روکیے یہاں کرپشن نہیں شور جرم ہے

تحریر بایزید خان خروٹی
جب آپ کا قلم کاغذ کا سامنا کرنے سے شرماتا ہو اور لکھنے سے شرمسار ہو لیکن کرپٹ نظام جس کے متعلق آپ بار باراپنے قلم کو لکھنے مجبور کررہے ہوں لیکن کرپٹ مافیازکواس کا احساس تک نہ ہو تب بات شرمندگی سی کیفیت اختیار کر لیتی ہے اور بھر گماں گزرتا ہے کہ کرپشن کرنے والوں کی یہ بے خوفی دراصل اس بات کی غمازی ہے کہ یہ ریاستی ملازم نہیں بلکہ ریاستی ملازمین کی آڑ میں بہروپئے اور چور نظام کے اندر گھس آئے ہیں اور ان کے اپنے مشترک مفادات ہیں اور ایک دوسرے کے تحفظ کو اپنی مجبوری سمجھتے ہیں یہ مافیا زنہ ہی ریاستی قوانین سے کوئی شرمندگی کا احساس کرتے ہیں اور نہ ہی انکی دلوں میں قانون کا خوف ہے ہاں البتہ اگر خوف ہے بھی تومعاشرے میں موجود ان لوگوں کے دلوں میں جو ایسے لوگوں کے کرتوں کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ کیونکہ کیا معلوم رات گئے کونسی حکومتی مسلح گاڑیاں آپ کے گھر کو حصار میں لیں آپ کو خاموش کرانے کے لیے۔ ریاست کے عوام کے دفاع اور پرسکون زندگی کے لیے خریدے گئے آلات اور وسائل جنکا مقصد چوروں ڈاکوؤں سماج دشمن عناصر کی سرکوبی کرنا ہے آپ کے خلاف چوروں کے تحفظ کے بہتر مفاد میں استعمال ہو کیونکہ یہاں کرپشن جرم نہیں بلکہ کرپشن کے خلاف آواز اٹھانا جرم ہے۔یہاں چور کی بجائے چوری کی صدایں لگانے اورلاقونیت کی اس ماحول میں قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرنے والے محلہ داروں کو خاموش کرنے کیلئے استعمال کئے جارہے ہیں۔لاک ڈاون کی وجہ سے زیادہ تر وقت گھر پر گزر رہا ہے۔ ڈاکٹرز کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے آنے جانے سے تقریبا پرہیز کر رہا ہوں جس کی وجہ سے سوچنے اور لکھنے کا ٹائم بھی کچھ زیادہ ہی ہے۔ حکمرانوں کے اقدامات اور اعلانات اور پھر ان پر عملدرآمد کو بھی ٹی وی، اخبارات میں دیکھ اور پرکھ رہا ہوں۔ جمعہ کے روز حکومت بلوچستان نے ایک نوٹیفکیشن کرکے14 اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو ایسے وقت میں تبدیل کردیا ہے جب پورے صوبے میں لاک ڈاون ہے اور یہ تمام ڈپٹی کمشنرز اپنے اضلاع میں کوررونا وائرس کے بعدکی صورتحال دیکھنے کی ذمہ داریاں ادا کررہے تھے کہ ایک دم سے اہم ترین پوسٹوں سے آفیسران کے نامعلوم قسم کے تبادلے نامعلوم طرز پرکردیئے ہیں۔ جسکا ماضی کے حکومتی دفتری معمالات تبادلوں کی طرح کوئی پرپوزل بھی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی توقع کی جارہی تھی کہ اس طرح کی ہنگامی صورتحال میں یہ تبادلے کردیئے جائینگے لیکن یہ کر دیئے گئے ہیں یہی نہیں دو سیکرٹریز کو بھی تبدیل کردیا گیا اورتقریبا گریڈ 20 کے 25 آفسیران کی بحیثیت آفیسر بکار سرکارخاص ہونے کے باجود سکریٹری لائیواسٹاک جس کے پاس اپنے محکمے کا چارج ہونے کے ساتھ ساتھ وزیراعلی بلوچستان کے خاص حکم سیکرٹری فوڈ کا اضافی چارج دیا گیا ہے میں ا س دوران سیلیکٹڈ حکومتی ٹیم کو بھی ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مختلف ایریاز کے چند لوگوں سے حکومتی منسٹرز، مشیران کرام، سپیشل اسسٹنٹس کے متعلق پوچھا۔ جنہیں اشرافی طبقہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔جسے اٹھارویں ترمیم سے بچنے کے لیے عہدوں کے مختلف نام دے دیا گیا۔ اس مصیبت کی گھڑی میں ان کی اپنے علاقے میں کیا ایکٹیوٹی ہے۔ وہ معاشی طور پر کمزور طبقات کی کس طرح مدد کر رہے ہیں۔لوگوں میں اس مصیبت سے آگاہی کے لیے کیا پروگرام ترتیب دیئے ہیں۔ یقین جانیے بارکھان سے چمن، جعفرآباد سے ژوب اور بیلہ سے تربت تک باوجود کوشش کی سب گمشدہ نکلے۔ ہاں البتہ وزیراعلی صاحب کی آنیاں جانیاں دکھائی دیں اب وہ پر اثر تھیں یا بے اثر یہ آنے والے دن ہی بتائیں گے۔ مگر بقیہ حکومتی بریگیڈ لاپتہ نکلی۔ پنجاب، سندھ اور کے پی کے میں بہت سے لوگ غریبوں کی امداد کے لیے نکلے ہیں اور اپنی حتی المقدور کوشش کر رہے ہیں لیکن یہاں جنہیں فرنٹ پر ہونا چاہیے تھا وہ تو کہیں اپنے گھروں میں خودساختہ آئسولیشن میں چلے گئے ہیں۔ عام لوگوں کا کہنا تھا کہ جب حکومتی امداد کی تقسیم کا وقت آئے گا تو پھر چودھری بننے کے لیے یہ سب اپنے اپنے محلوں سے اچانک نمودار ہو جائیں گے اور امداد کا کچھ حصہ خیرات کے طور پر تقسیم ہو گا۔ چند غریبوں پر احسان کیا جائے گا ان کی انا اور خود داری کا سودا ہو گا۔ جبکہ امداد کا زیادہ تر حصہ مال غنیمت تصور ہو گا۔ حکومت کے چال چلن جاننے والے تو یہ تک کہہ رہے تھے کہ پورے صوبے میں لاک ڈاون ہے۔ نقل و حرکت محدود ہے لیکن دیکھنا مجال ہے جو سرکاری ڈیزل، پٹرول کی کھپت میں کوئی کمی ہو۔ کہنے والوں کی زبان اور سوچ کو تو کوئی نہیں روک سکتا۔اس حکومت کے جس قدر اخراجات ہیں وہ اسکا آدھا بھی بظاہر تو ڈیلور ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے اب ضرورت ہے کہ یہاں ہر چوراہے پر بورڈز آویزاں کئے جائیں کہ رکیے آپ بلوچستان میں داخل ہوچکے ہیں یہاں کرپشن نہیں شور جرم ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں