بحران ہی بحران

ٓانور ساجدی کا آج کا لم
وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا درست کہ خلق خدا کے پیچھے کرونا کی موت اور آگے بھوک کی کھائی ہے لیکن موجودہ نازک صورتحال میں وزیراعظم کی بات کو کوئی سننے کیلئے تیارنہیں ہے۔اگرچہ وزیراعظم پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی سے وڈیولنک کے ذریعے مخاطب ہوئے ہیں لیکن ان کے خیالات سے اتفاق کرنے والا کوئی نہیں ہے کئی میڈیا والوں نے رائے دی ہے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ وسیم اکرم پلس نہیں بلکہ عمران خان پلس ثابت ہوئے ہیں گزشتہ روز پنجاب میں جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہوئے وہ ایک اور عثمان بزدار دکھائی دے رہے تھے نہایت پراعتماد اور چابکدست دکھائی دے رہے تھے انہوں نے صحافیوں کے سوالوں کا جواب بھی کمال خوبی سے دیا وزیراعظم کی اپنی ٹیم کایہ حال ہے کہ ایک معاون خصوصی ندیم افضل چن ایک آڈیو کال میں پنجابی زبان میں گالیاں دے کر کہہ رہے تھے کہ اس طرح تو ہزاروں لوگ مرجائیں گے۔ن لیگی اس خوش فہمی میں ہیں کہ موجودہ بحران میں ناکامی کے بعد ایک قومی حکومت کا قیام ناگزیر جس کی سربراہی کیلئے شہبازشریف کاانتخاب کرلیا جائیگا اگرچہ عمران خان کی موجودگی میں اس بات کا امکان روشن نہیں ہے لیکن اگر بحران مزید بڑھ گیا تو کچھ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ جتنا بحران بڑھے گا وزیراعظم اتنا ہی اپنا اثر کھودیں گے کرونا کابحران اس لئے بڑھے گا کہ متعدد ممالک سے مزید ہزاروں لوگ واپس آرہے ہیں ایران کابارڈر تو اپنی جگہ افغان بارڈرپر بھی سینکڑوں یا ہزاروں لوگ بلوچستان میں داخلہ کے منتظر ہیں گزشتہ ہفتہ وزیراعظم کے حکم پر جو سینکڑوں ٹرک افغانستان گئے تھے وہ واپس اسپن بولدک آگئے ہیں اورانہیں اندرآنے کی اجازت دینا پڑے گی۔ادھر ایران سے زائرین تو وقتاً فوقتاً تفتان سے ادھر آجاتے ہیں لیکن خفیہ راستوں سے بھی لوگوں کی آمد جاری ہے پاکستان میں کرونا ایران اورسعودی عرب سے آیا ہے اگر لوگوں کی آمد جاری رہی تو ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا اٹلی اور ایران کو بھول جائے گی25کروڑ آبادی وسائل بہت کم صحت کی سہولتوں کایہ حال ہے جنرل افضل کے مطابق ملک میں صرف دوہزار وینٹی لیٹرہیں ان میں سے بھی آدھے خراب ہیں اس صورتحال کے باوجود کوئی نیشنل ایکشن پلان نہیں ہے وزیراعظم اور قومی ادارے ایک پیج پر نہیں ہیں وزیراعظم لاک ٹاؤن ریل اور ٹرانسپورٹ کی بندش کے سخت مخالف ہیں۔یہی وجہ کہ لاک ڈاؤن کے چوتھے روز کراچی میں ناکامی سے دوچار رہا کیونکہ وزیراعظم کی باتوں سے متاثر ہوکر تحریک انصاف کے سادہ لوح اور معصوم کارکن گھروں سے باہر سڑکوں پر آگئے وزیراعظم ابھی تک اپنی بات سمجھانے میں ناکام ہیں جبکہ بھارت میں نریندر مودی نے صرف ایک بات کرکے سب کو سمجھا دیا۔
اگر21دن کا لاک ڈاؤن نہیں کیا
تو21سال تک پچھتانا پڑے گا
ویراعظم کومعیشت کی تباہی کو جوفکر ہے وہ اپنی جگہ درست ہے لیکن اگر کرونا تیزی کے ساتھ پھیلا تو معیشت کہاں باقی رہے گی۔
کرونا اگرچہ ایک عالمی وباہے لیکن یہ وزیراعظم عمران خان کیلئے ”واٹرلو“ ثابت ہورہا ہے کیونکہ پاکستان کی معیشت پہلے سے تباہ تھی حکومت جھوٹے اعداد وشمار کے ذریعے لوگوں کو تسلی دے رہی تھی وزیراعظم کی معاشی ٹیم کا یہ حال ہے کہ گزشتہ روز غریبوں کیلئے جس پیکیج کا اعلان کیا گیا وہ بھی جھوٹ پر مبنی ہے کیونکہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دوہزار روپے میں ایک ہزار کااضافہ کرکے آنکھوں میں دھول جھونکا گیا کہ ہر غریب خاندان کیلئے 3ہزار ماہانہ کی امدادمقرر کی گئی سخت ترین ہنگامی صورتحال کے باوجود سیٹھوں کیلئے بھاری پیکیج منظور کیا گیا حالانکہ اس وقت ملک میں تمام کارخانے بند ہیں اس وقت جن چیزوں کی اشد ضرورت ہے ان میں ادویات اورطبی آلات سرفہرست ہیں ادویات کی تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں کا خام مال باہر سے آتا ہے اگر عالمی نقل وحمل بند رہی تو پاکستان میں ادویات کی شدید قلت پیدا ہوجائے گی جس کی وجہ سے نہ صرف کرونا کے مریض چل بسیں گے بلکہ دیگر امراض میں مبتلا لوگ زیادہ تعداد میں مرجائیں گے ایک اور اہم نکتہ جس کی طرف توجہ نہیں دی جارہی ہے آئندہ دوہفتوں اشیائے صرف کاتمام اسٹاک ختم ہوجائے گا اورحکومتی دعوؤں کے باوجود ملک میں قحط کی سی صورتحال پیدا ہوجائے گی اگریہ خدشہ درست ثابت ہواتو ملک کے تمام بڑے شہروں میں امن وامان کامسئلہ پیدا ہوجائے گا اور بھوکے لوگ لوٹ مار شروع کردیں گے اس سلسلے میں سب سے زیادہ خطرات کراچی کو درپیش ہونگے جہاں روزانہ کماکرکھانے والے لاکھوں لوگ موجود ہیں جب فاقے بڑھ جائیں تو کراچی میں لوٹ مار کے واقعات شروع ہوجائیں گے لہٰذا صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ اس مسئلہ کومدنظررکھیں وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کردے تمام ترقیاتی منصوبے روک دے اورجوہاٹ کیش موجود ہے وہ اشیائے خوردونوش اورادویات کی فراہمی کیلئے مختص کردے رواں سال کاقومی اور صوبائی بجٹ دیگر کاموں پر خرچ نہ کئے جائیں ورنہ بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔یہ بات طے ہے کہ پاکستان جیسے کم وسیلہ والے ملک کے پاس کرونا کے تدراک کیلئے لاک ڈاؤن کے سوا اور کوئی حل نہیں ہے کیونکہ یہاں پر صحت کا شعبہ طویل عرصہ سے نظرانداز ہوتا رہا ہے اس کا پورا انفرااسٹرکچر تباہ ہے لہٰذا لاک ڈاؤن لازمی طور پر کیاجائے لیکن اسکے ساتھ مفت راشن کی فراہمی کوبھی یقینی بنایاجائے سندھ نے پہل کرکے مالیاتی ایمرجنسی نافذ کردی ہے دیگر صوبوں کوبھی چاہئے کہ وہ سندھ کی تقلید کریں جبکہ وفاقی حکومت اپنے تمام وسائل بحران سے نمٹنے کیلئے وقف کردے۔کرونا کے معاشی اثرات تو کچھ عرصہ بعد نظرآئیں گے جب اوورسیز پاکستانی ترسیل زرکم کردیں گے ایکسپورٹ تقریباً آدھے رہ جائیں گے ٹیکس جمع نہ ہونے سے ملک کی مجموعی آمدنی ایک تہائی رہ جائے گی اس آمدنی میں ملک کو چلانا بہت مشکل ہوجائے گا اگراس دوران حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور دفاعی اخراجات کاانتظام کرے تو بھی یہ بڑی کامیابی سمجھاجائیگا اس بہت بڑے بحران سے نمٹنے کیلئے وزیراعظم کو اپنا طرز عمل تبدیل کرنا پڑے گا مثال کے طور پر وہ موجودہ حالات میں بھی اپوزیشن کو اہمیت دینے پر آمادہ نہیں ہیں اور اسکے تعاون کی پیش کش کودھتکاررہے ہیں حالانکہ اپوزیشن نے کرونا پرتوپیں نہیں چلانی لیکن عوام کی بیداری اورحوصلہ دینے میں وہ بھی کردارادا کرسکتی ہے اگربحران شدت اختیار کرگیا تو لیڈر شپ کیلئے اپوزیشن کی طرف دیکھاجائیگا کیونکہ ہرگزرتے دن کے ساتھ وزیراعظم مایوس کرتے جارہے ہیں حتیٰ کہ ادارے بھی وزیراعظم کے سخت اور درشت رویہ سے مایوس ہوتے جارہے ہیں اگر وزیراعظم کا خیال ہے کہ کرونا کی وبا کی تباہ کاری سے زیادہ اہم معیشت ہے تو وہ کھل کر بات کریں اور اعلان کریں کہ کرونا ایک عالمی وبا ہے اسے کنٹرول کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے لہٰذا لوگ اپنے طورپر جہاں تک ممکن ہوسکے احتیاط کریں لاک ڈاؤن کو ختم کردیاجائے جو ہوتا ہے ہونے دو شائد اللہ کی یہی مرضی ہے یہ ایک جوا ہے اگروزیراعظم کاآئیڈیا درست ثابت ہوا تو عوام میں انکی حمایت بڑھ جائے گی اگروہ ہار گئے تو مکمل طوربے توقیر ہوجائیں گے اور عوام میں انکی حمایت صفر رہ جائے گی چنانچہ یہ وقت کسی اور کیلئے ہونہ ہو وزیراعظم کیلئے بڑی آزمائش کی حیثیت رکھتا ہے وزیراعظم کو عثمان بزدار اور جام کمال خان سے کچھ سیکھنا چاہئے جو اتنے نازک وقت میں بھی پرسکون رہتے ہیں اور اپنے معمولات خوف اور افراتفری کے بغیر ادا کررہے ہیں وزیراعظم اس وقت سخت جھنجھلاہٹ اور پریشانی کا شکار نظرآتے ہیں انہوں نے گزشتہ روز میڈیا شکار نظر آئے وہ گزشتہ روز میڈیا کے لوگوں سے بھی غصہ اورناراضگی کے عالم میں بات کی بلکہ دھمکی دی کہ اگر کرونا کے علاوہ دیگرموضوعات چھیڑے گئے تو وہ پریس کانفرنس ختم کردیں گے۔وزیراعظم کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ اعصاب کی جنگ ہے دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے وزیراعظم سرونسن چرچل نے جن حوصلہ اور مضبوط اعصاب کامظاہرہ کیاجنگ میں کامیابی اسی کی بدولت حاصل ہوئی۔ایک اور بحران توانائی کامسئلہ ہے جو سراٹھا کر کھڑا ہے اس وقت حکومت آئی پی پی ایز کا کھربوں روپے کی قرض دار ہے اگر ان سے بات نہ کی گئی اور ادائیگیوں کابندوبست نہ کیا گیا تو وہ بجلی کی پیداوار بند کرسکتے ہیں اسی طرح قطر سے گیس کی فراہمی بھی لازمی طور پر متاثر ہوگی اگرتیل کی ترسیل میں بھی رکاوٹ آگئی تو توانائی کابحران شدت اختیار کرے گا اس بحران سے نمٹنے کیلئے بھی ابھی سے توجہ دینی چاہئے ورنہ جو ہوگا اس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں