ڈی ایچ اے کو اراضی کے حصول کی اجازت غیر آئینی اقدام ہے،بلوچستان ہائیکورٹ
کوئٹہ:بلوچستان ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے)ایکٹ 2015ء کی بعض شقات کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیکر حکم دیا ہے کہ ڈی ایچ اے کو اراضی کے حصول کی اجازت غیر آئینی اقدام ہے صرف وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوامی مفاد میں زمین حاصل کرسکتی ہیں،صوبائی حکومت اور قانون سازوں نے آئینی طور پر سرکاری ادارے کی بجائے غیرسرکاری ادارے کو فوقیت دی،قانون سازوں کو قانون سازی اور ترامیم کا اختیار حاصل ہے،لیکن اسے آئینی شق سے متصادم نہیں ہوناچاہئے۔یہ فیصلہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس جمال مندوخیل کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی ایکٹ کیخلاف درخواست گزار کاشف کاکڑ ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر آئینی درخواست کی سماعت پر سنایا۔ پانچ رکنی پنچ میں جسٹس نعیم اختر افغان،جسٹس ہاشم کاکڑ،جسٹس عبدالحمیدبلوچ اور جسٹس عبداللہ بلوچ شامل تھے دوران سماعت چیف جسٹس جمال خان مندوخیل نے ڈی ایچ اے ایکٹ کیخلاف درخواست پر فیصلہ پڑھ کرسنایا عدالت نے ڈی ایچ اے ایکٹ 2015کی شق نمبر دو۔ کیو۔ چھ بی 1-14, 14بی کو آئین کے متصادم قرار دیا عدالت نے ڈی ایچ اے کے ایگزیکٹو بورڈ کو مخصوص علاقے کے استعمال کی دی گئی اجازت کو بھی کالعدم قرار دے دیا عدالت نے حکم دیا کہ ڈی ایچ اے کو اراضی کے حصول کی اجازت بھی غیر آئینی اقدام ہے صرف وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوامی مفاد میں زمین حاصل کرسکتی ہیں چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ نے ریمارکس دئیے کہ 2015میں اس وقت کی حکومتوں کو یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ نجی یا غیرسرکاری ادارے کو زمین کے حصول کا اختیاردے سکیں صوبائی حکومت اور قانون سازوں نے آئینی طور پر سرکاری ادارے کی بجائے غیرسرکاری ادارے کو فوقیت دی قانون سازوں کو قانون سازی اور ترامیم کا اختیار حاصل ہے،لیکن اسے آئینی شق سے متصادم نہیں ہوناچاہئے عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دئے کہ جس طرح ڈی ایچ اے 2015ایکٹ کی قانون سازی ہوئی وہ اس وقت کی حکومت اور اراکین اسمبلی کی نااہلی اورعدم قابلیت ظاہر کرتی ہے۔


