نیشنل ڈائیلاگ۔۔کن کے درمیان؟

تحریر: راحت ملک
ملتان جلسے کے دوران حکومتی اقدامات‘رویئے اور پکڑ دھکڑ کے خلاف پی ڈی ایم کے موقف وعزم کے واضح اظہار کے بعدملک کے سنجیدہ صحافتی حلقے ایک بار پھر ” تصادم ” سے بچنے کی دہائی دینے اور تمام اسٹیک ہولڈر کے مابین نئے عمرانی معاہدے یا مذاکرات کے ذریعے بحران حل کرنے کی تجویز دے رہے ہیں۔یہ تجویز سیاسی حلقوں کے نقطہ نظر سے ہم آہنگ ہے یا نہیں؟ اس سے قطع نظر مذکورہ تجویز بارے مباحثہ ہونا چاہیے کہ آیا یہ ملک کے آئینی سیاسی بندوبست میں رچی بسی سیاسی مداخلت کی بحرانی نوعیت اور کیفیت کو کم کرنے– حل کرنے میں معاون ہوگی؟ یا اس کے بر عکس بحران کے اسباب کو ختم کرنے کی بجائے اسے مستحکم سماجی تائید وسیاسی بنیاد مہیا کر دے گی؟ کیا ‘ تصادم کے خوف ” کے ذریعے. ملک میں سیاسی استحکام ممکن العمل ہے۔؟
پہلا سوال تو درپیش سیاسی بحران کی درست تشخیص کا متقاضی ہے۔لائحہ عمل وعلاج کا مرحلہ تو اس کے بعد سامنے آیا گا۔مرض چونکہ معاشرتی اجتماعی نوعیت رکھتا ہے لہذا اس کی تشخیص کے لئے مشاھدت کی بجائے عملی تجربے سے گذرنا ہوگا۔دریا کے کنارے کھڑے ہوئے تیراکی کے رموز سمجھانا نہایت مشکل ہے۔جبکہ دریا کے پانی میں اتر کر اس کے بہاؤ کی قوت کو جاننے کے بعد ہی ایک اچھا تیراک دریا کی چاروں سمت تیراکی کرسکتا ہے۔ تو لازماً اس بارے کسی قسم کی رایے بھی اسے کی معتبر ہوگی۔ وہ جو دریا کے پانی میں اترے ہوئے ہیں وہی جانتے ہیں کہ دریا کی روانی اور جوش کا رخ کیا ہے؟ اس کا مقابلہ کیسے کرنا ہے؟ اور کس سمت آگے بڑھا ہے؟
کہا جاتا ہے کہ حکومت کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔کیا یہ مطالبہ آئین پاکستان کی کسی شق سے اخذ کیا گیا ہے؟ کیا جمہوریت اور آئین کو الگ الگ خانوں میں بانٹ کر ملک کو مستحکم اور پائیدار جمہوری آئینی حکمرانی دی جا سکتی ہے؟
آئین میں منتخب ہونے والی پارلیمان کی مدت پانچ سال مقرر کی گئی ہنگامی حالات میں طے شدہ طریقہ کار کے مطابق البتہ اس میں مزید ایک سال کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ مدت بھی ناگزیر نہیں مشروط ہے۔لازمی نہیں کہ ہر منتخب شدہ پارلیمان پانچ سال یا جو بھی مقرر مدت ہواسے پورا کرے گی کیونکہ وزیراعظم اور اسی طرح صوبائی وزراء اعلیٰ اسمبلیوں کو قبل از وقت تحلیل کر کے قبل از وقت انتخابات کرانے کے مجاز ہیں۔ جب اسمبلی معینہ مدت سے قبل تحلیل ہوسکتی ہے تو اس کے اندر سے بننے والی حکومت کی پانچ سالہ مدت کے کیا معنی و مفہوم رہ جاتا ہے۔ ھاں مستحکم جمہوری نظام کی موجودگی کا عکس معینہ مدت کی تکمیل میں پوشیدہ ہے مستحکم جمہوریت نہ تو دھاندلی زدہ ہوتی ہے نہ نااھلیت کی مجسم تصویر۔ ناکام حکومت کا تسلسل بلذات جمہوریت مملکت اور معاشرتی وجود کی بقا کے منافی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر اسمبلی کو آئینی حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی حکومت کے خلاف کسی بھی وقت اور جتنی بار چاھے عدم اعتماد کی تحریک لاسکتی ہے۔ تحریک کی کامیابی سے اسے اقتدار سے الگ کرسکتی ہے اور پھر اپنے ووٹ آف کانفیڈس کے ذریعے اسے یا پھر کسی دوسری جماعت کو حکمران بنا سکتی ہے یہ آئینی ذرائع مسلمہ ہیں۔ان آئینی حوالوں کے بعد حکومت کو پانچ سالہ مدت پوری کرنے کا موقع دینے کی وکالت کرنے والے مصلحت کوشی یا غفلت شعاری کا مظاہرہ کررھے ہیں۔آئینی اور جمہوری مثالیت پسندی اس کے بالکل برعکس عمل کی راہیں وا کرتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آئینی جمہوریت کی نظری مثالیت پسندی پر کاربند ہونا مشکل عمل ہے جو مصالحانہ موقع پرستی کی بجائے اصولوں کی خاطر ڈٹ جانے،مشکلات قبول کرنے اور قربانیاں دینے کا متقاضی ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی،نیپ اور اب مسلم لیگ نون ریاستی طاقت کے خلاف آئینی بالادستی کا پرچم بلند کر کے قربانیوں کی روایت میں اضافہ کررہی ہیں۔ ماضی بعید و قریب میں سیاسی اکابرین کی بے مثال قربانیوں کی میراث بھی پھولوں کی سیج نہیں نہ ہی ہر کسی کے دامن میں دارورسن کی راہداریوں ں سے نکلتی اس میراث یہ مسندنشین ہونا ممکن ہے برادرم وجاہت مسعود نے سیاسی وراثت کے ناقد ین کو اس ترازو کے دوسرے پلڑے میں آن بیٹھنے کی چینوتی بھی دی ہے کہ "وہ آئے سامنے جس کے پاس قربانیوں کی میراث ہو”
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک اور حکومت کی ہٹ دھرمی تصادم کی فضاء پیدا کر رہی ہے جس کے نتیجے میں ” کچھ بھی ” ہوسکتا ہے۔یہ نعرہ بلند کرنے والے یہ تو نہیں کہنا چاہ رہے کہ پیش یا حالات میں انقلابی تبدیلیاں بھی نمو دار ہوسکتی ہیں بلکہ وہ تو جبر و آمریت کے تسلط کے سیاسی خوف سے جمہوری عوامی تحریک کو دھمکانے کے لئے اپنی تان بلند کررہے ہیں،شیخ رشید سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ملک میں گزشتہ کئی دہائیوں سے فیصلہ سازی کا مکمل اختیار کس کے پاس رھا اور اب بھی یہی سلسہ جاری ہے۔اقتدار بہ امر مجبوری۔”ادھوری جمہوریت” بننے اور پسندیدہ افراد کو منتخب کرانے طفیلی رسم بن کر رہ گئی ہے۔ اقتدار واختیار کی اسی تقسیم اور۔ دوئی نے پاکستان کے "جڑواں شہروں ” کو عملاً دو دارالحکومتوں میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ممالک غیر سے آنے والے سفارتی وفود۔ غیر ملکی وزراء اور سربراہان مملکت اب اسلام آباد سے پہلے پنڈی جا کر بات کرتے ہیں گویا پاکستان میں اقتدار کا مرکز منقسم ہوچکا ہے تو حکومت کا اعتبار و ساکھ بھی باقی نہیں رھی چنانچہ سفارتی شعبے میں پاکستان کی علاقائی،عالمی تنہائی اور ماضی کے دوست ممالک سے بڑھتی ہوئی ناراضی کے سیاہ فاصلے اب شہر اقتدار کی ہر دیوار پر سایہ فگن دکھائی دے رہے ہیں۔معاشی عدم استحکام ملکی تاریخ کی نچلی ترین سطح کو چھو چکا ہے ایسے میں "تمام اسٹیک ہولڈر ” کو ایک میز پر بیٹھ کر معاملات طے کرنے کی تجویز اگر آئینی مثالیت و وابستگی کی نفی کرتی ہے تو ساتھ ہی درپء ش بحران کا سبب بننے والے فریقین کی نشاندہی کا فریضہ بھی ادا کرتی ہے۔ مگر اس اکتفات کے ساتھ یوں انہیں سیاسی اسٹیک ہولڈر کا رتبہ عطا کرتے ہوئے کیا کبھی طاقت محض پندونصائح کے ذریعے اپنے ارادے بدلا کر تی ہے؟تاریخ عالم اور انبیاء علییم اسلام و تمام سیاسی سماجی مصلحین کی زندگیاں بتاتی ہیں کہ کسی بھی طاقت کو قانونی حدود میں لانے کے لئے اسکے مساوی قوت کی ضرورت پڑتی ہے۔اگر یہ بات درست نہ ہوتی تو تاریخ عالم کا ہر بر ورق انسانی خون کی ارزانی کی داستان نہ سناتا۔سماجی سیاسی توازن۔ قانون کے ذریعے اختیارات کی تقسیم اور اس پر اکتفا سماجی سیاسی معاشی طاقتوں کے توازن سے ہی قائم ہوپاتا ہے میں تصادم کے لفظ کو پرامن سیاسی جدوجہد کرنے والی عوامی تحریک کو قرار دے رہا ہوں۔تاریخی ارتقاء کے نتیجے میں اب ماضی کے برعکس پرامن انسانی سیاسی جدوجہد شہری آئینی سماجوں و ریاستوں میں کامیاب اور موثر حیثیت اختیار کرچکی ہے۔اگر شیخ رشید کو قابل اعتبار گواہ مان لیں تویہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا پاکستان اس وقت ماورائے ریاست ایک ریاست بن چکا ہے جسے نواز شریف صاحب نے سٹیٹ اپر دی سٹیٹ کہا ہے میں اسے سلطنت کی اصطلاح میں بیان کرتا ہوں۔وضاحت اس کی اتنی ہے کہ میرے نزدیک جدید ریاست آئین پر کاربند بندوبست کا نام ہے جبکہ ماورائے آئین حاکمیت(پوشیدہ یا نمایاں) ریاست کو ” سلطنت ” کی فرسودہ و نچلی سیاسی سطح پر لے جاتی ہے۔جہاں قانون حکمرانی نہیں کرتا بلکہ محض حکمرانوں کا آلہ کاربن جاتا ہے۔ملک بھر میں عمومی سطح پر پھیلی موجودہ قانونی لاپرواہی جو بے ہنگم ٹریفک اور اب کرونا کے حوالے سے عوامیرویے میں نمایاں طور پر دیکھی جارہی ہے دراصل مملجت کی بالائی سطح پر آئینی پامالی کا ناگزیر نتیجہ ہے یا پھر رد عمل۔!!!
ہمارے محترم سہیل وڑائچ صاحب نے پی ڈی ایم کی تشفی کے لئے ” حکومت کی مدت میں ایک سال کمی کر دینے کی ” تجویز دی ہے۔یہ بھی دریا کے کنارے بیٹھ کر تیراکی کے رموز پر ماہرانہ تبصرے کی ایک مثال ہے۔جناب پی ڈی ایم کی تحریک موجودہ حکومت کی جگہ جلد از جلد خود بر سراقتدار آنے کے لئے نہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ مارچ2021 میں سینیٹ آف پاکستان کے نصف ارکان مدت پوری کرلیں گے جن کی اکثریت کا تعلق پی ڈی ایم کی مختلف جماعتوں سے ہوگا اور مارچ میں خالی ہونے والی انکی نشستوں پر ہونیوالے انتخابات کے ذریعے سینیٹ میں پی ٹی آئئ اور اس کے اتحادیوں کی عددی قوت بڑھ جائے گی۔اس بات کو اگر یوں کہا جائے کہ پھر سینیٹ میں ایک طرح کی نئی ”باپ“ (بلوچستان عوامی پارٹی) طاقتور ہوجائیگی تو زیادہ مناسب ہوگا۔قبل ازیں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں 64اراکین کھڑے ہو کر عدم اعتماد کااظہار کرتے ہیں مگر نجانے پھر کونسا جادو چلتا ہے کہ وہ 64ووٹ 48بن جاتے ہیں۔اس پس منظر میں پی ٹی آئی یا ” باپ "کی عددی قوت میں اضافے کے بعد خدشہ ہے کہ آئین میں ایسی ترامیم کرنا سہل ہوجائے گا جس سے 18ویں ترمیم،این ایف سی ایوارڈ میں تخفیف اور شاید نیم صدارتی طرز حکومت رائج کرنا ممکن ہوجائے گا۔
پی ڈی ایم خود برسراقتدار آنے کی بجائے مذکورہ امکانی خدشات کے موثر سدباب کے لئے جنوری 2021تک سیاسی تبدیلی کے لئے جدوجہد کررہی ہے۔ اور جب وہ حکومت گرانے کے لیے عسکری ادارے کے حوالے سے بات کرتی ہے تو اس کے معنی کسی مذکورہ طاقتور ادارے کو سیاست میں ملوث ہونے کی دعوت دینے کے بجائے اسے سیاستی میدان سے فاصلہ پیدا کرنے پر مجبوریا قائل کرنا ہے بڑھتے عوامی احتجاجی سیاسی دباؤ کے نتیجے میں جیسے ہی مذکورہ سرپرستی نے ہاتھ ہٹایے۔پی ڈی ایم عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے حکومت کو بدل دے گی۔تاہم اس کے بعد لازم ہے کہ نئی بننے والی حکومت بھی عبوری مگر وسیع البنیاد ہونی چاہیے تاکہ صرف سیاسی جماعتیں یک آواز ہو کر ایک نئے سیاسی میثاق پر متفق ہوں۔جو ملک میں غیرجانبدارنہ شفاف مداخلت سے پاک انتخابات کرائے ایسے انتخابات جن کے نتائج قبولیت عامہ کا معیاری درجہ رکھتے ہوں۔ تب تک سینیٹ کے نصف ارکان کا انتخاب بھی ملتوی رہے کیونکہ2018کے مشکوک و متنازعہ انتخابات کے نتیجے میں قائم صوبائی اسمبلیاں قانونی طور پر سینیٹ کا الیکٹرول کالج نہیں ہوسکتیں جن کی اپنی نمائندہ ساکھ مشکوک ہو وہ اگلے چھ سال کے لئے پارلیمان کے ایوان بالا کے ارکان کیونکر منتخب کرسکتی ہیں؟ یہ بڑا ہم اور بنیادی سوال ہے جسے حل کئے بغیر سیاسی استحکام اور سیاست میں مداخلت کا دروازہ بند نہیں کیا جاسکتا۔میاں شہباز شریف کی وسیع تر نیشنل ڈائیلاگ کی تجویز مبہم بھی ہے اور مشکوک بھی،متذکرہ ڈائیلاگ میں کسی بھی طور پر کسی سرکاری محکمے کی بطور فریق یا اسٹیک ہولڈر شمولیت قطعی قابل قبول نہیں ہو سکتی یہ آئین کو سبوتاڑ کرنے کی سیاسی کوشش ہوگی اور اس کی مزاحمت ہر آئین دوست جمہوری کارکن پر فرض ہے آئین پاکستان کے طے شدہ ڈھانچے کو تسلیم کرانا ہی دراصل آج کے جمہوری سیاسی ایجنڈے کا اہم نکتہ اور قومی تحریک کا محور ہے۔
پس نوشت:۔13دسمبر کو لاہور جلسہ میں رکاوٹ نہ ڈالنے کا سرکاری بیان ایک چال ہوسکتا ہے بعید نہیں کہ حکومت دس دسمبر کو لاہور اور آس پاس کے قریبی شہروں میں مکمل لاک ڈاؤن کر کے اس بار جلسے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرے۔مشتری ہوشیار۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں