سینیٹ الیکشن یا بکرامنڈی؟

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ بلوچستان میں سینیٹ کی نشست کے لئے 45 سے 50 کروڑ کا ریٹ ہے۔اینکر نے اتنی بڑی قیمت پرحیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ریٹ تو ڈھائی سے پانچ کروڑ کے درمیان ہیں تو اسد عمر نے وضاحت کی یہ ریٹ دوسرے صوبے پنجاب کا ہے،اور انہیں نے کہا کہ یہ ریٹ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی اطلاعات ہیں۔ بلوچستان میں ارکان کی تعداد کم ہے۔ اس لئے ریٹ بھی زیادہ ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی کے سینیٹر ولید اقبال کا خیال ہے کہ اگر کسی نے بلوچستان میں سینیٹر بننا ہے تو اسے 40سے70کروڑ خرچ کرنا ہوں گے۔اگر جمہوریت اسی کا نام ہے تو اسد عمر کے نزدیک یہ منظرباعث شرم ہے۔انتخاب نیوز کے مطابق پنجاب میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نون کا ٹکٹ لینے کے لئے ارکان کی بھاگ دوڑ شروع ہو چکی ہے۔لیگی ارکان شہباز شریف کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے عدالت میں ملاقاتیں کر رہے ہیں۔عام حالات میں ایسی چہل پہل اور گہما گہمی کوئی تعجب انگیز بات نہیں ہوتی مگرنون لیگ کی اعلیٰ قیادت کے اعلان کے بعدچاروں جانب سے سے متواتر ایک ہی آواز آنا شروع ہو گئی تھی:”استعفے دیں گے اور سینیٹ انتخابات کا مرحلہ حکومت کے لئے ناممکن بنا دیں گے۔ حکومت کو سینیٹ انتخابات سے پہلے گھر جانا ہوگا“۔اگر یہ دعویٰ کرنے سے پہلے قانونی ماہرین سے مشاورت کر لی جاتی تو یہ خفت اٹھانے سے بچا جا سکتا تھا۔عام آدمی جس جماعت سے تعلق رکھتاہو اسے اپنی قیادت کے بارے میں کامل یقین ہوتا ہے کہ روئے زمین پر اس کے قائد سے زیادہ باخبر سیاست دان فی زمانہ موجود نہیں۔لیکن جب اپنے محبوب رہنما کو اپنے دعووں میں باربار تبدیلیاں کرتے دیکھتا ہے تو اسے روحانی اذیت ہوتی ہے۔ اس کے معصوم جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ کاش ہمارے سیاست دان اس حقیقت سے آشنا ہوتے! انہیں اس نازک رشتے کی اہمیت کا احساس ہوتا!مگر دوسری طرف سیاست دانوں کا اپنے رویہ سے سختی سے جڑے رہنا بھی بلا سبب نہیں۔ انہیں سینیٹ کے انتخابی نتائج میں میں کسی معجزے کی آج بھی توقع ہے۔ممکن ہے امیدوار اپنے پرانے راستے کو اس لئے چھوڑنے کو تیار نہیں کہ ابھی انہیں ذومعنے الفاظ میں قطع تعلق کے لئے کہا جا رہا ہے۔دو ٹوک الفاظ میں ہدایت دی جاتی تو کب کے اپنے گھر میں بیٹھے آرام کر رہے ہوتے۔ تاہم ابھی انتخابی قوانین کی تیاری کا معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔ججز انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ عوام کو ایک حد تک امید بندھی ہے،شاید اصلاح احوال کی راہ نکل آئے،جوکچھ ہونا ہے 11مارچ تک ہو جائے گا۔ادھر سرکاری ملازمین بھی پرانی تنخواہ میں گزارہ نہ ہو نے کے باعث پریشان ہو کرسڑکوں پر آ گئے ہیں۔وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ حکومت 40فیصد بڑھانے کو تیار ہے مگر ملازمین بنیادی تنخواہ میں 40فیصد اضافے کامطالبہ کر رہے ہیں۔ مالیاتی اعتبار سے دونوں باتوں میں بڑا فرق ہوگا،حکومت جانتی ہے کہ سرکاری ملزمین اگر تنخواہ میں زندہ نہیں رہ سکیں گے تو احتجاج کریں گے اور اس کے نتیجے میں روزمرہ کے معمولات متأثر ہوں گے۔ خرابی پیدا ہو گی، رخنہ آئے گا۔بچنے کا درمیانہ راستہ ہے،کچھ ملازمین پیچھے ہٹیں اور کچھ حکومت آگے بڑھے۔حکومت ذرائع آمدنی کے دائرے میں رہ کر کوئی قدم اٹھا سکتی ہے۔حکومت کو ماضی کی غلطیوں سے بچتے ہوئے دانشمنددانہ راستہ نکالنا ہاہیئے۔ محض دباؤ میں آکر وقتی مصلحتوں کے سامنے سرنگوں ہوجانا بھی درست حکمت عملی نہیں،اور ملازمین کی جائز ضرورتوں سے آنکھیں بند رکھنا بھی درست نہیں ہوسکتا،دونوں فریق حقیقت پسندانہ راستہ اختیار کریں، جذبات کی شدت اور حقائق کی اصلیت میں فرق محسوس کیا جائے۔حکومومت بھی ٹھنڈے دل سے سوچے، ملازمین کے لئے جو زیادہ سے زیادہ کرسکتی ہے تمام تر دلائل کے ساتھ سامنے لے آئے۔دوسری طرف سرکاری ملازمین بھی حقیقت پسندی سے کام لیں جہاں ممکن ہو معاہدہ کر لیں۔ملکی معیشت میں بہتری کی کوششیں جاری ہیں۔ تمام ادارے اپنے فرائض ادا کریں گے تو بہتر مستقبل کی جانب پاکستان بڑھے گا، کسٹم،اورایف بی آرکو اپنے دامن پر لگے ماضی کے داغ اپنی بہتر کارکردگی سے دھونے ہوں گے۔اسمگلنگ کی روک تھام کے بغیر ملکی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ممکن نہیں۔عام آدمی جانتا ہے کہ ملک آئی ایم ایف سے قرض لینے کی وجہ سے بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں ماہانہ اضافے کا پابند ہے،اس لئے کہ انہیں اپنا قرض واپس لینا ہے،مگر عوام پر کیا گزرے گی؟اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔لیکن عمران خان کی حکومت اور آئی ایم ایف کے مزاج میں فرق ہونا ضروری ہے۔ایک کی حیثیت مالیاتی ادارے کی سی ہے،اسے مال کا تحفظ کرنا ہے، منافع کمانا ہے۔اس دوران اگر ملک اپنی معیشت بہتر بنانے میں کامیاب ہو جائے تو یہ اس کی خوش نصیبی ہے۔ اور اگر یونان کی مثال بن جائے تب بھی اسے کوئی فکر نہیں۔اس لئے کہ اس نے یونان کے ایتھنز جیسے قیمتی اثاثے پہلے ہی گروی رکھوا لئے ہوتے ہیں ہیں۔اور یہ بھی زمینی حقیقت ہے کہ حکومتیں جو قرض لیتی ہیں، اس کی ادائیگی ہمیشہ غریب عوام کو ہی کرنا ہوتی ہے۔ پاکستان کے عوام گزشتہ 73سال سے یہ ادائیگی کرتے چلے آئے ہیں۔موجودہ حکومت سے عوام کو امید تھی کہ اس کے دکھوں میں کمی لائے گی، لیکن انہیں بوجوہ مایوسی ہوئی، پی ٹی آئی کی صفوں میں بھی ضمیر کی قیمت ادا کر کے سینیٹر اور بعد میں وزیرخزانہ بننے والے افراد شامل ہیں۔ یہ درست ہے عمران خان نے علم ہوتے ہی ایکشن لیا اور وزارت خزانہ کا عہدہ واپس لے لیا۔مگر اس دوران انہوں اپنی ادا کردہ قیمت سے زائد وصول کر لیا ہوگا۔پیسہ اسپیکر ہاؤس میں تقسیم ہوا،یہ الگ سوالیہ نشان ہے اوراس لین دین میں وزیر دفاع پرویز خٹک کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔معاملہ خاصا پیچیدہ ہے،دور تک جاتا ہے۔کیا سب کے خلاف کارروائی ممکن ہے؟اور سب کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو ایک وزیر خزانہ کا استعفیٰ کتنی کرپشن کا ازالہ کر سکے گا؟ عام آدمی آنکھیں رکھتا ہے، دیکھتا ہے،عقل رکھتا ہے، سوچتا ہے۔اسے بھیڑ بکری نہ سمجھا جائے۔یاد رہے منہ میں زبان بھی رکھتا ہے، جس دن بول پڑا تو پورا حساب مانگے گا،اور لے کررہے گا!

اپنا تبصرہ بھیجیں