائل واثر ورسوخ سے انتخاب جیتی ہے نا کہ سیاسی ساکھ یا پروگرام کی بنیاد پر۔۔لہذا یہ فتح حکومت کی ہے سیاسی جماعت کی تو نہیں۔ چونکہ پی ٹی آئی وفاق میں حکمران ہے لہذا ازراہ لحاظ مروت یا محض تففن ٍ طبع کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی انتخاب جیتی ہے۔!!!
اس استد لال میں بھی تعقل کا عنصر مفقود ہے فرض کرتے ہیں کہ جی بی کے عوام وفاق سے بہتر مالی تعاون کے ذریعے اپنے مسائل کے حل کے لئے ایسی جماعت پر انحصار کرتے ہیں جو وفاق کی حکمران ہو تو کیا انہوں نے موجودہ سیاسی جماعت کی پاکستان میں نااہلی یا ”حسن کارکردگی” کو نظر انداز نہیں کردیا؟کہ جو جماعت حکمران ہوتے ہوئے وفاق پنجاب اور کے پی کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوئی بلکہ ملک کے داخلی استحکام،معیشت کے انہدام مہنگائی بے روز گاری میں بے تحاشہ اضافے اور سیاسی کشیدگیوں میں تیزی لانے کا باعث بنی ہے وہ جی بی کے عوام کے دیرینہ اور سلگتے ہوئے مسائل بھی حل کرنے گی؟ تو کیسے اور کیونکر حل کرپائے گی؟
۔جی بی کے لوگوں نے اس جانب سے آنکھیں بند کر کے اگر پی ٹی آئی کو ووٹ دیئے ہیں تو میں اس غیر اخلاقی مفروضے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہوں۔
یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ جی بی کے عوام نے وفاقی حکومت کی ناقص پالیسیوں اور نااہلی کو نظر انداز کر کے محض خوش گمانی اور اچھی امید پر اس سے توقعات باندھ لی ہیں!!! حالانکہ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ جی بی کے عوام بھی جانتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک سے بڑھتے ہوئے دباؤ اور حکومتی ناکامیوں نے پی ٹی آئی کے اقتدار کو دھندلا رکھا ہے غیر یقینی کی روز افزوں بڑھتی صورتحال سیاسی کشیدگی اور تناؤکے ماحول میں موجودہ حکومت کے مزید برسر اقتدار رہنے کے امکانات پہلے کے مقابلے میں کم ہوتے جارہے ہیں تو پھر جی بی والوں نے کس امید توقع بھرتے اور خوش گمانی پر اس ڈوبتی کشتی میں سواری کا فیصلہ کیا ہے؟
پیپلزپارٹی کو جب وہ برسر اقتدار تھی مسلم لیگ کے مقابلے میں کم سیٹیں ملی تھیں اب کی بار تو پی ٹی آئی کو مرکزی مقتدر جماعت ہوتے ہوئے بھی سات سیٹیں ملی ہیں (اعداد وشمار دیکھے جاسکتے ہیں)اس عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ جی بی کے عوام پر یہ تہمت کے وہ سیاسی شعور فہم و فراست سے عاری محض ہوس اقتدار کے رسیا ہیں بلکل غلط ہے تینوں انتخابات کے اعداد وشمار اس امر کی تائید کرتے ہیں کہ جی بی کی سیاسی ثقافت وفاقی حکومت کی دم چھلا بننے سے قطعی مختلف ہے حالیہ انتخابات اس کا واضح ثبوت ہیں۔اپوزیشن جماعتیں دھاندلی کے جو الزامات لگا رہی ہیں وہ 14نومبر کو وفاقی حکومت کے ان اعلانات کی روشنی میں قابل فہم نظر آتے ہیں جن میں پولنگ سے قبل پی ٹی آئی کی فتح کا ببانگ دھل اظہار کیا گیا تھا، بعض مقامی صحافتی ذرائع بھی انتخاب سے قبل 14حلقوں میں پی ٹی آئی کی کامیابی کے قبل از انتخاب کامیابی کے نوٹیفکیشن تیار کیے جانے یا اس کی منصوبہ بندی کرنے کے متعلق اطلاعات عام کررہے ہیں۔
جی بی کی جغرافیائی اہمیت ہمیشہ بہت اہم رہی ہے کشمیر اور دیگر پہلوؤں سے یہ علاقہ اہم دفاعی نوعیت کا حامل ہے اور انتہائی حساس سیاسی اہمیت رکھتا ہے سی پیک منصوبے کے اجرائسے اس کی اہمیت دو چند ہوچکی ہے تاریخی شواہدکے مطابق یہ علاقہ متنازعہ جموں کشمیر کا حصہ ہے اور اہم تذویراتی تجارتی شاہراہ سی پیک کا اہم پاکستانی علاقہ ہے چنانچہ چین اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے لئے اس علاقے میں سرمایہ کاری کرنا سہل نہیں۔عالمی مالیاتی ادارے بالخصوس اس سے گریزاں رہے ہیں
دیامیر باشا ڈیم اور دیگر آبی منصوبوں کے لئے اسی حوالے سے پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں سے تعاون میسر نہیں آسکا۔چین کی خواہش ہوگی کہ سی پیک کے اس منطقے میں سیاسی استحکام آئے اور تنازعات کا خاتمہ ہو۔یاکم از کم دباؤ میں نرمی لانے والے حالات پیدا ہوں۔بھات کے ساتھ کشیدگی کے علاوہ خود خطے میں فرقہ واریت اور داخلی کشیدگی کے اسباب کا موثر طویل المیعاد پائیدار حل نکالا جائے تاکہ اطمینان بخش طور پر سرمایہ کاری کا عمل رواں ہوسکے تجارتی شاہراہ کے دنیا کے بیشتر تجارتی سرگرمیوں سے اجتناب نہ کرے یا ادے دقت درپیش نہ آے اس جائز خواہش کے لئے جی بی کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی تجویز بھی زیر غور آئی تھی تاہم انتخابات سے قبل ملکی سیاسی قیادت اور عسکری ادارے میں اس پر جو مباحثہ ہوا تھا اس میں طے پایا کہ حتمی فیصلہ انتخابات کے بعد ہی ہوگا۔اس پہلو سے الگ بحث ہوسکتی ہے کہ صوبے کا درجہ دینا چاہیے یا نہیں؟؟ لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ جناب وزیراعظم نے پولنگ سے چند روز قبل جی بی کا دورہ کر کے وہاں اسے صوبائی درجہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔گزارش یہ ہے کہ پیچیدہ اور گھمبیرمسائل کے حل کے لئے مثبت موثر پیش رفت کا ابتدائی انحصار اس امر پر تھا کہ وہاں صاف شفاف انتخابات کے ذریعے ایسی سیاسی جمہوری حکومت قائم ہوپاتی جس کی عوامی ساکھ پہلے سے موجود ہو پی ٹی آئی انتخابات سے قبل وہاں وجود ہی نہیں رکھتی تھی اسمبلی کی تحلیل کے بعد بروقت انتخابات میں تاخیری حربے سے مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی میں نقب زنی کر کے ان کے رہنماؤں کو پی ٹی آئی کی چھتری پر اترا گیا یہ گویا بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی(باپ)کی طرح راتوں رات بنائی جانے والے مصنوعی سیاسی جماعت کے عمل کا احیائیا پارٹ ٹو تھا۔
اب سوالیہ ہے کہ وہاں حکومت کس جماعت کی بنتی ہے یہ بتانا قبل از وقت ہے لیکن مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اگر پی ٹی آئی کی قیادت میں وہاں حکومت بنی تو اس کی کارکردگی بھی بلوچستان میں باپ کی نااھلی سے مختلف نہیں ہوگی۔ترقیاتی عمل آگے بڑھے گا نہ سیاسی سماجی تعاون واستحکام کو فروغ ملے گا تو اس کا سب سے زیادہ نقصان سی پیک اور پھر جی بی کے عوام کا ہوگا جنہوں نے اگر ووٹ کے ذریعے پی ٹی آئی کومنتخب کیا ہے تو انہیں اس کی قیمت چکانی پڑجائے گی۔
حکومت پاکستان کرونا کے بڑھتے وبائی اثرات کی بنیاد پر پی ڈی ایم کے احتجاج کا راستہ روکنا چاہ رہی ہے کرونا سے بچاؤ لازمی ہونا چاہیے اور اس کا موثر راستہ مکمل لاک ڈاؤن ہی ہوسکتا تھا جبکہ مئی جون میں جب کرونا عروج پر تھا تو جناب عمران خان اسے نزلہ قرار دے کر لاک ڈاؤن کی مخالفت کی تھی لیکن اب ان کا طرز عمل اس کے بر عکس ہے۔ تو اس کی وجہ وباء نہیں بلکہ پی ڈی ایم کی سیاسی تحریک کے امکانی اثرات و نتائج ہیں کیونکہ شادی کی تقریبات کے لئے زیادہ سے زیادہ تین سو افراد پر مشتمل تقریب کی اجازت دی گئی ہے کیا 299 افراد جمع ہوں تو کرونا نہیں پھیلتا؟ مذکورہ اجازت کا اطلاق بھی کھلے مقام پر ہونے والی تقریب پر ہوگا حالانکہ سرد موسم میں شادی کی تقریبات فنوپی میں مبعقد ہوتی ہیں جو حال یا بند کمرے جیسا ہی ہوتا ہے۔ شاید تصور کیا گیا ہے کہ تین سو افراد کے جمع ہونے سے کرونا وباء پھیلتی ہے اور اگر تین سو افراد سے کم اجتماع ہوتو وہ وباء کے پھیلاو کا سبب نہیں بنتا۔ عجیب منطق کے تحت تجارتی اور کمرشل مارکیٹوں کو کھلا رکھنے کا عندیہ دیاگیا ہے۔آمد و رفت کے ذرائع بھی متحرک رہ سکتے ہیں تو پھر پی ڈی ایم کے جلسوں پر کرونا کے نام پر قدغن عائد کرنا مناسب کیسے ہوسکتا ہے؟۔پی ڈی ایم قیادت کو بھی جلسوں میں ممکن حد تک ماسک کے استعمال کو یقینی بنانا چاہیے۔ حکومتی خوف اس کی جمہوری بنیاد نہ ہونے کی دلیل ہے اور یہی بات 2018 کے متازعہ انتخابی نتائج کے متعلق شکوک کو مستحکم کرتی ہے۔ جاننا چاھیے کہ سیاسی صف آرائی میں حیلہ بازیاں کبھی کام نہیں آتیں۔
جی بی انتخابات کا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ سب کچھ 2018ء کا ہی اعادہ تھا گویا ایک واضح پیغام دیا گیا کہ طاقتور مقتدرہ اپنا روایتی غیر جمہوری مائند سیٹ بدلنے کا امکان نہیں۔اگر یہی پیغام ہی حتمی و اصلی حاکمانہ پالیسی ہے تو پھر بہتری کی امید کے آثار بہت کم ہوجاتے ہیں کیا ملکی محکمے ملک میں سیاسی استحکام و بہتری کے حق میں نہیں۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں