خضدار کے واحد ہسپتال کا درد بھرا احوال

تحریر: نوید موسیانی
ضلع خضدار سی پیک کی اہم گزرگاہ بھی ہیاورآبادی اور صوبے کے لحاظ سے بلوچستان کا دوسرا بڑا شہر بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خضدار کو صوبہ بلوچستان میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سرزمینِ خضدار نے ہی بلوچستان اسمبلی کو چار وزیراعلیٰ دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ تین "ایم پی اے” ایک "ایم این اے” اور موجودہ چار سینیٹرز کا یہ اعزازی ضلع بھی ہے۔بلوچستان کے وسط میں واقع یہ ضلع سی پیک روٹ کا اہم مرکز ہے اور قلات ڈویڑن کا صدر مقام بھی ہے۔ان سب تعریفی کلمات کے بعد اگر صحت کی سہولیات پر بات کی جائے تو یقیناً پڑھنے والے یہی سمھیں گے خضدار میں طبی سہولیات بہت تسلی بخش ہوگی۔
لیکن نہیں جناب، یہ معاملہ آپ کے سوچ کے برعکس ہے، یہاں کا ڈویڑنل ہیڈکوارٹر یا ضلعی ہیڈکوارٹر اس وقت تین تحصیل خضدار، نال،وڈھ (سب تحصیل کرخ، باغبانہ، زہری مولہ) کا واحد ہسپتال ہے۔ جو پورے ضلع کے چھوٹے چھوٹے صحت کے مراکز کو سنبھالتا بھی ہے۔یہاں اگر ڈاکٹروں کا تذکرہ کیا جائے تو ڈویڑنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں دو سرجن، تین چار فزیشن دو تین لیڈی ڈاکٹر، اور ایک ایک ماہر امراض آنکھ، قلب،جلد اور دانت موجود ہیں۔مگر شومئی قسمت کہ آرتھوپیڈک، (ہڈیوں کا ڈاکٹر) اور ماہر امراض ناک، کان اور گلہ کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔
پسماندہ علاقے کے تین نمائندوں کی موجودگی میں غریب عوام اپنے مریضوں کو مجبوراً کراچی یا کوئٹہ لیکر جاتے ہیں۔ اسطرح خطیر رقم کرایوں اور ہسپتالوں میں صرف ہوجاتی ہے۔
بات کی جائے ادویہ کی تو قارئینِ کرام آپ کو یہ سْن کر تعجب ہوگا کہ پورے ضلع کو سنبھالنے والے اس ہسپتال میں ٹانکہ لگانے والا ایک دھاگہ (سلک، اسٹیچ) موجود نہیں۔ لیکن یہاں سے بلوچستان کی مشہور خونی آرسی ڈی ضرور گزرتی ہے۔ اس قومی شاہراہ پر آئے روز حادثات کا پیش آنا معمول بن گیا ہے۔ ڈان میں شائع ایک خبر کے مطابق صرف 2018 کی جنوری میں اس روڈ پر 64 افراد لقمہ اجل بنے تھے۔ 2019 کے اکتوبر سے نومبر 2020 تک 141افراد شاہراہ حادثے میں فوت ہوئے تھے۔ اگرچہ ان سانحات میں ڈرائیوروں کی جلدبازی اور غفلت کو نظراندازنہیں کیا جاسکتا لیکن ایک جانب تو شاہراہ کو دوریہ کرنے کی ضرورت ہے تو دوسری جانب اسے معیارات کے تحت تعمیر کرنا ہوگا۔ ممتاز معیشت داں، ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اپنی کتاب ّ اے کرائی فار جسٹس، امپیریکل انسائٹس فرام بلوچستان” میں لکھا ہے کہ بلوچستان کی تمام شاہراہوں کو فورلین (چاررویہ) کردینا چاہیے کیونکہ آرسی ڈی سمیت اس کی کئی شاہراہیں یک رویہ ہیں۔
اب تناظر میں خضدار ٹیچنگ ہسپتال کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ لیکن اسی تناظر میں درد کش ادویہ مفقود ہیں، حادثے کے شکار مریض کو لکھ کر دیا جاتا ہے کہ وہ روئی،دستانے اور پلستر کا انتظام خود کرے۔ اگر کوئی مریض چار پانچ دن ہسپتال میں گزارے تو اس کے اخراجات ہزاروں تک جاپہنچتے ہیں، کیونکہ اسے دوائیں تک بازار سے لانی پڑتی ہیں۔ یہاں تک کہ بسا اوقات، پٹیاں، سرنج اور ٹنکچر وغیرہ بھی موجود نہیں ہوتے۔ سب سے بڑے افسوس اور المیہ بات کی یہ ہے کہ آٹھ ساڑھے آٹھ لاکھ آبادی والے ضلعی ہیڈ کوارٹرہسپتال میں سانپ یا کتے کے کاٹنے کی کوئی ویکسین اور اینٹی وینم موجود نہیں۔ اگر کسی کو کتا کاٹ لے یا سانپ ڈس جائے تو مریض سے پہلے اسکے ورثا دوائی کی تلاش میں قریب المرگ ہوجاتے ہیں۔
سہولیات کی قلت کی وجہ سے دوران زچگی سینکڑوں خواتین موت کا منہ میں چلی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان زچہ و بچہ کی اموات کاتناسب سب سے بلند ہے کیونکہ بقیہ صوبے میں صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ جہاں تک بجلی کا سوال ہے تو یہاں لوڈشیڈنگ معمول کا حصہ ہے۔ یہاں دو بڑے جنریٹر کی موجودگی کے باوجود وہ غیر فعال ہیں جوکہ انتظامیہ کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ڈویڑنل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں ایمبولینس کی بھی شدید قلت ہے۔ بڑی آبادی کو سنبھالنے والے لاچار ہسپتال میں تین یا چار ایمبولینس ہیں جو کہ صرف خضدار اور قریبی شہر کو جانے تک محدود ہیں۔دوسری جانب صفائی ستھرائی کی صورتحال انتہائی ابتر ہے اور صرف صبح و شام جھاڑو لگتی ہے جبکہ ان گنت عملے کے باوجود بیت الخلا اس قدر گندے ہیں کہ وہاں مریض تو مریض تندرست بھی جائے تو بیماری میں مبتلا ہوجائے۔ اس ہسپتال کو غیرمعمولی خطیر بجٹ ملتا ہے لیکن پانی کی بھی شدید قلت ہے۔ کھٹان میں واقع ندی میں ایک بورلگا ہوا ہے جوکہ اتنے بڑے ہسپتال کے لئے ناکافی ہے۔پورے ہسپتال میں "بلڈ ٹیسٹ کرانے کی ایک جگہ ہے جہاں سوائے اسٹاف کے کوئی چیز موجود نہیں۔ کوئی کٹ موجود نہیں۔آپریشن تھیٹر اور شعبہ حادثات ایک چیز بھی میسر نہیں۔کام آنے والے آلات بھی ناقابلِ استعمال ہوچکے ہیں۔چار سینیٹرز، تین ایم پی اے، اور ایک ایم این اے کے موجودگی میں ڈویڑنل ہیڈکوارٹر کا یہ حال ہے۔جو کہ ان کے نااہلی، اور عدم دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت ھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں