کریمہ! ایک روشن چراغ

تحریر: عبدالسلام عارف
بلوچوں کے ساتھ زمانہ کا جبر مسلسل قدیمی اور تاریخی گواہی ہے، جبر سہنا اورحوادث کا شکار ہونا بلوچ کیلئے نئی بات نہیں، مگر یورپی چور اور راہزن اقوام کی ایشیا اور مشرق وسطیٰ آمد نے بلوچوں کیلئے نئے فتنے ایجاد کیئے کیونکہ یہ چالاک اور فریب کار رہزن ہرقیمت پر آگے جانا چاہتے تھے اور بلوچ ہرقیمت پر ان کے سامنے فولادی دیوار بن جاتے تھے۔ اس لیئے اخلاقی اور فوجی شکست کے بعد یورپی رہزنوں نے راستے اور انداز تبدیل کیئے، اس تبدیلی کا نتیجہ تھا جو پرتگیزی ہوت سردار کو قابوکرنے پر کامیاب ہوگئے۔انگریز کی کامیاب ہونے میں جتنے عرصہ گزر گئے وہ بھی بلوچ کے مفاخر اور انگریز کی ذلت کی مخفی داستان ہیں۔جاتے وقت انگریز نے بلوچ سے ایسا انتقام لیا کہ جو صدیوں تک بلوچ نسل کیلئے مصیبت بنتی رہے گی۔
بظاہر توبلوچستان ایک معاہدہ اور شرائط کے تحت مملکت خداداد کاحصہ بنا لیکن یہ المناک حقیقت ہے کہ مملکت خداداد آج بھی اپنے منزل سے اتنا دور ہے جتنا دور ستر سال پہلے تھا اور تو اور بلوچستان پر اتنے عرصہ اتنی پسماندگی اور ستم ہوئے کہ گونگوں کی بھی آوازیں نکل گئیں۔مملکت خداداد بندگان خدا کیلئے فلاحی ریاست کے بجائے لمیٹڈ کمپنی بن گئی،بلوچ نے جس انداز میں بھی بات کی وہ غدار،باغی قرار پایا۔سترسال بلوچ کو صرف مایوسی اور اجنبیت اور طبقاتی سلوک ملا، بلوچ خود بھی بذات خود اپنی مجرم ہیں، بلوچ شاید وہ نہ رہے جن کی بلوچیت ایک صفت اور کمال ہو، جب بلوچیت ایک نسبی پہچان ہو تو وہ اتنا اہم نہیں ہوتا۔بلوچ نواب اکبرخان بگٹی تھا جس نے بلوچیت کو ایک صفت اور معیار ثابت کرکے دکھادیا۔یا بلوچ وہ نحیف ونزار خاتون تھی جو الماس بن کر جبر اور حالات سے ٹکّر لینے میں بلا تامّل وارد میدان ہوئی۔
کریمہ نے بلوچ وبلوچستان کو نام اور زندگی دیدی، یہ سال بلوچ وبلوچستان پر بہت بھاری رہا۔انسان موت کا شکار اور آسان ہدف ہے، دنیاکی طول وعرض میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنتے ہیں اور لاکھوں لوگ مرنے کیلئے پیدا ہوتے ہیں،کوئی بھی نوزائیدہ کی ولادت کے موقع پر اسکے والدین کی خوشی دیدنی ہوتی ہے اورہر والدین اپنے بچے کیلئے امن وسلامتی کی متمنّی ہوتے ہیں۔کریمہ کے والدین نے بھی اپنے بچی کیلئے یہی سوچاہوگا،لیکن اچانک جب بلوچستان قیمتی بن گئی تو بلوچ کے برے دن آنے شروع ہوگئے،یہیں سے مکران کے پسماندہ اور دور افتادہ علاقے تمپ کے محراب کی صاحبزادی فریاد بن گئی اور اس آواز نے بہت سے حقائق سے پردے اٹھائے۔کریمہ دیگر انسانوں کی طرح ایک زندگی کی مالکہ تھیں اور زندگی کے بوجھ سے سبکدوش ہوگئی، مگر بلوچ وبلوچستان کے مسائل اور چیلنج اپنی جگہ برقرار ہیں۔
اب تک جو کچھ ہوتاچلا آرہاہے اس کا معنی یہ ہے حل طلب مسائل انصاف اور عدالت الٰہیہ کی روشنی میں نہ ہوئے تو پتہ نہیں مظالم کے نتائج کس کے کو کیا دیں گے، باقی وعدہ خداوندی یہی ہے کہ عاقبت کی جیت حق کی ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں